جمہوریت کا تعارف اور اسکی حقیقت

جمہوریت کی تعریف 

جمہوریت کی سب سے زیادہ  مقبول  تعریف وہ ہے  جو امریکہ کے صدر ابرا ہام لنکن نے کی تھی : *ایسا نظام سیاست جس میں  عوام کی حکومت ، عوام پر عوام کے لئے  اور عوام کے ذریعے ہوتی ہو ،* 


 اس تعریف کی رو سے اور اس کی جو عملی تفصیل کی جاتی ہے ، اس کے مطابق جمہوریت ایک ایسا نظام سیاست ہے ، جس میں درج ذیل خصوصیات پائی جاتی ہوں :


1 ۔ ریاست میں سب سے بڑی قوت یا حاکمیت اعلی( Sovereignty) عوام کو حاصل ہو ،


2 ۔ ریاست میں حکومت کا انتخاب  عوام کے ووٹ سے ہوتا  ہو ، ڈکٹیٹر شپ یا آمریت یا موروثی  سلطنت نہ ہو  ، 

3 ۔ حکومت اپنے ہر معاملہ میں عوام کے سامنے جوابدہ ہو ،

4 ۔ تمام فیصلے اکثریت کے مطابق ہوتے ہو ، 

5۔ قانون کی نظروں  میں تمام شہری برابر ہوں، اور ہر شہری پر  قانون کا نفاذ یکساں طریقے سے کیا جائے ، کسی شہری کو دوسرے شہری پر فوقیت نہ دی جائے ،

6 ۔ ہر شخص کو حکمراں کے کسی بھی فیصلہ پر تنقید کرنے کا حق حاصل ہو ، یعنی اظہار خیال اور اظہار رائے کی پوری آزادی ہو ،


7 ۔ قانون بنانے اور اسے منسوخ کرنے کا حق کسی ایک شخص کو حاصل نہ ہو ، بلکہ عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ کو ہوں  ،

8 ۔  اجتماعی فیصلہ کرنے  اور سرکاری معاملات کو چلانے کے لئے اتھارٹی کو مختلف اداروں میں تقسیم کیا جائے ، اور ہر ادارہ  دوسرے کو چیک اینڈ بیلینس کرتا رہے ، یوں اس بات کو یقینی بنایا جائے  کہ اقتدار اور اتہارٹی کو  ایک یا چند مخصوص ہاتھوں میں  مرتکز نہ ہونے دیا جائے گا ، 


جمہوری نظام کے چار ستون مانے جاتے ہیں :


1 ۔ منتظمہ 

2 ۔ مقننہ

3 ۔ آزاد عدلیہ 

4 ۔ آزاد میڈیا 

مغربی سیاسی تصور میں  کسی ریاست کے لئے چار ضروری عناصر ہوتے ہیں ، جن کے بغیر کوئی ریاست ریاست نہیں ہو سکتی ، وہ یہ ہیں :


*آبادی :*

 ریاست میں قابل ذکر انسانی آبادی ہونی چاہیے چاہیے ،

*علاقہ :* 

ریاست کا اپنا آزاد علاقہ ہونا چاہیے ،

*حکومت :*

   اس آزاد علاقے پر ریاست کا کنٹرول ہونا چاہیے ، 


*حاکمیت یا اقتدار اعلی :*

 ریاست کے پاس اقتدار اعلی ہو ،


اس کے علاوہ آئین یا دستور مملکت کے زبردست اہمیت ہوتی ہے ، بلکہ اسے  تقدس کا مقام دیا جاتا ہے ، البتہ اس میں ترمیمات اور تبدیلیوں کا راستہ کھلا ہوا ہے ، جس کو پارلیمنٹ  اکثریت کے ساتھ منظور کرتی ہے  آئین کے لحاظ سے مختلف جمہوری ممالک کے الگ الگ روایتیں ہیں ، بعض ممالک میں ایک باضابطہ مدون اور مرتب دستور ہے، مثال کے طور پر انڈیا کا آئین ،بعض مدون اور مرتب ہے  لیکن نہایت مختصر جیسے امریکہ کا آئین ، اور بعض مرتبہ تو نہیں ہے  بس عمل میں جو نظائر ہیں ان کو ہی دستور سمجھا جاتا ہے ۔۔

*مغربی نقطہ نظر*


مغرب والوں کے نزدیک  ایک جمہوری ریاست میں سب سے اہم اصطلاح ہے  اقتدار اعلی( Sovereignty) ، یہ ایک جدید اصطلاح ہے ، جو لاطینی لفظ (Suparanus) سے ماخوذ ہے ، جس کے معنی ہوتے ہیں برتر واعلی ، 


 انقلاب فرانس کے مفکرین میں سے ایک روسو  1712-1778 نے معاہدہ عمرانی میں ایک اور نظریہ کا اضافہ کیا جس کو ارادہ عامہ( General Will) کہا جاتا ہے ، بس نظریہ کی رو سے روسو کا کہنا ہے کہ " ریاست کی بنیاد افراد کی مرضی یا ارادہ پر ہے جبر یا طاقت پر نہیں " ،  اقتدار اعلی عوام کو سونپ کر وہ بتاتا ہے کہ عوام کے اقتدار اعلی والی ریاست میں ایک انسان کے دو رول ہوتے ہیں ، ایک کردار ہے قانون سازی کا اور دوسرا قانون کی اطاعت کا ، 


 *عملی بنیادوں پر جمہوری نظام بھی کیی طرح کا ہوتا ہے ۔ مثلاً امریکہ میں صدارتی جمہوری نظام رائج ہے جبکہ ہندوستان میں پارلیمانی جمہوری نظام ،* 

 ان دونوں ہی نظاموں میں عوام (ووٹر ) عام انتخابات کے ذریعہ اپنے نمائندوں کا انتخاب کرتے ہیں ، 


*پارلیمان :* جمہوری نظام میں سب سے اہم ادارہ پارلیمان ہوتا ہے ، اس کو جمہوریت کا مندر بھی کہتے ہیں اور اس نظام کے تقدس Sanctity کو اس سے وابستہ کرتے ہیں ، یورپ میں یہ ادارہ بارہویں اور تیرہویں صدی میں ارتقاء کو پہنچا اور بیسویں صدی میں اس کو پوری دنیا میں پذیرائی مل گئی ،  


*تھامس ہابز نے کہا کہ حکمران کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے ملک کے انسانوں کے لئے ہر قسم کے قوانین بنائے جن میں مذہبی ، اخلاقی اور معاشرتی سبھی قوانین شامل ہیں ، یہیں سے مذہب کو ریاست کے تابع بنانے کی کوشش شروع ہوئی ، اس سے مذاہب پر سب سے زیادہ ضرب پڑی ،* 


*کانٹ نے مذہب سے عاری اخلاقی اصولوں کا نظریہ پیش کیا ،* 

*تاہم ان افکار ونظریات میں ارتقاء ہوتا رہا ہے اور آج دنیا کے سامنے جمہوریت کی جو شکل ہے وہ انہیں افکار ونظریات کی جدید اور ارتقاء پذیر شکل ہے*

    *اسلام کا نقطۂ نظر* 

   موجودہ عالم اسلام میں  عملاً جمہوریت  چند ہی ملکوں میں پائی جاتی ہے ، زیادہ تر ملکوں میں  موروثی بادشاہت ،  موروثی امارت ،  فوجی آمریت یا ڈکٹیٹرشپ پائی جاتی ہے ۔ تاہم اسلامی سیاست پر لکھا خوب گیا ہے ، اور ایک اچھا ذخیرہ اس کے مختلف پہلوؤں پر جمع ہو گیا ہے ، اسلامی سیاست پر لکھنے والے موجودہ مصنفین و مفکرین نے واضح طور پر لکھا ہے کہ اسلامی سیاسی فکر میں اصولی احکام یہ ہیں : 

1 ۔  حاکمیت مطلقہ  صرف خدا کی ہے نہ کسی بادشاہ کی ہے اور نہ جمہور کی ۔ اسلام میں مذہب زندگی کا ایک ضمیمہ نہیں  بلکہ پوری زندگی پر حاوی ہے ۔ وہ خدا اور بندے کے تعلق کے علاوہ وہ انسان اور انسان کے تعلق سے بحث کرتا ہے ۔ ساتھ ہی  انسان اور کائنات کے تعامل سے بھی بحث کرتا ہے۔ اور حاکمیت الہ کا لازمی تقاضہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی ہے ۔ 

     تاہم پروفیسر محمد نجات اللہ صدیقی کہتے ہیں کہ جمہوریت کے نمائندے جب عوام کی حاکمیت کا لفظ بولتے ہیں تو ان کی مراد ہرگز بھی یہ نہیں ہوتی کہ وہ خدا کی حاکمیت کا انکار کر رہے ہیں۔ بلکہ ان کی مراد صرف یہ ہوتی ہے  کہ اب پاپاءیت ، ملکویت  اور آمریت نہیں چلے گی ۔ عوام کی امور و معاملات کو چلانے میں  عوام کا بھی حصہ ہوگا ۔ وہ بھی مختلف ایشوز پر اپنی رائے دے سکیں گے ، اور اپنے نمائندوں کا انتخاب کریں گے ، ان کی رائے کے مطابق  جمہوریت اور اسلامی نظام کے درمیان نزاع محض لفظی رہ جاتی ہے ، 

2 ۔ دوسرا یہ کہ مسلمانوں کے باہمی معاملات شوری اور نمائندگی پر مبنی ہوں گے ،  

3 ۔  تمام شہریوں کے بنیادی و شخصی  انسانی حقوق اور حریتوں  کی حفاظت کی جائے گی ۔ جن میں حریت  دین وعقیدہ اور حریت فکر و عمل بھی داخل ہیں ،  ۔۔


تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی