حرام چیزیں یقینا باعث مضرت ہیں
اللہ تعالی انسانوں کا خالق ہے اور ان پر اس کے بے شمار احسانات ہیں ، اس لیے یہ اسی کا حق ہے کہ وہ جس چیز کو چاہے انسان کے لیے حلال ٹھرائے اور جس چیز کو چاہے حرام ٹھیراۓ ۔ اس پر اعتراض کرنے یا اس کی نافرمانی کرنے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ یہ اس
کی ربوبیت کا حق اور اس کی بندگی کا صریح تقاضا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالی نے حرام و حلال معقول وجوہ ہی کی بنا پر ٹھیرایا ہے اور انسان کاحقیقی مفاد اسی سے وابستہ ہے۔ اللہ نے پاکیزہ چیزوں ہی کو حلال اور ناپاک چیزوں ہی کو حرام ٹھیرایا ہے ۔
البتہ یہودیوں پر اللہ تعالی نے بعض اچھی چیزیں بھی حرام کر دی تھیں جو ان کی سرکشی کی وجہ سے سزا کے طور پر تھیں لیکن جب اس نے اپنے آخری نبی کو دائمی دین کے ساتھ مبعوث فرمایا تو اس کی رحمت اس بات کی متقاضی ہوئی کہ اس بوجھ کو ہلکا کر دیا جاۓ۔ گناہوں کے کفارہ کے لیے بھی اسلام نے طیبات کو حرام نہیں کیا بلکہ کفارہ کی ادائگی کی دوسری شکلیں متعین کر دیں۔
چنانچہ خالص توبہ گناہوں کو اس طرح صاف کرتی ہے جس طرح پانی گندگی کو ۔
اسی طرح نیکیاں برائیوں کو دور کرتی ہیں اور صدقہ گناہوں کو اس طرح بجھاتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھاتا ہے ۔
علاوہ ازیں مصائب و آلام میں گناہ اس طرح جھڑنے لگتے ہیں جس طرح موسم خزاں میں پتے جھڑتے ہیں ۔
اسی لیے اسلام کی یہ حقیقت معروف ہوگئی کہ اس نے جن چیزوں کو حرام ٹھیرایا ہے وہ انسانیت کے لئے ہر طرح سے خرابی اور تکلیف کا باعث ہیں ۔ چنانچہ جو چیز خالص مضرت کی تھی اس کو حرام کر دیا اور جو خالص منفعت کی تھی اس کو حلال کر دیا۔ اسی طرح جس کی مضرت منفعت سے زیادہ تھی اس کو حرام اور جس کی منفعت مضرت سے زیادہ تھی اس کو حلال قرار دیا۔ اس کی صراحت قرآن نے شراب اور جوۓ کے معاملہ میں کی ہے:
يسئلونك عن الخمر والميسر، قل فيهما إثم كبير ومنافع للناس: واثمهما أكبر من نفعهما البقره 219:2 وہ تم سے شراب اور جوۓ کے متعلق پوچھتے ہیں ۔ کہو، ان دونوں چیزوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں لیکن ان کا گناہ ان کے فائدے سے بڑھ کر ہے۔
ایک مسلمان کے لیے ضروری نہیں کہ وہ ان خباثتوں اور مضرتوں کو جان لے جن کی وجہ سے اسلام نے کسی چیز کو حرام ٹھیرایا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دوسروں کے مقابلے میں اس کا علم کم ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی خباثت ابھی ظاہر نہ ہوئی ہو اور کسی دوسرے زمانے میں ظاہر ہو جاۓ ۔مومن کا کام تو ہمیشہ سمع و طاعت ہے۔
خنزیر (سور ) ہی کی مثال لیجئے۔ اللہ نے اس کا گوشت حرام کیا لیکن اس وقت اس کی علت مسلمانوں کی سمجھ میں نہیں آئی سواۓ اس کے کہ یہ نجس جانور ہے ،لیکن زمانہ کی ترقی نے یہ انکشاف کیا کہ اس میں مہلک جراثیم اور کیٹرے ہوتے ہیں۔ اگر یہ انکشاف نہ ہوا ہوتا ، یا اس بارے میں آئندہ مزید انکشافات ہو جائیں تب بھی ایک مسلمان اپنے اس عقیدہ پر قائم رہے گا کہ سور کا گوشت حرام ہے۔
دوسری مثال نبی علیہ السلام کی اس حدیث سے واضح ہے:
إتقوا الملاعن الثلاث: البزاز في الموارد وقارعة الطرق والظل
تین باتوں سے بچو جو موجب لعنت ہیں : پانی پینے کی جگہوں میں, وسط راہ اور سایہ دار جگہ میں پاخانہ کرنا۔
اس حدیث کا مطلب قرون اولی میں صرف اس حد تک سمجھا گیا کہ یہ بری باتیں ہیں جو عقل سلیم اور شائستگی کے خلاف ہیں لیکن علمی انکشافات کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ یہ چیزیں عام صحت کے لیے سخت مضر ہیں کیونکہ ان سے خطرناک قسم کے متعدی امراض
پھیلتے ہیں۔
اس طرح علم کی روشنی جتنی پھیلے گی اور انکشافات کا دائرہ جتنا وسیع ہوگا اسلام کی وہ مصلحتیں بھی واضح ہوتی چلی جائیں گی جو اس کے حلال وحرام میں بلکہ پورے تشریعی نظام میں پوشیدہ ہیں ۔ اور مصلحتیں کیسے نہیں ہوں گی جب کہ یہ شریعت اس ہستی کی طرف سے جو کہ علیم و حکیم ہونے کے ساتھ اپنے بندوں پر مہربان بھی ہے:
والله يعلم المفسد من المصلح- ولو شاء الله لاعنتكم - إن الله عزيز حکیم
اللہ بگاڑ کرنے والے کو بھی جانتا ہے اور بھلائی کرنے والے کو بھی, اگر اللہ چاہتا تو تم کو مشقت میں ڈال دیتا یقینا اللہ غالب بھی ہے اور حکمت والا بھی ہے.
حلال چیزیں باعث شفاء و راحت ہیں
اسلام کمال درجہ کی خوبیوں کا دین ہے اس نے لوگوں کے لئے بڑی آسانیاں پیدا کر دی ہیں, اس نے جس چیز کو ہم پر حرام ٹھیرایا ہے اس کا نعم البدل ضرور عطا کیا ہے ۔ایسا نعم البدل جس سے لوگوں کی ضرورتیں بھی پوری ہوں اور وہ حرام سے بے نیاز بھی ہو حائیں ۔
ابن قیم رحمہ اللہ نے اس پر بڑی عمدہ روشنی ڈالی ہے، فرماتے ہیں:
اسلام نے پانسوں کے ذریعے قسمت معلوم کرنے کو حرام ٹھہرایا اور اس کے بدل کے طور پر دعائے استخارہ عطا فرمائی ۔
سود کو حرام کیا تو اس کے عوض نفع بخش تجارت کو جائز کیا۔
جوۓ کو حرام کر دیا اور اس کے بجائے اس مال کا کھانا جائز کر دیا جو گھوڑے اونٹ اور تیروں کے ان مقابلوں کے ذریعے حاصل ہو جو شرعا مفید خیال کیے گئے ہیں ۔
ریشم مردوں پر حرام کیا لیکن اس کے عوض اون ، کتان اور روئی کے انواع و اقسام کے لباس فاخرہ سے نوازا۔
زنا اور لواطت کو حرام ٹھہرایا اوران کے بجائے نکاح کو حلال ٹھہرایا۔
منشیات کو حرام کیا لیکن اس کے نعم البدل کے طور پر لذیذ مشروہات عطا کیے جو روح اور بدن دونوں کے لیے مفید ہیں ۔
کھانے کی چیزوں میں جہاں ناپاک چیزوں کو حرام قرار دیا وہاں پاکیزہ چیزوں کو حلال بھی قرار دیا۔
اگر ہم اسلام کے جملہ احکام کا تتبع کریں تو یہ حقیقت پوری طرح روشن ہو جائے گی کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر اگر ایک جانب سے تنگی پیدا کی ہے تو دوسری جانب سے وسعت کا دروازہ بھی کھول دیا ہے، کیونکہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو مشقت اور سختی میں مبتلا کرنا نہیں
چاہتا بلکہ ان کے لیے آسانی پیدا کرنا اور ان کو خیر ہدایت اور رحمت سے نوازنا چاہتا ہے
جیسا کہ فرمایا:
یرید اللہ لیبین لکم ویھدیکم سنن الذین من قبلکم ویتوب علیکم واللہ علیم حکیم (26) واللہ یرید ان یتوب علیکم ویرید الذین یتبعون الشھوت ان تمیلوا میلا عظیما (27) یرید اللہ ان یخفف عنکم وخلق الانسان ضعیفا “۔ (28)
اللہ چاہتا ہے کہ تم پر اپنے احکام واضح کر دے اور تمہیں ان لوگوں کے طریقوں کی ہدایت بخشے جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں اور اپنی رحمت کے ساتھ تمھاری طرف متوجہ ہو۔ اور اللہ علیم وحکیم ہے۔اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے لیکن جولوگ خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے بھٹک کر دور نکل جاؤ ، اللہ تم پر سے بوجھ کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔
(1) سنن ابی دودائود، کتاب الطهارة، باب المواضع التي نهن عن البول فيها، ج:۲۱، ابن ماجه
كتاب الطهارة: باب النهى عن الخلاء على قارعة الطريق، ح: ۳۲۸ وله شاهد غیر مسلم في
كتاب الطهارة: باب النهى عن التخلى في الطرق و الظلال، ح:۲۲۹ہ لفظ اتقوا اللعانين۔ از: اسلام میں حلال و حرام
ایک تبصرہ شائع کریں
تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں