حلال و حرام کی تعریف اور اسلام میں حلال و حرام کے اصول


تعريف

حلال:  مباح یا غیرممنوع وہ ہے جس کے کرنے کی شارع نے اجازت دی ہو۔

حرام: وہ جس کی شارع نے قطعی طور پر ممانعت کی ہواور جس کی خلاف ورزی کرنے

والا آخرت میں سزا کا مستحق ہو اور بعض صورتوں میں دنیا میں بھی اس کے لیے سزا ہو۔

مکروہ: وہ جس سے شارع نے روکا ہو لیکن سختی کے ساتھ اس کی ممانعت نہ کی ہو۔ یہ درجہ میں حرام سے کم تر ہے اور اس کا ارتکاب کرنے والا اس سزا کا مستحق نہیں ہوتا جس سزا کا مستحق حرام کا ارتکاب کرنے والا ہوتا ہے۔ البتہ اس کی مسلسل خلاف ورزی اور بے وقعتی کرنے پر حرام کی سزا کا مستحق ہو جاتا ہے۔

زمانہ جاہلیت میں حلال و حرام کا تصور و اصول

اہل جاہلیت جن بہت سی باتوں میں گمراہی کا شکار ہو گئے تھے، ان میں سے ایک حلال وحرام کا معاملہ بھی تھا جس میں وہ اس طرح الجھ گئے کہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر بیٹھے مشرکین اور اہل کتاب دونوں کا طرز عمل یکساں تھا۔ یہ گمراہی دو انتہاؤں پر تھی ۔ایک انتہا وہ جس پر ہندستانی برہمنیت مسیحی رہبانیت اور وہ مذہبیت تھی جس کے نزدیک جسم کو اذیت دینا روا تھا اور جس نے اچھے رزق اور زینت کی چیزوں کو حرام کر دیا تھا اور بعض راہبوں کے نزدیک تو پاؤں دھونا اور حمام میں داخل ہونا بھی باعث گناہ تھا۔ 


دوسری انتہا پر فارس کا مزدک مذہب تھا جس نے مکمل اباحیت کا نعرہ بلند کیا۔ اس مذہب میں ہر چیز جائز تھی ، یہاں تک کہ عزت وحرمت بھی جس کو انسان فطرة مقدس مانتا ہے۔

 زمانہ جاہلیت میں عربوں نے حلت وحرمت کا بالکل غلط معیار قائم کر رکھا تھا۔ چنانچہ ان کے نزدیک شراب نوشی ،سود خواری ،عورتوں سے بدسلوکی اور قتل اولاد جیسی چیزیں بالکل جائز تھیں ۔ انھوں نے قتل اولاد جیسے فعل کو خوش نما بنانے کے لیے کچھ باتیں گھڑ لی تھیں جن کو وجہ جواز بنا کر پیش کرتے تھے ۔ مثلا فقر و فاقہ کا اندیشہ لڑکی کی پیدائش کا باعث عار ہوتا اور اپنے معبودوں کے تقرب کے لیے اولاد کو بھینٹ چڑھانا وغیرہ۔ 

عجیب بات یہ ہے کہ ایک طرف انھوں نے اپنے جگر گوشوں کو قتل کرنا یا زندہ در گور کرنا بالکل جائز کر لیا تھا اور دوسری طرف انھوں نے کھیت اور چوپاۓ جیسی بہت سی پاکیزہ چیزیں اپنے اوپر حرام کر لی تھیں اور دوسری طرف تماشا یہ کہ اس حلت و حرمت کو انھوں نے اللہ کی طرف منسوب کر کے دینی حیثیت دے دی تھی لیکن اللہ تعالی نے ان کی ان افترا پردازیوں کو یکسر باطل قراردیا: 


وَ قَالُوۡا ہٰذِہٖۤ اَنۡعَامٌ وَّ حَرۡثٌ حِجۡرٌ ٭ۖ لَّا یَطۡعَمُہَاۤ اِلَّا مَنۡ نَّشَآءُ بِزَعۡمِہِمۡ وَ اَنۡعَامٌ حُرِّمَتۡ ظُہُوۡرُہَا وَ اَنۡعَامٌ لَّا یَذۡکُرُوۡنَ اسۡمَ اللّٰہِ عَلَیۡہَا افۡتِرَآءً عَلَیۡہِ ؕ سَیَجۡزِیۡہِمۡ بِمَا کَانُوۡا یَفۡتَرُوۡنَ ﴿۱۳۸﴾


وہ کہتے ہیں یہ چوپاۓ اور یہ کھیت ممنوع ہیں، ان کو صرف وہی لوگ کھا سکتے ہیں جنھیں ہم کھلانا چاہیں

اپنے زعم کے مطابق۔۔ اور کچھ چوپائے ایسے ہیں جن کی پشتیں حرام کر دی گئی ہیں سواری کے لئے اور کچھ چوپایوں پر وہ اللہ کا نام نہیں لیتے اس پر افترا کرتے ہوۓ ۔اللہ عنقریب انھیں اس افترا پردازی کا بدلہ دے گا۔

اسلام آیا تو یہ گمراہی اور حلال وحرام کے معاملے میں یہ بے راہ روی موجود  تھی ۔ اسلام نے اس کی اصلاح کی طرف توجہ کی اور پہلا قدم یہ اٹھایا کہ تشریع کے اصول مقرر کیے اور ان کو حلت وحرمت کی اساس بنایا جس کے نتیجہ میں اعتدال و توازن پیدا ہوا اور عدل کا صحیح معیار قائم ہوا، نیز اس کی بدولت امت مسلمہ گمراہی اور انحراف کی راہ اختیار کرنے والے

دائیں اور بائیں ..... گروہوں کے درمیان امت وسط (اعتدال پر قائم رہنے والی)

امت قرار پائی جسے اللہ تعالی نے خیر امت کے لقب سے نوازا۔ 

1-اسلام کا پہلا اصول 


 ◀️ تمام اشیاء اصلا مباح ہیں:

اسلام نے جو پہلا اصول مقرر کیا وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی پیدا کردہ تمام چیزیں اصلاً حلال اور مباح ہیں ۔ حرام صرف وہ چیزیں ہیں جن کی حرمت کے بارے میں صحیح اور صریح نص وارد ہوئی ہے ۔ لہذا اگر صحیح نص موجود نہ ہو بلکہ ضعیف ہو یا حرمت پر صریح طور سے دلالت نہ کرتی ہو تو اصل اباحت برقرار رہے گی۔


علماے اسلام اس بات کے قائل ہیں کہ تمام اشیا اور نفع بخش چیزیں اصلا مباح اور جائز ہیں۔

ان کا استدلال قرآن کی درج ذیل آیات سے ہے:


هو الذي خلق لكم مافي الأرض جميعا، البقره 20:2

وہی ہے جس نے تمھارے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کر دیں۔

وسخر لكم ما في السموت وما في الأرض جميعا منہ الجاثيه 13:45

اس نے تمھارے لیے آسمان اور زمین کی ساری چیزیں اپنی طرف سے مسخر کر دیں۔


(۱) مستدرك حاكم:۳۵/۱ سلسلة الاحاديث الصحيحه: رقم الحديث ۴٩٠ المجعم الصغير

للطبرانی:۹۵/۱ رقم الحدیث: ۲۹۴

الم تروا أن الله سخر لكم ما في الشموت وما في الأرض وأسبع عليكم نعمه ظاهرة وباطنة- لقمان 20:31


تم نے اس بات پرغور نہیں کیا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں تمھارے لیے مسخر کی ہیں اورتم پراپنی ظاہری اور باطنی نعمتوں کا اتمام کیا ہے۔ 


اللہ تعالی نے ان سب نعمتوں کو انسان کے لیے مسخر کر کے اس پر احسان فرمایا ہے، لہذا یہ کیوں کر باور کیا جاسکتا ہے کہ وہ ان نعمتوں کو حرام ٹھیرا کر ان کے استفادہ سے انھیں محروم کرے گا ؟ واقعہ یہ ہے کہ اس نے صرف چند چیزوں کو حرام کیا ہے اور وہ بھی کسی خاص سبب یا مصلحت کی بنا پر جس کا ذکر ہم بعد میں کریں گے۔ گویا اسلامی شریعت میں محرمات کا دائرہ بہت تنگ ہے۔ برعکس اس کے حلال کا دائرہ نہایت وسیع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حرمت کے احکام پر مشتمل نصوص جو صحیح بھی ہوں اور صریح بھی ، بہت کم ہیں اور باقی تمام چیزیں جن کی حلت یا حرمت کے بارے میں کوئی نص وار نہیں ہوئی ہے مباح الاصل ہیں اور ان کے سلسلے میں اللہ تعالی کی طرف سے کوئی گرفت نہیں ہے۔حدیث میں آیا ہے:

 ما أحل الله في كتابه فهو حلال، وما حرم فهو حرام، وما سكت عنه فهو عفو فاقبلوا من الله عافيته فان الله لم يكن لينسئ شيئا و تلا وما كان ربك نسيا.

 اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں جس کو حلال ٹھیرایا ہے ، وہ حلال ہے اور جس کو حرام ٹھیرایا ہے وہ حرام ہے اور جن چیزوں کے بارے میں سکوت فرمایا ہے وہ معاف ہیں،لہذا اللہ تعالی کی اس فیاضی کو قبول کرو، کیونکہ اللہ سے بھول چوک کا صدور نہیں ہوتا، پھر آپ نے سورہ مریم" کی آیت (اللہ سے بھی بھول سرز نہیں ہوتی تلاوت فرمائی ۔ 


حضرت سلمان فارسی سے روایت ہے کہ: 64:19/

سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن السمن والجبن والغراء فقال الحلال ما أحل الله في كتابه والحرام ماحرم الله في كتابه وما سكت عنه فھو مما عفا لکم. 


(۱) مستدركحاكم (۳۷۵/۲)مجمع الزوائد(۵۵)رق الحديث(۱۱۱۲۰)السنن الكبرى للبيهقی(۱۲/۱۰)


بعض چیزیں استحباب اور بعض چیزیں کراہت کے درجہ میں ہوتی ہیں لیکن جب تک شریعت پابندی عائد نہ کرے وہ اپنی اصل اطلاقی حالت پر باقی رہتی ہیں ۔ اس اصول کی تائید صریح حدیث سے ہوتی ہے جو حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے: كنا نعزل والقرآن ينزل فلو كان شيا ينهى عنه لنهانا عنہ القران۔" ہم عزل کیا کرتے تھے درآنحالیکہ قرآن نازل ہو رہا ہوتا ۔ اگر کوئی بات ایسی ہوتی جس کی ممانعت کی جانی چاہیے تھی تو قرآن اس سے منع کرتا۔ 

اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جس چیز کے بارے میں قرآن نے سکوت اختیار کیا ہے وہ نہ حرام ہے اور نہ اس سے روکا گیا ہے۔ ایسی تمام چیزیں لوگوں کے لیے جائز ہیں جب تک کہ ممانعت پر دلالت کرنے والی کوئی نص سامنے نہ آجاۓ ۔اس معاملہ میں صحابہ کا فہم ان کے کمال تفقہ کی علامت ہے الغرض اس سے اسلام کے اس مہتم بالشان اصول کا تعین ہو جاتا ہے کہ عبادت وہی مشروع ہے جسے اللہ نے مشروع کیا ہے اور عادات سے متعلق کوئی چیز اللہ کی تحریم کے بغیر حرام نہیں ہوتی  ہے۔


(۱) تالیف ابن تیمیہ ص ۱۱۲، ۱۱۳ (۲) البخاري. كتاب النكاح: باب العزل، ح:۵۲۰۸٬۵۲۰۷صحیح مسلم، کتاب النكاح: باب حكم العزل، ح:۱۴۴۰:واللفظ لہ۔


2- اسلام کا دوسرا اصول. 


 ◀️ تحلیل و تحریم اللہ ہی کاحق ہے


 اسلام نے دوسرا اصول یہ مقرر کیا کہ وہ اقتدار جو تحلیل و تحریم کے اختیارات کا اصل سر چشمہ ہے،مخلوق کا نہیں بلکہ صرف خالق کا حق ہے۔ عالم ہوں یا درویش بادشاہ ہوں یا حکمران کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ بندگان خدا پرکسی چیز کوحرام ٹھیراۓ ۔ جو شخص بھی اس کی جسارت کرے گا وہ حد سے تجاوز کر نے اور اللہ کے تشریعی حقوق میں زیادتی کا مرتکب ہوگا۔ اس کی اتباع کرنا اور اپنے عمل سے اس پر اظہار رضامندی کرنا شرک کے مترادف ہے۔


اتخذوا أحبارهم ورهبانهم أربابا من دون الله والمسيح ابن مريم ، وما أمروا إلا ليعبدوا إلها واحدا لا إلہ الا هو سبحنه عما يشركون التوبه 31:9

انھوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے احبار و رہبان کو اپنا رب بنالیا اور مسیح بن مریم کو بھی ۔ حالاں کہ انھیں

ایک الہ کے سوا کسی کی عبادت کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ وہ جس کے سوا کوئی لائق عبادت

نہیں ۔ پاک ہے وہ ان کی مشرکانہ باتوں سے۔


أم لهم شركوا شرعوا لهم من الدین مالم يأذن به الله - الشورى 21:42

کیا ان کے ایسے شریک ہیں جنھوں نے ان کے لیے دین کے وہ طریقے مقرر کیے ہیں جن کی اللہ نے اجازت نہیں دی۔


یہود و نصاری نے تحلیل و تحریم کے اختیارات احبار و رہبان کو دے رکھے تھے جس پر قرآن نے سخت نکیر فرمائی:


حدیث میں ہے:

وقد جاء عدي بن حاتم إلى النبي صلى الله عليه وسلم

وكان دان بالنصرانية قبل الإسلام ..... فلمّا سمع التي يقرأ هذه الآية، قال:

يارسول الله! إنهم لم يعبدوهم فقال بلى! إنهم حرموا عليهم الحلال واحلُوا لهم الحرام فاتبعوهم فذالك عبادتهم إياهم

عدی بن حاتم جنھوں نے اسلام سے پہلے نصرانیت قبول کر لی تھی ، جب نبی اسلام کی خدمت میں

حاضر ہوۓ اور آپ کو یہ آیت تلاوت کرتے ہوۓ سنا تو عرض کیا، یا رسول اللہ ان لوگوں نے احبار و رہبان کی عبادت تو نہیں کی ۔ آپ نے فرمایا ، کیوں نہیں؟ انھوں نے ان پر حلال کو حرام اور حرام کو حلال ٹھیرایا تھا اور ان لوگوں نے ان کی اتباع کی ۔احبار و رہبان کی عبادت کا یہی مطلب ہے۔


اسی طرح قرآن نے تحلیل و تحریم کے معاملے میں مشرکین کے طرز عمل کو بھی غلط قرار دیا:


قل أرءيتم ما انزل الله لكم من رزق فجعلتم منہ حراما وحلالا قل الله اذن لکم ان علی اللہ تفترون 59:10


کہو تم نے یہ بھی سوچا کہ اللہ نے جو رزق تمھارے لیے نازل فرمایا ہے اس میں سے تم نے کسی کو

حرام اور کسی کو حلال ٹھیرالیا؟ کہو اللہ نے تمھیں اس کی اجازت دی تھی یا تم اللہ پر افترا کر رہے ہو؟


ان روشن آیات اور واضح احادیث سے فقہاے اسلام نے حتمی طور پر جان لیا کہ حلت و حرمت کا اختیار اللہ وحدہ ہی کو ہے اور وہی اپنی کتاب یا رسول کی زبانی لوگوں کو حلال و حرام سے آگاہ کرتا ہے اور فقہاء کا کام اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ وہ اس حلت و حرمت کو

بیان کریں ۔شریعت سازی ان کا کام نہیں۔ یہ فقہاء اجتہاد وامامت کی صلاحیت رکھنے کے باوجود فتوی دینے سے احتراز کرتے تھے اور یہ کام دوسروں کے سپرد کرتے تھے، اس اندیشہ سے کہ غلطی سے حرام کو حلال اور حلال کو حرام نہ کر بیٹھیں ۔

امام شافعی ” نے ’’کتاب الام‘‘ میں قاضی ابو یوسف سے روایت نقل کی ہے،

فرماتے ہیں:

میں نے بہت سے اہل علم مشائخ کو دیکھا کہ وہ فتوی دینا پسند نہیں کرتے اور کسی چیز کو حلال یا حرام کہنے کے بجاۓ کتاب اللہ میں جو کچھ ہے اسے بلا تفسیر بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ ابن سائب جوممتاز تابعی ہیں، کہتے ہیں کہ اس بات سے بچو کہ تمھارا حال اس شخص کا سا ہو جاۓ جو کہتا ہے کہ اللہ نے فلاں چیز حلال کی ہے یا اسے پسند ہے لیکن قیامت کے دن اللہ تعالی فرمائے گا کہ نہ میں نے اس کو حلال کیا تھا اور نہ مجھے پسندتھی ۔ اسی طرح تمھارا حال اس شخص کا سا بھی نہ ہو جاۓ جو کہتا ہے کہ فلاں چیز اللہ نے حرام کر دی ہے لیکن قیامت کے دن اللہ تعالی فرمائے گا کہ تو جھوٹا ہے ۔ میں نے اسے حرام کیا تھا اور نہ اس سے روکا تھا۔


 3-اسلام کا تیسرا اصول. 


 ◀️ حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دینا شرک کے قبیل سے ہے:


اسلام نے ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو تحلیل و تحریم کے مختار بن جاتے ہیں۔ خاص طور سے اسلام نے حلال کو حرام کرنے والوں پر شدید گرفت کی ہے، کیونکہ اس کے نتیجے میں انسان بلا وجہ تنگی اورضیق میں مبتلا ہو جاتا ہے اور تعمق پسندانہ مذہبیت کا رجحان پیدا ہو جاتا ہے, حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے تعمق و تشدد کے رجحان کو سختی سے دبایا اور اس قسم کا رویہ اختیار کرنے والوں کی سخت مذمت کی ۔ آپ نے فرمایا:


الا هلك المتنطعون الا هلك المتنطعون، الا هلك المتنطعون.(۱)

آگاہ ہوجاؤ! کہ دین میں تعمق وتشدد پیدا کرنے والے ہلاک ہو گئے، آگاہ ہوجاؤ کہ دین میں تعمق و تشدد پیدا کرنے والے ہلاک ہوگئے۔ آگاہ ہو جاؤ کہ دین میں تعمق و تشدد پیدا کرنے والے ہلاک ہوگئے ۔


اور رسالت محمدی کی خصوصیت یہ بیان فرمائی کہ:

بعثت بألحنيفية السمحة

میں ایسے دین کے ساتھ بھیجا گیا ہوں جوحنیف بھی ہے اور فراخ بھی ۔

چنانچہ یہ دین عقیدہ و توحید کے معاملے میں حنیف اور شریعت و اعمال کے معاملے میں فراخ ہے اور شرک اور حلال کو حرام کرنے کا فعل اس کی بالکل ضد ہے۔ ایک حدیث


اس سے واضح ہے کہ حلال کو حرام کرنا شرک کے قبیل سے ہے ۔اس لیے قرآن نے

مشرکین عرب کے شرک، بت پرستی اور کھیتی اور چوپایوں جیسی پاکیزہ چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر لینے پر سخت نکیر کی ۔ بھیرہ ، سائب، وصیلہ اور حام ان ہی کے حرام کردہ چوپاۓ تھے


چنانچہ جب اوٹنی پانچ بچے جن لیتی اور آخری بچہ نر ہوتا تو میشرکین اس اونٹنی کے کان کاٹ

ڈالتے اور اس پر سواری کو ممنوع قرار دے کر اسے اپنے معبودوں کے لیے چھوڑ دیتے ۔ پھر اس کو ذبح کرنا اور اس پر بار برداری کرنا سب حرام ہو جاتا۔ اس کو پانی کے گھاٹ یا چراگاہ سے ہٹایا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ اس کا نام انھوں نے بحیرہ یعنی کان کٹی ہوئی اوٹنی رکھا تھا۔


اسی طرح سائبہ اس اوٹنی کو کہتے تھے جس کو کوئی شخص اپنے سفر سے واپس آجانے یا مرض سے شفایاب ہو جانے پر اپنے معبودوں کے نام چھوڑ دیتا۔


 بکری اگر مادہ اور نر بچے جنتی تو نر کو اپنے معبودوں کے لیے ذبح کرنے کے بجاۓ اسے آزاد چھوڑ دیتے اور اس کا نام وصیلہ رکھتے ،

 اسی طرح اس اونٹ کے بچہ کا بچہ بار برداری کے قابل ہو جاتا تو اس بوڑھے اونٹ پر سواری اور بار برداری کو ممنوع قرار دیتے اور اس کا نام حام رکھتے ۔

قرآن نے اس تحریم کو منکر قرار دیا اور اس قسم کی گمراہیوں میں اپنے آباء کی تقلید کے لیے کوئی گنجائش نہیں رکھی ۔فرمایا:


 مَا جَعَلَ ٱللَّهُ مِنۢ بَحِيرَةٍۢ وَلَا سَآئِبَةٍۢ وَلَا وَصِيلَةٍۢ وَلَا حَامٍۢ ۙ وَلَٰكِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ يَفْتَرُونَ عَلَى ٱللَّهِ ٱلْكَذِبَ ۖ وَأَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ


اللہ نے مقرر نہیں کیا ہے کان چرا ہوا اور نہ بجار اور نہ وصیلہ اور نہ حامی ہاں کافر لوگ اللہ پر جھوٹا افتراباندھتے ہیںاور ان میں سے اکثر نرے بے عقل ہیں


(۱) مسند احمد(۳۸۲۱)۔ مسلم، کتاب العلم: باب هلك المتنطعون، ح:۲۲۷۰ ابوداود

كتاب السنة: باب في لزوم السنة، ح:۴۶۰۸

(۲) یہ روایت مسند احمد کے حوالہ سے بیج غیر ہ ہے باختلاف الفاظ ، مسند أحمد ۲۳۹/۱، رقم الحدیث: ۱۲۰۷۔

۱۱۲/۲، رقم الحدیث ۲۴۸۵۵، الادب المفرد للبخاري، رقم الحديث: ۲۸۷، المجعم الكبير

للطبرانی، ۲۱۷/۸، تم : ۷۸۲۸،سلسلة الاحاديث الصحيحة للالبالي،رقم الحديث:۱۸۸

(۳) صحیح مسلم، کتاب الجنة: باب الصفات التي يعرف بها في الدنيا اهل الجنة، ح:۴۸۲۵


تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی