اسلام میں سیاہ خضاب بالوں پر  لگانا کیسا ہے؟سیاہ خضاب اور کالے کلر کی شرعی حیثیت

زینت کے موضوع سے متعلق سر اور داڑھی کو خضاب لگانے کا مسئلہ بہت ہی اہم ہے۔ اہل کتاب یعنی یہود و نصاری خضاب لگا کر بالوں کا رنگ بدل دینے کے قائل نہیں تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ زیب و زینت، دینداری اور عبادت الہی کے امور کے منافی ہے چنانچہ راہبوں اور دین میں غلو کرنے والے زاہدوں کا یہی شعار رہا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی تقلید کرنے اور ان کے طریقے اپنانے سے منع فرمایا تاکہ مسلمان ظاہر و باطن میں اپنی مستقل امتیازی حیثیت کو برقرار رکھ سکیں ۔ سیدنا ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصاری لا يَصْبَغُونَ فَخَالِفُوهُمْ)) . یہود و نصاری خضاب نہیں لگاتے لیکن تم ان کے خلاف طرز عمل اختیار کرو۔"

 یہ حکم یعنی خضاب لگانا مستحب ہے جیسا کہ صحابہ کرام کے عمل سے واضح ہے۔ چنانچہ بعض صحابہ مثلا سیدنا ابو بکر سیدنا عمر رضی اللہ عنہم وغیرہ خضاب لگایا کرتے تھے ۔ لیکن بعض صحابہ مثلاً سیدنا علی سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا انس رضوان اللہ علیہم نہیں لگایا کرتے تھے۔ 

اسلام میں سیاہ خضاب بالوں پر  لگانا کیسا ہے؟سیاہ خضاب اور کالے کلر کی شرعی حیثیت

لیکن سوال یہ ہے کہ خضاب کس قسم کا ہو ؟ سیاہ یا کسی بھی رنگ کا خضاب استعمال کیا جا سکتا ہے؟ یا سیاہ خضاب سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جو شخص بہت بوڑھا ہو گیا ہو اور اس کے سر اور داڑھی کے بال بالکل سفید ہو گئے ہوں، اس کو سیاہ خضاب نہیں لگانا چاہیے۔ چنانچہ سیدنا ابو بکر صدیق اپنے والد ابو قحافہ کو فتح مکہ کے دن اٹھا کر لائے تھے اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے بٹھا دیا تھا۔ آپ نے یہ دیکھ کر کہ ان کے سر کے بال بالکل سفید ہو گئے ہیں، فرمایا: (( غَيْرُوا هَذَا وَجَنْبُوهُ السَّوَادَ )) .

 ان بالوں کا رنگ بدل دو لیکن سیاہ خضاب سے پرہیز کرنا ۔"

سیاہ خضاب کا حکم 

 لیکن جس کا حال ابو قحافہ جیسا نہ ہو اور نہ وہ ان کی عمر کا آدمی ہو تو اس کے سیاہ خضاب لگانے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ امام زہری فرماتے ہیں : جب تک ہمارا چہرہ تروتازہ تھا ہم سیاہ خضاب استعمال کرتے تھے لیکن جب سےچہرے اور دانتوں میں تغیر آگیا ہے لہذا ہم نے اس کا استعمال ترک کر دیا ہے۔


سلف کا ایک گروہ جن میں سعد بن ابی وقاص، عقبہ بن عامر سیدنا حسن، سیدنا حسین اور جریر رضی اللہ عنہم وغیرہ شامل ہیں، سیاہ خضاب کے جواز کا قائل ہے۔ لیکن علماء کے دوسرے گروہ کے نزدیک سیاہ خضاب لگانا جائز نہیں ہے الا یہ کہ جہاد کے موقع پر دشمن کو مرعوب کرنے کی غرض سے لگایا جائے تاکہ دشمن جب اسلام کے لشکر کو دیکھے گا کہ وہ تمام تر نوجوانوں پر مشتمل ہے تو اس کی دھاک دلوں میں بیٹھ جائے گی۔ (فتح الباری ۱۰۔ ۳۵۶۳۵۵)


 اور ابو ذر کی حدیث میں ہے: ((إِنَّ أَحْسَنَ مَا غَيَّرَتُم بِهِ الشَّيْبَ الْحِنَاء وَالْكَتَمُ)) .


 بہترین چیز جس سے تم سفید بالوں کا رنگ بدل سکتے ہو وہ حناء اور کتم ہے۔"


 كتم" (وسمہ ) یمن کی نباتات میں سے ہے جس کا رنگ سیاہی مائل بہ سُرخ ہوتا ہے اور حناء کا رنگ سرخ ہوتا ہے 

سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بھی حناء اور کتم کا خضاب لگایا اور سیدنا عمر نے خالص حناء کا. 

حوالات و مصادر 

فتح البارى باب وصل الشعر. بخاری کتاب اللباس: باب الموصولة، ح: ٥٩٤٣ - مسلم كتاب اللباس: باب تحريم فعل

 الواصلة ح: ٢١٢٥ -

 ابوداود کتاب الترجل: باب فى صلة الشعر ح ٤١٧١ - اسناده ضعیف)

 ابوداود حواله سابق وهو صحيح.

بخاری کتاب اللباس باب الخضاب / ۵۸۹۹ - مسلم کتاب اللباس: باب في مخالفة

 اليهود في الصبغ ح: ۲۱۰۳.

 مسلم كتاب الفضائل: باب شیبه ح: ٢٣٤١ .

 طبقات ابن سعد (٢٥/٣).

 مستدرك حاكم (۳۰۲۳) - طبقات ابن سعد (٤٤٩/٣)

 في طبقات ابن سعد (٢٤٠٢٣/٧) خلافه . والله أعلم.

 مسلم كتاب اللباس باب استحباب خضاب الشبب بصفة : ۲۱۰۲.

تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی