Rahat indori

اردو شعر و ادب کے زندہ دل اور بے باک شاعر راحت اندوری اپنی زندگی کی 70 بہاریں دیکھنے کے بعد 11 اگست 2020 کو اس دار فانی سے رخصت ہوگئے 


ڈاکٹر راحت اندوری کی شخصیت اندون و بیرون ہند کسی تعرف کی محتاج نہیں ان کی شخصیت ہزاروں دلوں کی دھڑکن اور پس مردہ ضمیر میں روح پیدا کرنے کے لیے کافی تھی ان کا نام ہی لوگوں کے شوق و رغبت میں اضافے کا باعث ہوا کرتا تھا

 شعر و سخن کی محفلوں کو زندگی کے مقصد سے روشناس کرنے کا ملکہ رکھنے والے, زندگی کی مشکلات سے رومانیت کے پل چرانے والے , عوام کی پریشانیوں پر شاعری کے مرہم لگانے والے , اردو شعر و ادب کے بے تاج بادشاہ کے اس دار فانی سے دار جاودانی کی طرف کوچ کر جانے سے بڑے سے بڑے ادیب, شاعر, استاد ,اور پروفیسر کی  آنکھیں افسوس و ملال میں نم ہیں 


ان کے جانے سے مشاعروں کی دنیا ویران ہوگئی,  شعر و شاعری کی نششتیں ماند پڑ گئیں, ادبی دنیا کی محفلیں بے نور ہوگئیں.  ہر طرف غم ہے, افسوس ہے,  ملال ہے اور ہر کروٹ سناٹا ہی سناٹا ہے , عالم ادب و ثقافت کا ایسا لا فانی رخسارہ ہے جو صدیوں تک قابل تلافی نہیں ہے


آخری لمحے 


ڈاکٹر راحت اندوری کا آخری ٹیوٹ
راحت اندوری کا آخری ٹیوٹ 

ڈاکٹر راحت اندوری نے اپنی زندگی کی آخری سانس اندور کے ہوسپٹل اوروبندو ہوسپٹل میں لی ان کا انتقال حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے ہوا.  ان کی طبیعت کئی دن سے خراب چل رہی تھی .چیکب میں کرونا مثبت آیا تھا جس کی جانکاری انھوں نے اپنی موت سے 9 گھنٹہ قبل ٹیوٹر ہینڈل سے دی تھی  جس میں انھوں نے دعا کی درخواست کی تھی. ڈاکٹروں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ وہ نمونیا میں بھی گرفتار تھے ان کے موت کی وجہ کچھ بھی ہو لیکن بیماری نے ہم سے ایک زندہ دل شاعر کو چھین لیا. 

ولادت و تعلیم کے مراحل 

راحت اندوری کا جنم یکم جنوری 1950 کو مدھیہ پردیش کے شہر اندور میں ہوا۔ ان کے والد رفعت اندوری ایک ملازم شخص تھے جس کی وجہ سے انہیں بچپن میں غربت و مفلسی دیکھنی پڑی. لیکن تنگی و پریشانی کے باوجود انہوں نے تعلیم کو جاری رکھا. اور شہر اندور کے ہی نوتن سکول میں انھوں نے ہائیر سیکنڈری کی تعلیم حاصل کی اور وہیں کے اسلامیہ کریمیہ کالج سے انھوں نے گریجویشن مکمل کیا گریجویٹ کرنے کے بعد برکت اللہ یونیورسٹی سےاردو میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔اور اردو شعر و ادب کی باریکیوں اور اس کی پلکوں کو سنبھالا. اردو شاعری کو اپنا میدان بنایا 


شعر و شاعری کے آئینے میں 


راحت اندوری پر تعزیت

ڈاکٹر راحت اندوری نے اپنی لافانی شاعری سے ہزارہا ہزار محفلوں کو گرمایا وہ ایک ممتاز اور سنجیدہ شاعر تھے ان کی شاعری سماجی , سیاسی اور مذہبی پہلوؤں کی غماز ہے ان کی شاعری میں ٹوٹے دلوں کے لیے تسکین کا سامان اور عاشق زار کے لئے محبت و شادمانی کا اثاثہ موجود ہے. 

وہ نوجوان نسل کی نبض تھامنا خوب اچھے سے جانتے تھے انھیں اگر عوامی شاعر کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا کیونکہ وہ عوام کے جذبات کو اپنی شاعری میں ڈھال دیا کرتے تھے. 

Read More 


Read More 

Read More 


ان کے کلام کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ سماجی اور عام فہم کلام ہوا کرتا تھا جس میں الفاظ کی الٹ پھیر، خیالات کی جدت،فکر کی نزاکت اور لہجے کی شرافت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی تھی جس کا ہر پہلو قارٸین کے دلوں سے اٹھنے والی چنگاری کو شعلہ جوالہ بنا دیتا تھا ۔وہ شاعری کی دنیامیں نظیر اکبر آبادی کی ظرافت ، میر تقی میر کی ناز وادا، اسد اللہ غالب کی عشوہ و غمزہ اور فراق کی محبت و عشق کی جھلکیاں جا بجا دکھاٸی دیتی تھیں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہمارے شعراۓ اسلاف کی روح ان میں سرایت کر گٸی ہو جن کا ایک ایک بول دل کی تہوں کو جگمگا دیتا اور دماغ کی سلوٹوں کو مہمیز کر دیا کرتا تھا


راحت اندوری وقت حاضر کے ایک بے باک ونڈر اور بے خوف آواز تھے جسے کسی موڑ میں دبایا نہیں جا سکا ان کے جانے سے ہندوستان کی راحت ہی چلی گئی  اپنی شاعری سے وہ محفلوں کو ایک مقصد دے کر گئے. ان کی شخصیت مجمع کو لوٹنے والی شخصیت تھی وہ دلوں میں راج کیا کرتے تھے. 

بالفاظ دیگر وہ ایک خود رنگ شاعر تھے جن کا ثانی کوئی نہیں. 

شاعری کے ساتھ انہوں نے دو درجن سے زیادہ فلموں میں گیت لکھے جیسے 

سر,  خودار, مڈر,  منا بھائی ایم بی بی ایس, مشن کشمیر, 

قریب, عشق , بیگم جان فلمیں اس فہرست میں شامل ہیں



 شاعری نمونے 


ڈاکٹر مرحوم ہمیشہ سے میڈیا کی جانبدارانہ سرگرمیوں کی آلوچنا کرتے رہے اور اس شعبے کو سیاسی آقاؤں کے اثر سے صاف رکھنے کے حمایتی رہے


سب کی پگڑی کو ہواؤں میں اچھالا جائے 

سوچتا ہوں کوئی اخبار نکالا جائے 

پی کے جو مست ہیں ان سے تو کوئی خوف نہیں 

پی کے جو ہوش میں ہیں ان کو سنبھالا جائے 



ڈاکٹر کے رگ و ریشے میں وطن پرستی کی دھن اتم درجہ میں موجود تھی انہوں نے اپنی شاعری کا ایک حصہ وطن پرستی کے لئے مختص کر دیا 


اپنی پہچان مٹانے کو کہا جاتا ہے 

بستیاں چھوڑ کے جانے کو کہا جاتا ہے 

پتیاں روز گرا جاتی ہیں زہریلی ہوا 

اور ہمیں پیڑ لگانے کو کہا جاتا ہے 


میں جب مر جاؤں تو میری الگ پہچان لکھ دینا 

لہو سے میری پیشانی پر ہندوستان لکھ دینا



اے وطن ایک روز تیری خاک میں کھو جائیں گے سو جائیں

 گے 

مر کے بھی رشتہ نہیں ٹوٹے گا ہندوستان سے ایمان سے 



راحت مرحوم نے دنیاوی چمک دمک پر شاعری کرنے کے ساتھ ساتھ آخرت کو بھی کبھی فراموش نہیں کیا وہ موت اور آخرت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں 


گھر سے یہ سوچ کے نکلا ہوں کہ مر جانا ہے 

اب کوئی راہ دکھا دے کہ کدھر جانا ہے 


جسم سے ساتھ نبھانے کی امید نہ کرو 

اس مسافر کو تو رستے میں ٹھہر جانا ہے


موت لمحے کی صدا, زندگی عمروں کی پکار 

میں یہی سوچ کے زندہ ہوں کہ مر جانا ہے 


میرے جذبے کی بڑی قدر ہے لوگوں میں مگر 

میرے جذبے کو مرے ساتھ ہی مر جانا ہے



افواہ تھی کہ میری طبیعت خراب تھی 

لوگوں نے پوچھ پوچھ کے بیمار کر دیا 

دو گز ہی سہی یہ میری ملکیت تو ہے 

اے موت تو نے مجھے زمیندار کر دیا 


ڈاکٹر مرحوم نے نازک حالات میں بھی اپنے بے باک انداز کو اپنے سے جدا نہیں ہونے دیا انہوں نے ظلم و ستم کے خلاف اپنے اشعار سے جنگ کی اور حکومت وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایسے اشعار کہے جو حکومت کو اس کی اوقات یاد دلاتی ہے اور لوگوں کو حوصلہ و جذبہ بھی. 


لوگ ہر موڑ پے رک رک کے سنبھلتے کیوں ہیں

اتنا ڈرتے ہیں تو گھر سے نکلتے کیوں ہیں


موڑ ہوتا ہے جوانی کا سنبھلنے کے لئے 

تو سب لوگ یہیں آ کے پھسلتے کیوں ہیں


نہ میں جگنو ہوں دیا ہوں نہ کوئی تارہ ہوں 

روشنی والے میرے نام سے جلتے کیوں ہیں



اگر خلاف ہے ہونے دو جان تھوڑی ہے 

یہ سب دھواں ہے کوئی آسمان تھوڑی ہے


سبھی خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں 

کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے 



میرے ہجرے میں نہیں اور کہیں پر رکھ دو

آسمان لائے ہو ، لے آؤ، زمین پر رکھ دو


اب کہا ڈھونڈنے جاؤ گے ہمارے قاتل

اب تو قتل کا الزام ہمیں پر رکھ دو



ڈاکٹر صاحب  نوجوانوں کی امنگوں کو صیقل کرنے کا فن جانتے تھے. کہتے ہیں 


طوفانوں سے آنکھ ملاؤ سیلابوں پر وار کرو 

ملاحوں کا چکر چھوڑو تیر کے دریا پار کرو 


اپنے ہاتھوں کو وہ پتوار بھی کر سکتا ہے 

حوصلہ ہے تو ندی پار بھی کر سکتا ہے 


جرم خود کرنا اور الزام کسی پر دھرنا

یہ نیا نسخہ ہے بیمار بھی کر سکتا ہے 



راحت صاحب حکومت اور میڈیا کو چیلنج کرنے والے شاعر تھے ان کی طرح کسی اور نے حکومت کو چیلنج نہیں کیا. کہتے ہیں 


بن کے حادثہ بازار میں آ جائے گا 

جو نہیں ہو گا وہ اخبار میں آجائے گا 


چور اچکوں کی کرو قدر کہ نہیں معلوم 

کون کب کون سی سرکار میں آ جائے گا 


اونچے اونچے درباروں سے کیا لینا 
نگے بھوکے بیچاروَں سے کیا لینا 
اپنا خالق اپنا  مالک افضل ہے 
آتی جاتی سرکاروں سے کیا لینا 


انکے نعت کے اشعار بھی ہر خاص و عام زبان زد ہیں یہ اشعار محبت رسول میں ایک ہدیہ ہیں 


زمزم و کوثر و تسنیم نہیں لکھ سکتا 

اے نبی آپ کی تعظیم نہیں لکھ سکتا 

میں اگر سات سمندر بھی نچوڑو راحت 

آپ کے نام کی ایک میم نہیں لکھ سکتا 


انھوں نے اپنی شاعری میں غریبوں کو بھی یاد رکھا ہے اور حاکموں کی جانب سے ہو رہی ظلم و زیادتی کی مذمت بھی کی ہے


اپنے حاکم کی فقیری پے ترس آتا ہے

جو غریبوں سے پسینے کی کمائی مانگے 

راحت اندوری کے اشعار

یقینا ڈاکٹر راحت اندوری کا کلام ہمیشہ امر رہے گا اور ہر ایک کے دلوں میں راج کرتا رہے گا انہوں نے اپنی پوری زندگی لوگوں کو ایک کرنے اور انسانیت کو زندہ رکھنے کی کوشش کی. 

مزید جانیں 


1 تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

  1. اپنے اشعار سے دلوں میں جوش وولولہ پیدا کرنیوالی ہستی جناب راحت اندوری صاحب پر بہترین سیر حاصل تبصرہ ۔بہترین خراج

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی