تین طلاق بل سے تین کسان بل تک
  
 ملک کی موجودہ حکومت کو مسلم خواتین سے غیر معمولی ہمدردی ہے،اور وہ ان کی فلاح وبہبود کیلئے دن رات کوشاں رہتی ہے،اس کا واضح ثبوت تین طلاق بل ہے،اس قانون کو بناتے وقت حکومت نے بلند وبانگ دعوے کئے اور اس بل کو مسلم خواتین کے درد کا درماں بتایا،تاہم جن کے حق میں یہ قانون بنایا گیا،ان کو یہ قانون راس نہیں آیا،انہوں نے کھل کر اس کی مخالفت کی اور حکومت کے منشاء پر گمبھیر سوالات کھڑے کئے،یہ احتجاج اتنا انوکھا تھا کہ ،آزاد ہندوستان میں اس کی نظیر نہیں ملتی،ملت کی مائیں،بیٹیاں اور بہنیں سڑکوں پر نکل پڑیں اور سخت غم وغصہ کا اظہار کیا،انہوں نے گرمی کی شدت اور وردی کی دہشت کے باوجود احتجاج کی صدا بلند کی اور مخالفت کی مہم چلائی ، یہی  نہیں، کروڑوں کی تعداد میں خواتین نے دستخط کر کے صدر جمہوریہ کو میمورنڈم دیا، مگر حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی،میڈیا نے اس احتجاج کا نوٹس نہیں لیا،ذرائع ابلاغ نے اس کو اہمیت نہیں دی،ہر طرف خاموشی تھی،گویا کچھ ہواہی نہیں۔

    

 وقت تیزی سے گزرتا رہا،گردش لیل ونہار کا سلسلہ جاری رہا،حالات نے کروٹ لیا اور 2020 میں حکومت نے کسانوں کے خلاف تین قانون پاس کر دیا،اس قانون کو ڈرافٹ کرتے وقت وہی انداز اختیار کیا گیا،جو تین طلاق بل کے وقت اپنایا گیا تھا،نہ کسی کسان تنظیم سے مشورہ کیا گیا اور نہ ہی پارلیمنٹ میں اس پر بحث کی گئی،چور دروازے سے لایا گیا اور چوری وفراڈ کے ساتھ پاس کرادیا گیا،اپوزیش کی پارٹیاں اس قانون کے خلاف چلاتی رہیں،احتجاج کی آواز بلند کرتی رہیں،مگر یہ آواز صدا بصحراء ثابت ہوئی،حکومت کی نخوت اور اقتدار کی سطوت کے آگے ،سب کچھ لا حاصل ثابت ہوا،حکومت نے چیخ چیخ کر اعلان کیا کہ یہ قانون کسانوں کی فلاح وبہبود کیلئے ہے،جیسا کہ اس نے تین طلاق بل کے موقع پر کہا تھا،مگر حقیقت کو لچھے  دار الفاظ سے نہیں جھٹلایا جا سکتا،صداقت پر مکر وفریب کا غلاف نہیں چڑھایا جا سکتا،کسانوں نے اس قانون کے خلاف زبردست تحریک چلائی،ملک کے ہر گوشہ سے احتجاج کی صدا بلند ہوئی،کسانوں نے دلی کی طرف کوچ کا اعلان کیا،تاہم راستہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں،پانی کی بوچھاریں کی گئیں،آنسو گیس کے گولے داغے گئے،تا کہ وہ کسی طرح راجدھانی کے اندر گھسنے نہ پائیں،ان کو دلی کی سرحدوں پر چاروں طرف سے روک دیا گیا،چنانچہ وہ وہیں دھرنے پر بیٹھ گئے،اور اس طرح بیٹھ گئے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود حکومت ان کو نہیں ہٹا سکی،یہ دھرنا استھل ہی ان کا ٹھکانہ بن گیا،اور مستقل قیام گاہ بھی،اس دھرنے میں بوڑھے بھی ہیں اور بچے بھی،مرد بھی اور خواتین بھی،احتجاج کے اس منظر نے ایک بار پھر تین طلاق بل کی یاد تازہ کردی،آج کسان دھرنے پر بیٹھی خواتین کی فریاد سننے والا کوئی نہیں ہے،سردی کی لہر،گرمی کے قہر اور بارش کے اثر باوجود وہ مورچے پر ڈٹی ہیں،لیکن کوئی ان کا نوٹس لینے کو تیار نہیں ،پانچ ستمبر کو گرمی کی تپش کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں خواتین مظفرنگر کی مہا پنچایت میں جمع ہوئیں،مگر ہندوستانی میڈیا کو ان پر ترس نہیں آیا،اسے تو بس افغانستانی خواتین کا درد سنائی دیتا ہے،اور وہ دن رات ان کے غم میں دیوانہ بنا ہوا ہے،اپنوں پہ یہ ستم اور غیروں پہ اتنا کرم،ہمارے میڈیا کے نفاق کا واضح ثبوت ہے،

ایک ایسے ملک میں جہاں ایک جانور کی حفاظت کیلئے ہائی کورٹ کا جج بے چین ہوجاتا ہے،اور سرکار کو اسے قومی جانور گھوشت کرنے کا مطالبہ کرتاہے،لیکن جب سر راہ ایک معصوم کی لنچنگ کی جاتی ہے،اسے تڑپا تڑپا کر مارا جاتا ہے،تب نہ کسی جج کے پیٹ مروڑ ہوتا ہے،اور نہ میڈیا کو اس سے متاثر ہونے والی خاتون کی چیخ سنائی دیتی ہے، کانپور ، اندور،اجین اور اجمیر میں حالیہ دنوں میں جو کچھ ہوا،اور جس طرح سرراہ انسانی جانوں پر حملہ کیا گیا،وہ ہمارے ملک کی پیشانی پر کلنک ہے،اس نے پوری دنیا میں ہمیں شرمسار کردیا،لیکن میڈیا کو اس پر بحث کرنے،اور حکومتوں کو اس پر قانون بنانے کا وقت نہیں،یہ بے ضمیری ،بے غیرتی اور بے شرمی کی ایسی مثال ہے،جس کی نظیر نہیں ملتی،اگر ملک میں یہی رجحان پنپتا رہا،اور سب خاموش رہے تو ،ہم اپنے ہاتھوں سے ملک کو غلامی کی ایسی دلدل میں ڈھکیل دیں گے،جہاں مایوسی اور تاریکی کے سوا کچھ نہیں ہاتھ آئے گا۔۔فقط۔ 

تجزیہ نگار 

مفتی نصر اللہ ندوی 

استاد دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ

مزید پڑھیے

کسان آندولن اور ہندوستانی مسلمان   

تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی