سحری کے احکام مع سحری سے متعلق متعدد غلط فہمیوں کا ازالہ
سحری کی فضیلت:
سحری کرنا سنت اور باعث ِبرکت ہے، حضور اقدس ﷺنے سحری کرنے کی ترغیب دی ہے، اس لیے سحری کا اہتمام ہونا چاہیے، اس سے روزہ رکھنے میں قوت بھی رہتی ہے، اگر دل نہ بھی چاہے تب بھی کچھ نہ کچھ کھا پی لینا چاہیے، بھلے پانی ہی پی لے تب بھی کافی ہے، لیکن اگر کسی نے نہار منہ ہی روزہ رکھ لیا تب بھی درست ہے۔
(صحیح البخاری حدیث: 1923، مسند احمد حدیث: 11086، مراقی الفلاح، بہشتی زیور)
📿 *سحری بند کرنے کا آخری وقت کون سا ہے؟*
سحری بند کرنے کا آخری وقت کون سا ہے؟ اس حوالے سے بہت سے لوگ لاعلمی کا شکار ہیں اور اسی لاعلمی کا نتیجہ ہے کہ وہ زندگی بھر غلطی میں مبتلا رہتے ہیں اور ان کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ اس غلطی کی وجہ سے ان کے روزے درست ہی نہیں ہوتے۔ ظاہر ہے کہ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ایک شخص روزے رکھتا رہے لیکن اس کی اپنی ہی غلطیوں کے نتیجے میں اس کے یہ روزے شریعت کی نگاہ میں درست نہ ہوں۔ اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس اہم مسئلے سے بھی آگاہی حاصل کرے تاکہ وہ غلطی سے محفوظ ہوسکے۔ آیئے قرآن و سنت کی روشنی میں اس اہم مسئلے کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں تاکہ غلط فہمیوں اور شبہات کا ازالہ ہوسکے۔
📿 *سحری کا وقت رات ہی کو ہے:*
قرآن وسنت کی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ سحری کا وقت رات ہی کو ہے کہ جب تک رات ہے تو سحری کی جاسکتی ہے، لیکن جیسے ہی رات ختم ہوجائے تو سحری کا وقت بھی ختم ہوجاتا ہے، اور یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ صبح صادق ہوتے ہی رات ختم ہوجاتی ہے اور دن شروع ہوجاتا ہے، اس لیے صبح صادق کا وقت داخل ہونے کے ساتھ ہی سحری کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔ اس بات کو قرآن وسنت اور دیگر شرعی دلائل کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
📿 *سحری کا آخری وقت قرآن کریم کی روشنی میں:*
اللہ تعالیٰ قرآن کریم سورۃ البقرۃ آیت: 187 میں سحری اور افطاری سے متعلق فرماتے ہیں کہ:
وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ.
▪ *ترجمہ:* ’’اور اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے ممتاز ہو کر تم پر واضح (نہ) ہوجائے، اس کے بعد رات آنے تک روزے پورے کرو۔‘‘ (آسان ترجمہ قرآن)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رات کو سیاہ دھاگے، جبکہ صبح صادق کو سفید دھاگے سے تشبیہ دی ہےاور کھانے پینے کی آخری حد بھی بیان فرمادی ہے کہ اس وقت تک کھاتے پیتے رہو جب تک صبح صادق طلوع نہ ہوجائے، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ کھانا پینا رات ہی کو درست ہے، اور جب صبح صادق طلوع ہوجائے تو اس کے بعد کھانا پینا جائز نہیں۔ اس آیت سے سحری کا آخری وقت بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ سحری رات ہی کو بند کرنی ضروری ہے، اور اس سے یہ اہم مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ سحری بند کرنے کا تعلق صبح صادق کے ساتھ ہے نہ کہ اذان کے ساتھ، جس کا مطلب یہ ہے کہ اذان بھلے نہ ہوئی ہو لیکن صبح صادق ہوچکی ہو تو اس کے بعد کھانا پینا جائز نہیں۔
▫️ اس آیت کی تفسیر میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
❄️ *سحری کھانے کا آخری وقت:*
حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ: اس آیت میں رات کی تاریکی کو سیاہ خط، اور صبح کی روشنی کو سفید خط کی مثال سے بتلا کر روزہ شروع ہونے اور کھانا پینا حرام ہوجانے کا صحیح وقت متعین فرمادیا، اور اس میں اِفراط وتفریط کے اِحتمالات کو ختم کرنے کے لیے ’’حَتّٰى يَتَبَيَّنَ‘‘ کا لفظ بڑھا دیا، جس میں یہ بتلایا گیا ہے کہ نہ تو وہمی مزاج لوگوں کی طرح صبح صادق سے کچھ پہلے ہی کھانے پینے وغیرہ کو حرام سمجھو اور نہ ایسی بےفکری اختیار کرو کہ صبح کی روشنی کا یقین ہوجانے کے باوجود کھاتے پیتے رہو، بلکہ کھانے پینے اور روزہ کے درمیان حدِّ فاصل صبح صادق کا تیقُّن ہے، اس تیقُّن سے پہلےکھانے پینےکو حرام سمجھنا درست نہیں، اور تیقُّن کے بعد کھانے پینے میں مشغول رہنا بھی حرام اور روزے کے لیے مُفسِد ہے اگرچہ ایک ہی منٹ کے لیے ہو۔ سحری کھانے میں وُسعت اور گنجائش صرف اسی وقت تک ہے جب تک صبح صادق کا یقین نہ ہو۔ بعض صحابہ کرام کے ایسے واقعات کو بعض کہنے والوں نے اس طرح بیان کیا کہ سحری کھاتے ہوئے صبح ہوگئی اور وہ بےپروائی سے کھاتے رہے، یہ اسی پر مبنی تھا کہ صبح کا یقین نہیں ہوا تھا اس لیےکہنے والوں کی جلد بازی سے متاثر نہیں ہوئے۔ (معارف القرآن)
📿 *آیت کی تفسیر حدیثِ نبوی سے:*
1⃣ خود نبی کریم ﷺ نے بھی اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے یوں فرمایا کہ: ’’سیاہ دھاگے سے مراد رات کی تاریکی ہے جبکہ سفید دھاگے سے مراد دن کی روشنی ہے۔‘‘ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
☀ صحيح البخاري:
4510: حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مُطَرِّفٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنْ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ؟ أَهُمَا الْخَيْطَانِ؟ قَالَ:«إِنَّكَ لَعَرِيضُ الْقَفَا إِنْ أَبْصَرْتَ الْخَيْطَيْنِ»، ثُمَّ قَالَ:«لَا، بَلْ هُوَ سَوَادُ اللَّيْلِ وَبَيَاضُ النَّهَارِ».
2️⃣ اسی طرح صحیح مسلم کی حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے کہ سیاہ دھاگے سے مراد رات، اور سفید دھاگے سے مراد دن ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
2587: عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضي الله عنه قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: «وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ» قَالَ: فَكَانَ الرَّجُلُ إِذَا أَرَادَ الصَّوْمَ رَبَطَ أَحَدُهُمْ فِي رِجْلَيْهِ الْخَيْطَ الأَسْوَدَ وَالْخَيْطَ الأَبْيَضَ فَلَا يَزَالُ يَأْكُلُ وَيَشْرَبُ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُ رِئْيُهُمَا، فَأَنْزَلَ اللهُ بَعْدَ ذَلِكَ «مِنَ الْفَجْرِ» فَعَلِمُوا أَنَّمَا يَعْنِي بِذَلِكَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ.
ماقبل میں مذکور آیت اور احادیث سے یہ بات بخوبی معلوم ہوگئی کہ سحری بند کرنے کا صحیح وقت رات کو ہے نہ کہ دن کو۔
📿 *مذکورہ آیت کی روشنی میں جمہورِ امت کا متفقہ اصول:*
سورۃ البقرہ کی مذکورہ آیت کو امت کے جمہور اہلِ علم نے ایک متفقہ اصول قرار دیا ہے، اور یہی جمہور اہلِ علم کا مذہب ہے کہ سحری بند کرنے کا تعلق رات سے ہے نہ کہ دن سے، اور صبح صادق ہوجانے کے بعد سحری کھانا ناجائز ہے، جیسا کہ حضرت علامہ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ ’’سنن ابی داود‘‘ کے حاشیہ میں فرماتے ہیں کہ:
وذهب الجمهور إلى امتناع السحور بطلوع الفجر وهو قول الأئمة الأربعة وعامة فقهاء الأمصار.
یعنی کہ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ صبح صادق ہوجانے کے بعد سحری کھانا ناجائز ہے، یہی چاروں ائمہ کرام اور دیگر فقہائے عظام کا مذہب ہے۔
📿 *سحری کے آخری وقت کے لیے قرآن کریم سے ایک اور دلیل:*
سورۃ البقرہ کی اسی مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:
أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ. (سورۃ البقرۃ آیت: 187)
▪ *ترجمہ:* ’’تمھارے لیے روزے کی رات کو اپنی بیویوں کے ساتھ ہمبستری جائز قرار دی گئی ہے۔‘‘
اس آیت میں جب اللہ تعالیٰ نے روزے کی رات کو بیوی کے ساتھ ہمبستری کی اجازت دی ہے تو گویا کہ کھانے پینے کی اجازت بھی رات ہی کو ہے، جیسا کہ دن کو ہمبستری کی اجازت نہیں دی اسی طرح کھانے پینے کی اجازت بھی نہیں ہے، اور یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ رات صبح صادق تک ہی ہوتی ہے، صبح صادق کے بعد تو دن شروع ہوجاتا ہے۔
📿 *روزے کی تعریف کی روشنی میں سحری کے آخری وقت کی دلیل:*
روزہ درحقیقت صبح صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک کھانے پینے اور روزہ توڑنے والے امور سے بچنے کا نام ہے۔ (رد المحتار) اس لیے صبح صادق ہوتے ہی روزہ شروع ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص صبح صادق طلوع ہوجانے کے بعد کچھ کھاتا پیتا ہے تو وہ درحقیقت دن ہی کو کھاتا پیتا ہےحالاں کہ دن روزے کے لیے ہے نہ کہ کھانے پینے کے لیے، تو گویا کہ روزے کی حقیقت اور تعریف اس میں نہیں پائی گئی تو یہ روزہ ہوا ہی نہیں۔
📿 *فتاویٰ عثمانی کا حوالہ:*
شیخ الاسلام حضرت اقدس مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں:
’’صبح صادق کے بعد اگر ایک منٹ بھی مزید کھا لیا تو روزہ فاسد ہے۔‘‘ (فتاویٰ عثمانی 2/188)
📿 *اذان کے دوران سحری بند کرنے سے متعلق ایک حدیث اور اس کی صحیح تاویل:*
ماقبل کی تفصیل اور دلائل سے یہ بات بخوبی واضح ہوگئی کہ سحری کا وقت رات ہی کو ہے، جیسے ہی رات ختم ہوجائے اور صبح صادق کا وقت داخل ہوجائے تو اس کے بعد سحری کرنا ناجائز ہے، اس سے روزہ نہیں ہوتا، اور چوں کہ فجر کی اذان صبح صادق کے بعد ہوتی ہے اس لیے اذان کے دوران کھانے پینے سے روزہ نہیں ہوتا۔
اس معاملے میں بعض لوگ سنن ابی داود کی ایک حدیث شریف پیش کرتے ہیں کہ: جب تم میں سے کوئی اذان کی آواز سنے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو وہ اس کو نہ رکھے بلکہ اپنی ضرورت پوری کرلے۔‘‘ اور اس حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ فجر کی اذان کے دوران بھی سحری بند کی جاسکتی ہے۔ یاد رہے کہ یہ واضح غلط فہمی ہے۔ ذیل میں اس حوالے سے چند باتیں ذکر کی جاتی ہیں:
1⃣ اس حدیث کا ایسا مطلب بیان کرنا کہ جو قرآن وسنت کے واضح اصول اور دیگر دلائل کے خلاف ہویا ان کے مابین باہمی ٹکراؤ کی صورت پیدا کرے، ظاہر ہے کہ یہ ہرگز درست نہیں، اور نہ ہی یہ شریعت کا تقاضا ہوسکتا ہے، اس لیے اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
2️⃣ خصوصًا جب کہ اس حدیث میں کوئی بھی ایسا لفظ نہیں ہے کہ جس سے واضح طور پر یہ معلوم ہورہا ہو کہ اس
حدیث کا تعلق سحری بند کرنے کے ساتھ ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں اس سے سحری ہی مراد لینا کسی طرح درست نہیں، اور یہی وجہ ہے کہ جمہور اہلِ علم نے اس حدیث سے یہ معنی مراد لیا ہی نہیں کہ صبح صادق کے بعد اذان کے دوران یا اس کے بعد بھی سحری بند کی جاسکتی ہے، بلکہ اہلِ علم نے اس حدیث کے متعدد معانی بیان فرمائے ہیں، تاکہ اس حدیث شریف کا قرآن کے واضح اصول اور دیگر احادیث سے باہمی ٹکراؤ بھی پیدا نہ ہو اور حدیث کاصحیح مطلب بھی واضح ہوسکے، یہی وجہ ہے کہ بعض اہلِ علم فرماتے ہیں کہ اس کا تعلق عام اذان کے ساتھ ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ: ’’جب تم میں سے کوئی اذان کی آواز سنے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو وہ اس کو نہ رکھے بلکہ اپنی ضرورت پوری کرلے‘‘، یعنی اذان ہوجانے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اذان کی وجہ سےعام کھانا پینا چھوڑ دے اور اذان کا جواب دے بلکہ وہ اس دوران بھی کھا پی سکتا ہے، گویا کہ یہ حدیث عام اذان سے متعلق ہے۔ (ماہِ رمضان کے فضائل و احکام از مفتی محمد رضوان صاحب دام ظلہم)
3⃣ اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ اس حدیث کا تعلق سحری کے ساتھ ہے تو ایسی صورت میں امام بیہقی رحمہ اللہ جمہور اہلِ علم کی ترجمانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جمہور اہلِ علم کے نزدیک اس حدیث کا تعلق اُس اذان کے ساتھ ہے جو کہ صبح صادق سے پہلے دی گئی ہو۔ (زجاجۃ المصابیح) کیوں کہ حضور اقدس ﷺ کے مبارک دور میں دو اذانیں دینے کا رواج رہا: ایک صبح صادق سے پہلے جو کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ دیتے تھے، اور دوسری صبح صادق کے بعد جو کہ حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ دیتے تھے، جس کا ذکر متعدد احادیث میں آیاہے، اور جب صبح صادق سے پہلے بھی ایک اذان دی جانے کا رواج تھا تو ایسی صورت حال میں بھی حضور اقدس ﷺ نے سحری کا صحیح وقت واضح فرمایا تاکہ لوگ کہیں غلطی میں مبتلا نہ ہوں، چنانچہ صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ:
إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى تَسْمَعُوا تَأْذِينَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ.
(صحیح مسلم حديث: 1092)
یعنی کہ بلال رات کو اذان دیتے ہیں، اس لیے اس وقت تک کھا پی سکتے ہو جب تک ابن ام مکتوم کی اذان نہ ہوجائے، (کیوں کہ وہ فجر کے بعد اذان دیتے تھے۔)
اسی طرح صحیح مسلم کی ایک اور حدیث میں بھی یہی مضمون آیا ہے کہ:
لَا يَغُرَّنَّكُمْ نِدَاءُ بِلَالٍ وَلَا هَذَا الْبَيَاضُ حَتَّى يَبْدُوَ الْفَجْرُ.
(صحیح مسلم حدیث: 1094)
یعنی کہ تمہیں بلال کی اذان اور صبح کاذب کہیں غلطی میں نہ ڈال دیں یہاں تک کہ فجر طلوع نہ ہوجائے۔
(فائدہ: صبح صادق سے کچھ لمحات پہلے ایک روشنی سی نمودار ہوتی ہے جو عمودی شکل میں ہوتی ہے، جس سے یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ صبح صادق ہوچکی ہے لیکن چند ہی لمحوں بعد وہ غائب ہوجاتی ہے، اس کو صبح کاذب کہا جاتا ہے۔)
📿 *حاصلِ کلام:*
اس تمام تفصیل سے معلوم ہوا کہ سنن ابی داود کی اس حدیث شریف کا صحیح مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے وہ اذان مراد ہے جو کہ صبح صادق سے پہلے دی جاتی تھی کہ جب یہ اذان ہوجائے اور تمہارے ہاتھ میں برتن ہو تو تم اس کو نہ رکھو بلکہ اپنی حاجت پوری کرلیا کرو، کیوں کہ ابھی تک صبح ہوئی ہی نہیں ہے۔ یہ مطلب مراد لینے کے بعد حدیث کا صحیح مطلب بھی واضح ہوجاتا ہے اور قرآن وحدیث میں باہمی ٹکراؤ کی صورت بھی پیدا نہیں ہوتی۔ (اس کی مزید مدلل تفصیل کے لیے دیکھیے: جامعہ دار العلوم کراچی کا فتویٰ نمبر: 1724/3)
📿 *سحری میں تاخیر افضل ہونے کی وضاحت:*
اسی کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ احادیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہے کہ سحری میں تاخیر کرنا بڑی فضیلت کی بات ہے۔ (صحیح ابن حبان حدیث: 1770) اس سے بعض حضرات کو یہ شبہ ہوا ہے کہ صبح صادق کے بعد اور اذان کے ساتھ بھی سحری بند کرسکتے ہیں اور دلیل میں یہ حدیث شریف بھی پیش کرتے ہیں، تو اس حوالے سے عرض یہ ہے کہ یہ بات درست ہے کہ احادیث کی رُو سے سحری میں تاخیر کرنا افضل ہے لیکن اس کا یہ تو مطلب نہیں کہ سحری میں اتنی تاخیر کی جائے کہ صبح صادق ہی طلوع ہوجائے، اس کی متعدد وجوہات ہیں:
1⃣ تاخیر سے سحری کرنے کا یہ مطلب قرآن و سنت سے کہیں ثابت نہیں کہ صبح صادق کے بعد بھی کھایا پیا جائے، بلکہ قرآن وسنت سے اس کے برعکس یہی معلوم ہوتا ہے کہ سحری کا وقت رات ہی کو ہے، اس لیےسحری رات ہی کو بند کرنی ضروری ہے۔
2️⃣ جب تاخیر سے سحری کرنا افضل ہے تو ظاہر ہے کہ تاخیر کی کوئی حدّ بھی تو ہوگی، کیوں کہ اگرتاخیر کی کوئی حد مقرر نہ ہو تو پھر ایک آدمی صبح سورج نکلنے کے بعد کھا پی کر یہ کہہ سکتا ہے کہ سحری میں تاخیر افضل ہے، تو ظاہر ہے کہ اس کی اس بات کو کون تسلیم کرسکتا ہے؟؟ اس لیے اس تاخیر کی بھی ایک حد ہے، اور وہ حد یہی ہے کہ صبح صادق طلوع ہونے سے پہلے تک آپ کھا پی سکتے ہیں، اس کے بعد نہیں، اور یہ حدّ قرآن و سنت کے واضح دلائل سے ثابت ہے، جیسا کہ تفصیل بیان ہوچکی۔
3⃣ احادیث سے جو یہ بات ثابت ہے کہ تاخیر سے سحری کرنا افضل ہے اس کا معنی یہ ہے کہ بعض لوگ صبح صادق سے ڈھائی تین گھنٹے پہلے یا آدھی رات ہی کو سحری سے فارغ ہوجاتے ہیں تو یہ بھی جائز ہے لیکن بہتر اور زیادہ فضیلت کی بات یہ ہے کہ صبح صادق طلوع ہونے کے قریب قریب سحری کرے اور جب رات ختم ہونے لگے تو صبح صادق سے پہلے پہلے سحری بند کرلے۔
📿 *صبح صادق سے متعلق بنیادی احکام:*
چوں کہ صبح صادق کے ساتھ سحری کا ایک اہم ربط ہے اس لیے ذیل میں صبح صادق سے متعلق چند بنیادی باتیں ذکر کی جاتی ہیں:
❄️ *صبح صادق کی حقیقت:*
عمومًا صبح کاذب کے تھوڑی دیر بعد آسمان کے اُفق پر شمالًا وجنوبًا ایک روشنی نمودار ہوتی ہے، یہ روشنی مستطیر یعنی چوڑائی میں پھیلی ہوئی ہوتی ہے جو کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید پھیلتی اور بڑھتی جاتی ہے، اس کو صبح صادق کہتے ہیں، یہ حقیقی صبح ہوتی ہے۔
📿 *صبح صادق سے متعلق احکام:*
صبح صادق چوں کہ حقیقی صبح ہوتی ہے اس لیے اس پر شریعت کے متعدد احکام لاگو ہوتے ہیں، جیسے:
▪صبح صادق طلوع ہوتے ہی رات ختم ہوجاتی ہے۔
▪صبح صادق طلوع ہوتے ہی نمازِ عشا اور نمازِ وتر کا وقت ختم ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے یہ دونوں نمازیں قضا ہوجاتی ہیں۔
▪صبح صادق طلوع ہوتے ہی تہجد کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔
▪صبح صادق طلوع ہوتے ہی سحری کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔
▪صبح صادق طلوع ہوتے ہی روزہ شروع ہوجاتا ہے۔
▪صبح صادق طلوع ہوتے ہی شرعی دن شروع ہوجاتا ہے، جس کے آدھے دن کو نصف النہار شرعی کہتے ہیں۔ واضح رہے کہ زوال کو نصف النہار عرفی کہا جاتا ہے جو کہ سورج طلوع ہونے سے لے کر سورج غروب ہونے تک کا آدھا دن ہوتا ہے۔
▪صبح صادق طلوع ہوتے ہی نمازِ فجر کا وقت داخل ہوجاتا ہے۔
▪صبح صادق طلوع ہوتے ہی عید الفطر میں صدقۃ الفطر واجب ہوجاتا ہے۔
▪صبح صادق ہوتے ہی عید الاضحیٰ کے دن قربانی کا جانور ذبح کرنا درست ہوتا ہے، البتہ یہ اُن دیہاتوں کے لیے ہے جن میں عید کی نماز واجب نہیں ہوتی، جبکہ شہروں میں اور بڑے دیہاتوں میں جہاں عید کی نماز واجب ہوتی ہے وہاں عید کی نماز کے بعد ہی ذبح کرنا جائز ہوتا ہے، جس کی تفصیل قربانی کے مسائل میں دیکھی جاسکتی ہے۔
ان جیسے متعدد احکام ایسے ہیں جو صبح صادق سے منسلک ہیں۔
(رد المحتار، ہندیہ، صبح صادق وکاذب اور وقت عشا کی تحقیق از مفتی محمد رضوان صاحب دام ظلہم)
📿 *صبح صادق ہوتے وقت سورج کتنے ڈگری زیرِ اُفق ہوتا ہے؟*
جمہور اہلِ علم کے نزديک سورج جب 18 درجے زیرِ اُفق ہو تو صبح صادق طلوع ہوجاتا ہے، یہی قول راجح اور اسی پر فتویٰ ہے، اور عمومًا مروّجہ اوقاتِ نماز کے نقشے بھی اسی کے مطابق بنائے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ خصوصًا سحری بند کرنے کے معاملے میں تو اسی پر عمل کرنے میں احتیاط ہے۔
(رد المحتار، نوادر الفقہ، فتاویٰ عثمانی، فہم الفلکیات، صبح صادق وکاذب اور وقت عشا کی تحقیق از حضرت مفتی رضوان صاحب)
🌼 *احادیث مبارکہ:*
☀ مصنَّف ابن ابی شیبہ میں ہے:
9163- عَنْ سَمُرَةََ بْنِ جُنْدُبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «لَا يَمْنَعَنَّكُمْ أَذَانُ بِلَالٍ مِنَ السُّحُورِ، وَلَا الصُّبْحُ الْمُسْتَطِيلُ، وَلَكِنِ الصُّبْحُ الْمُسْتَطِيرُ فِي الأُفُقِ».
9164- عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «الْفَجْرُ فَجْرَانِ: فَأَمَّا الَّذِي كَأَنَّهُ ذَنَبُ السِّرْحَانِ فَإِنَّهُ لَا يُحِلُّ شَيْئًا وَلَا يُحَرِّمُهُ، وَلَكِنِ الْمُسْتَطِيرُ».
9165- عَنْ غُنَيْمِ بْنِ قَيْسٍ عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: لَيْسَ الْفَجْرُ الَّذِي هَكَذَا، يَعْنِي الْمُسْتَطِيلَ، وَلَكِنِ الْفَجْرُ الَّذِي هَكَذَا، يَعْنِي الْمُعْتَرِضَ.
☀ صحیح مسلم میں ہے:
2596- عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ سَوَادَةَ الْقُشَيْرِىِّ: حَدَّثَنِى وَالِدِى أَنَّهُ سَمِعَ سَمُرَةَ بْنَ جُنْدُبٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ مُحَمَّدًا ﷺ يَقُولُ: «لَا يَغُرَّنَّ أَحَدَكُمْ نِدَاءُ بِلَالٍ مِنَ السَّحُورِ وَلَا هَذَا الْبَيَاضُ حَتَّى يَسْتَطِيرَ».
2597- عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ رضى الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «لَا يَغُرَّنَّكُمْ أَذَانُ بِلَالٍ وَلَا هَذَا الْبَيَاضُ -لِعَمُودِ الصُّبْحِ- حَتَّى يَسْتَطِيرَ هَكَذَا».
2598- عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ رضى الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «لَا يَغُرَّنَّكُمْ مِنْ سَحُورِكُمْ أَذَانُ بِلَالٍ وَلَا بَيَاضُ الأُفُقِ الْمُسْتَطِيلُ هَكَذَا حَتَّى يَسْتَطِيرَ هَكَذَا». وَحَكَاهُ حَمَّادٌ بِيَدَيْهِ قَالَ يَعْنِى مُعْتَرِضًا.
☀ سنن النسائی میں ہے:
2170- أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ: أَنْبَأَنَا سَوَادَةُ بْنُ حَنْظَلَةَ قَالَ: سَمِعْتُ سَمُرَةَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «لَا يَغُرَّنَّكُمْ أَذَانُ بِلَالٍ وَلَا هَذَا الْبَيَاضُ حَتَّى يَنْفَجِرَ الْفَجْرُ هَكَذَا وَهَكَذَا» يَعْنِي مُعْتَرِضًا. قَالَ أَبُو دَاوُدَ: وَبَسَطَ بِيَدَيْهِ يَمِينًا وَشِمَالًا مَادًّا يَدَيْهِ.
🌼 *مذکورہ تفصیل کی روشنی میں سحری کے احکام*
📿 *سحری کا وقت رات ہی کو ہے:*
جب صبح صادق طلوع ہونے کا وقت قریب آتا ہے اور رات ختم ہونے لگتی ہے تو رات ختم ہونے سے پہلے پہلے سحری بند کرلینی ضروری ہے، کیوں کہ سحری کا وقت رات کو ہے نہ کہ صبح کو، اس لیے جو لوگ صبح صادق کا وقت داخل ہوجانے کے بعد بھی کھاتے پیتے ہیں ان کا روزہ ہرگز درست نہیں۔ (اعلاءالسنن)
📿 *فجر کی اذان کے دوران سحری بند کرنے کا حکم:*
بہت سے لوگ فجر کی اذان کے دوران بھی کھاتے پیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک اذان ختم نہ ہوجائے اس وقت تک سحری کا وقت باقی رہتا ہے، یاد رہے کہ یہ کھلی غلطی ہے، کیوں کہ اذان صبح صادق طلوع ہوجانے کے بعد ہوتی ہے جبکہ سحری رات ہی کو بند کرنی ضروری ہے، اس لیے جو لوگ اذان کے ساتھ کھاتے پیتے ہیں وہ درحقیقت رات کے بجائے صبح کو سحری بند کررہے ہوتے ہیں حالاں کہ ماقبل کی مدلل تفصیل سے معلوم ہوچکا کہ سحری کا وقت رات ہی کوہے نہ کہ دن کو، اس لیے ایسے حضرات کا روزہ ہرگز درست نہیں۔
📿 *سحری بند کرنے میں فجر کی اذان کا کوئی اعتبار نہیں:*
ماقبل کی تفصیل سے یہ بات بھی معلوم ہوجاتی ہے کہ سحری بند کرنے میں اصل اعتبار اذان کا نہیں بلکہ صبح صادق کا ہے کہ جب صبح صادق طلوع ہوجائے اس کے بعد کھانے پینے سے روزہ ہوتا ہی نہیں، اگرچہ اذان نہیں ہوئی ہو، کیوں کہ اذان تو صبح صادق کے بعدہی ہوا کرتی ہے۔ اسی طرح بعض مساجد میں صبح صادق سے پہلے ہی فجر کی اذان دے دیتے ہیں، ایسی صورت میں بھی اصل اعتبار صبح صادق ہی کا ہوگا کہ اگرچہ اذان ہوچکی ہو لیکن چوں کہ صبح صادق طلوع نہیں ہوا ہوتا اس لیے صبح صادق طلوع ہونے سے پہلے تک سحری کھانا جائز ہے۔ (امداد الفتاویٰ ودیگر کتب)
⭕ *تنبیہ:*
بہتر یہ ہے کہ صبح صادق طلوع ہونے سے چند منٹ پہلے روزہ بند کرلیا جائے تاکہ احتیاط رہے۔
📿 *جنابت کی حالت میں روزہ رکھنے کا حکم:*
جنابت کی حالت میں بھی روزہ رکھنا درست ہے، اگر کسی شخص کو سحری کے وقت غسل کرنے کی حاجت ہو تو بہتر تو یہ ہے کہ غسل کرکے سحری کرلے، لیکن اگر غسل کرنے کا موقع نہ ہو تو منہ ہاتھ دھو کر سحری کرلے، اور غسل بعد میں کرلے اگرچہ یہ غسل صبح صادق طلوع ہوجانے کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔
(رد المحتار، مراقی الفلاح )
🌼 *سحری اور افطاری سے متعلق نہایت ہی قیمتی اور اہم مشورے*
📿 *سحری اور افطاری کے لیے مستند نقشہ اپنے پاس رکھیے:*
بہترین صورت یہ ہے کہ سحر وافطار کے اوقات سے متعلق اپنے شہر اور علاقے کا کوئی مستند نقشہ اپنے پاس رکھا جائے، پھر اسی نقشے کا اعتبار کرتے ہوئے سحر وافطار کا اہتمام کیا جائے کہ نقشے میں جو صبح صادق کا وقت لکھا ہوتا ہے اس سے پہلے روزہ بند کرلیا جائے، اور جو مغرب کا وقت لکھا ہوتا ہے اس سے پہلے ہرگز افطاری نہ کی جائے، ان باتوں پر عمل کرکے غلطی سے حفاظت ہوسکتی ہے۔ سحر وافطار کے اوقات معلوم کرنے کے لیے اپنے شہر کے کسی معتبر نقشے سے استفادہ کرنے کی کوشش کی جائے جس میں سحر وافطار کے اوقات درج ہوں۔
📿 *گھڑیاں ملک کے معیاری وقت کے مطابق کیجیے!*
اوقاتِ نماز اور سحر وافطار کے نقشے ملک کے معیاری وقت کے مطابق ہی بنائے جاتے ہیں، اس لیے ہر شخص کو اپنی گھڑی اور اپنے گھروں، دفاتر اور تعلیمی اداروں کی گھڑیاں ملک کے معیاری وقت کے مطابق ہی رکھنی چاہییں، اسی طرح مساجد کی گھڑیاں بھی اپنے ملک کے معیاری وقت کے مطابق کرلینی چاہییں کیوں کہ نمازوں کے اوقات اور سحر وافطار میں اس کی بڑی ضرورت پڑتی ہے، جبکہ اس سے غفلت کے نتیجے میں متعدد مسائل اور خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ مساجد کی انتظامیہ کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ اس بات کی اہمیت کے لیے دو مثالیں سمجھیے:
1⃣ اگر کسی مسجد کی گھڑی ملک کے معیاری وقت سے دو منٹ آگے ہے اور اس مسجد میں نقشے کے مطابق لوگوں کو افطار کی اطلاع دی جائے تو گویا کہ یہ اطلاع وقت داخل ہونے سے دو منٹ پہلے دی جائے گی، جس کا غلط ہونا واضح ہے اور اس کی بنا پر جو لوگ فورًا افطار کریں گے ان کا افطار وقت داخل ہونے سے پہلے ہوگا۔
2️⃣ بندہ مغرب کی نماز ادا کرنے کے لیے ایک مسجد گیا تو دیکھا کہ مسجد کی گھڑی ملک کے معیاری وقت سے دو منٹ آگے ہے، تو جیسے ہی مسجد کی گھڑی کے مطابق مغرب کا وقت داخل ہوا تو مؤذن صاحب فورًا اذان دینے کے لیے اُٹھنے لگے تو بندہ نے ان کو سمجھایا کہ ابھی تو وقت ہی داخل نہیں ہوا، کیوں کہ مسجد کی گھڑی دو منٹ آگے ہے، ایسی صورت میں اگر آپ اذان شروع کریں گے تو یہ وقت سے پہلے شروع ہوگی، اور مسئلہ یہ ہے کہ اگر اذان کے بعض کلمات بھی وقت سے پہلے ادا کرلیے تو وقت کے اندر اس اذان کا اعادہ کیا جائے گا۔ (الدر المختار)
اندازہ لگائیے کہ گھڑیاں اپنے ملک کے معیاری وقت کے مطابق رکھنے کی کس قدر اہمیت اور ضرورت ہے!! اس لیے عام نمازوں میں بھی اور خصوصًا ماہِ رمضان کے لیے بھی اپنی گھڑیوں کو ملک کے معیاری وقت کے مطابق کرلینی چاہیے۔
📿 *مساجد سے سحری بند کرنے کے لیے اعلان کا اہتمام:*
مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ صبح صادق شروع ہونے سے تقریبًا پانچ منٹ پہلے مساجد سے سائرن وغیرہ کے ذریعے سحری بند کرنے کی اطلاع دینے کی صورت اختیار کی جائے اور عوام کو مطلع کیا جائے کہ سحری بند ہونے سے پانچ منٹ پہلے سائرن وغیرہ کے ذریعے اطلاع دی جائے گی، اس طرح جب سائرن وغیرہ کا اہتمام ہوگا تو لوگ سمجھ جائیں گے کہ سحری پانچ منٹ کے اندر اندر بند کرلینی ہے، اس سے عوام کے روزے محفوظ ہوسکیں گے۔
📿 *رمضان المبارک میں نمازِ فجر کی جلد ادائیگی کا حکم:*
عام حالات میں تو فجر کی نماز میں افضل اور مستحب یہی ہے کہ اسے اندھیرے کی بجائے ذرا روشنی ہوجانے کے بعد ادا کی جائے، جس کے لیے بعض اہلِ علم حضرات نے طلوعِ آفتاب سے آدھا گھنٹہ پہلے کا وقت مقرر کیا ہے، اس میں ایک بڑی حکمت یہ ہے کہ ذرا تاخیر سے ادا ہونے کی صورت میں اس میں لوگ کثرت سےجماعت میں شریک ہوسکیں گے کیوں کہ اگر وقت داخل ہوتے ہی اندھیرے میں نماز ادا کی جائے تو قوی اندیشہ ہے کہ بہت سے لوگوں کی جماعت رہ جائے، حالاں کہ تکثیرِ جماعت بھی مطلوب ہے۔ لیکن جہاں اندھیرے میں نماز ادا کرنے کی صورت میں جماعت میں زیادہ سے زیادہ افراد کی شرکت ہوجاتی ہو اور روشنی میں نماز ادا کرنے کی وجہ سے لوگوں کی جماعت فوت ہونے کا اندیشہ ہو جیسا کہ رمضان المبارک میں مشاہدہ ہوتا رہتا ہے تو ایسی صورت میں لوگوں کی رعایت کرتے ہوئے اندھیرے ہی میں فجر ادا کرنا افضل ہے۔
(فیض الباری، فتاویٰ محمودیہ، آپ کے مسائل اور ان کا حل)
☀ صحیح بخاری میں ہے:
577- عَنْ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِي حَازِمٍ أَنَّهُ سَمِعَ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ يَقُولُ كُنْتُ أَتَسَحَّرُ فِي أَهْلِي ثُمَّ يَكُونُ سُرْعَةٌ بِي أَنْ أُدْرِكَ صَلَاةَ الْفَجْرِ مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ.
☀ فیض الباری شرح صحیح بخاری للامام الکشمیری میں ہے:
577- قوله: (كنت أَتَسحَّرُ في أهلي، ثُمَّ يكونُ سُرْعَةٌ بي أَنْ أُدْرِكَ صلاةَ الفجرِ مَعَ رَسولِ الله ﷺ) ولعل هذا التَّغْلِيس كان في رمضان خاصة، وهكذا ينبغي عندنا إذا اجتمعَ النَّاس، وعليه العمل في دار العلوم بديوبند من عهد الأكابر. (باب وَقْتِ الفَجْر)
۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ
ایک تبصرہ شائع کریں
تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں