مولانا ولی رحمانی ملت کے عظیم قائد


 آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے بے باک مرد آہن , امت مسلمہ کے ہر درد کی دوا اور اس کی ہچکولے کھاتی ہوئی کشتی کے ملاح اور ایوان باطل میں زلزلہ برپا کرنے والے نڈر جری قائد و رہنما حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب جن کے نام کے ساتھ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آرہا ہے لیکن یہ سچ ہے کہ جناب والا اب ہمارے درمیان نہ رہے بلکہ انہوں نے اپنی عمر کی 77 بہاریں دیکھنے کے بعد داعی اجل کو لبیک کہہ دیا .

بچھڑا کچھ اس ادا سے کے رت ہی بدل گئی 

ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا 


قارئین! جب ایک تناور درخت گرتا ہے تو ماحول سہم جاتا ہے فضا تھم سی جاتی ہے ہواؤں پر سناٹا طاری ہو جاتا ہے  حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب کی سایہ دار, ثمر آور اور طاقت ور شخصیت کسی تناور درخت کی سی تھی وہ ایک مضبوط آواز اور لسان القوم تھے اس وبائی دور میں ان کی رحلت سے ملت کی بنیاد ہل گئی, دیوار گر گئی اور تلوار ٹوٹ گئی

کڑے سفر کا تھکا مسافر

تھکا ہےایسا کےسوگیا ہے

خود اپنی آنکھیں توبند کرلِیں

ہر آنکھ لیکن ، بِھگو گیا ہے


قائین واضح رہے کہ حضرت نے اپنے آخری ایام پٹنہ کے ایک ہسپتال میں بسر کیے اور دوران علاج ہی اس دار فانی سے دار بقا کی طرف رحلت فرمایا گئے . لیکن باوثوق ذرائع سے جو معلومات سامنے آ رہی ہے وہ چونکا دینے والی ہے کہ حضرت والا کو کچھ دن پہلے کووڈ 19 کی ویکسین کا ڈول دیا گیا تھا جس کے بعد سے طبیعت میں تنزلی ہی آتی رہی اور اس سے جانبر نہ ہوسکے. 


تعزیتی پیغامات 

مولانا کےانتقال سے علمی طبقے ہی میں نہیں بلکہ ہر طرف کہرام مچ گیا ہر آنکھ اشکبار اور ہر زبان سراپا حزن و ملال نبی گئی مولانا کی رحلت ملت اسلامیہ ہندیہ کا ایک ایسا خسارہ ہے جو مستقبل قریب میں ناقابل تلافی ہے 

ملک اور بیرون ملک ہر طرف سے مولانا اور ان کےاہل خانہ کے لئے علماء ملت  اور سیاسی جماعتوں کے قائدین کے جانب سے تعزیتی پیغامات کی ریل پیل ہے .

 مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم نے اپنے تعزیتی پیغام میں بڑے ہی غمگین اور پرملال لہجے میں کہا کہ مولانا امت کی کھیتی کے کھیت دار اور اس کی کشتی کے کھیون ہار تھے ان کی موجودگی سے مسائل کو حل کرنے میں بڑی تقویت ملتی تھی وہ امت کے مسائل کو پوری صفائی کے ساتھ حل کرتے تھے اس لئے کہ ان کا تعلق اس خانوادے سے تھا جس نے دین کی بہت خدمت کی مولانا نے مزید ان کےساتھ اپنے تعلقات کو بیان کیا. 


حضرت مولانا سلمان حسینی دامت برکاتہم  نے اپنے تعزیتی پیغام میں فرمایا  کہ مولانا ولی رحمانی رحم اللہ  کے انتقال سے ایک دور کا خاتمہ ہو گیا مولانا کو اللہ نے جو دماغ دیا جو ذہنی صلاحیتیں عطا فرمائیں اور ساتھ ہی ساتھ ان کو جو قلم کی روانی اور زبان کی طلاقت عطا فرمائی یہ ایسی نعمتیں تھیں جن کی بنیاد پر کسی بھی مجلس میں وہ اپنی شخصیت کو تسلیم کرا لیا کرتے تھے مولانا نے مزید کہا کہ ان کا بہت بڑی شخصیت سے تھا کہ ان کے دادا تحریک ندوۃ العلماء کے بانی اور ان کے والد پہلے دن سے مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سیکریٹری اور بانی تھے. 

حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا 

امیر شریعت حضرت مولانا سید ولی رحمانی رحمة الله علیہ کی وفات ایسا حادثہ ہے ، جس کی تلافی بظاہر بہت دشوار ہے ، الله تعالی نے ان کو گہرے علم ، وسیع مطالعہ خوبصورت قلم ، شائستہ زبان کے ساتھ ساتھ قائدانہ صلاحیت اور اس سے بڑھ کر قائدانہ جرات و ہمت سے نوازا تھا ، وہ حضرت مولاناسید منت اللہ رحمانی کے صرف نسبی ہی وارث نہیں تھے ؛ بلکہ غیر معمولی جرأت اور حسن تدبر میں بھی ان کے سچے اور پکے جانشین تھے ، انہوں نے بہت کامیابی کے ساتھ اپنے دادا حضرت مولانا سید علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ کے لگائے ہوئے پودے جامعہ رحمانی مونگیر کو ایک سایہ دار تناور درخت بنادیا, تزکیہ و احسان کی نسبت سے خانقاہ رحمانی مونگیر کے علاقہ کو وسعت دی ، وہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی تاسیس کے وقت سے اس میں شریک تھے ، حضرت مولانا منت اللہ رحمانی کی وفات کے بعد اس کے سکریٹری منتخب ہوئے ، اور حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب کی وفات کے بعد به اتفاق رائے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے ان کا انتخاب عمل میں آیا ۔ ان کا یہ دور ہندوستان کے موجودہ حالات کی وجہ سے بہت ہی شورش اور آزمائش کا دور تھا ، انہوں نے تدبر ، حوصلہ مندی اور جرات کے ساتھ ان حالات کا سامنا کیا اور ملت کے سفینہ کی ناخدائی کرتے رہے ۔  وہ امارت شرعیہ بہار واڈیشہ و جھارکھنڈ کے ساتویں امیر شریعت منتخب ہوئے. عصری تعلیم کے میدان میں رحمانی 30 کے ذریعہ انہوں نے جو خدمت انجام دی ہے ۔ وہ ایک بڑا اور مثالی کارنامہ ہے ۔ 


مولانا محمد تقی الدین ندوی معتمد تعلیم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ مولانا محمد ولی رحمانی کی وفات ایک ایسا سانحہ ہے جس نے پورے ملت کو ہلا کر رکھ دیا ہے , جانے والا جائے اسے کوئی روک نہیں سکتا لیکن کسی شخص کے ارتحال و انتقال کا صدمہ نہ صر ف خاندان پر پڑتا ہے بلکہ پوری ملت پر ہوتا ہے اس وقت شدید ضرورت تھی ملت ہندیہ کو حضرت مولانا کےوجود کی لیکن اللہ کے حکم سے یہ حادثہ پیش آیا ہے اب ہم سب کو اس کے فیصلے پر راضی برضا رہنا ہے. 


آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اراکین کی جانب سے تعزیتی پیغام کچھ یوں دیا گیا 


حضرت امیر شریعت مولانا محمد ولی رحمانی کی رحلت ملت اسلامیہ کے لیے عظیم سانحہ ہے

حضرت مولانا محمد ولی رحمانی اپنی ذات میں ایک انجمن تھے

آج دوپہر 3 اپریل 2021 کو یہ خبر غم اثر پوری ملت اسلامیہ ہندیہ پر بجلی بن کر گری کہ آل انڈیامسلم پر سنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا سید محمد ولی صاحب رحمانی رحمۃ اللہ علیہ مختصر علالت کے بعد خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ واناالیہ راجعون

               حضرت مولانا سید محمد ولی صاحب رحمانی عظیم عالم  صاحب نسبت بزرگ اور آل انڈیا مسلم پر سنل لا بورڈ کے متحرک اور فعال جنرل سکریٹری تھے، انہوں نے مشکل سے مشکل گھڑی میں ملت اسلامیہ کی صحیح رہبری و رہنمائی کافریضہ انجام دیا، آل انڈیامسلم پر سنل لا بورڈ کے قیام سے لے کر اب تک انہوں نے بورڈ کے لیے جو خدمات انجام دی ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں، ان کی رحلت بورڈ کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے، انہوں نے نہ صرف یہ کہ بورڈ کے پلیٹ فارم سے بلکہ امارت شرعیہ بہار ،اڑیسہ ،جھا ر کھنڈ اور دوسرے متعدد دینی اور ملی اداروں کے ذریعے پوری ملت کو فیض پہونچایا ہے، ان کا نام اور کام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، اور ان کے چھوڑے ہوئے نقوش وخطوط پر ملت اسلامیہ کی خدمت کا سلسلہ جاری رہے گا، بورڈ آنے والے دنوں میں ان شاء اللہ اسی طرح مضبوطی اور استحکام کے ساتھ خدمت انجام دیتارہے گا جس طرح حضرت مرحوم کی سربراہی میں انجام دیتارہا ہے۔

        

بیرون ملک سے تعلق رکھنے والے متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن دامت برکاتہم العالیہ نے بھی حضرت کی وفات پر حسرت و ملال کا اظہار کیا اور تعزیت پیش کی. 


مولانا کی اہم خوبی 

آپ کی سب سے زیادہ ممدوح جو چیز تھی وہ یہ کہ آپ ہر جگہ دوٹوک اور بے باکانہ انداز میں گفتگو فرماتے سچائی اور راست بازی کو اپنے آپ سے دور نہیں ہونے دیتے اور لمحوں میں سچ اور جھوٹ کا پردہ چاک کر کے رکھ دیتے , جرأت و بسالت آپ کے رگ و پے سے جھلکتی تھی, سنجدگی اور لطافت آپ کے قدم بوسی کیا کرتی تھی اور آپ اس شعر کے مصداق تھے

کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق 

میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند 

     

  حالات زندگی اور خدمات 

 مولانا بیک وقت کئی مرکزی عہدے پر فائز تھے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری جنرل، امارت شرعیہ بہار و اڈیشہ و جھارکھنڈ کے امیر شریعت، خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشین اور سرپرست اور رحمانی ٹھرٹی کے ذمہ دار اعلی۔۔۔۔ اور نہ جانے کتنی ذمہ داریاں تھیں آپ کے سر پر۔۔۔۔ 

     آپ مولانا محمد علی مونگیری رح کے پوتے تھے اور مولانا محمد منت اللہ رحمانی رح کے صاحب زادے تھے۔ 

آپ سادات خاندان کے چشم و چراغ تھے، آپ کا خاندان عراق سے ہندوستان منتقل ہوا۔۔ آپ کے دادا جان ندوہ کے بانی مبانی تھے اور ندوہ کا تخیل سب سے پہلے انہوں نے ہی پیش کیا تھا۔۔ 

آپ کی پیدائش ۱۹۴۲/یا ۱۹۴۳ء میں مونگیر میں ہوئی۔۔۔ تربیت اعلی دینی ماحول میں ہوئی۔۔ ابتدائی اور ثانوی تعلیم خانقاہ مونگیر میں ہوئی، عالمیت تک کی تعلیم ندوہ العلماء لکھنؤ میں ہوئی اور ازہر ہند دار العلوم دیوبند سے سند فضیلت حاصل کی۔۔ خانقاہ رحمانی مونگیر میں تدریسی خدمت پر مامور ہوئے بڑے بڑے علماء آپ کے شاگردوں میں ہیں، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اور مولانا شعیب رحمانی مرحوم آپ کے نمایاں شاگردوں میں ہیں۔۔۔ 

     اللہ تعالی نے آپ کو صورت و سیرت اور علم و عمل کا جامع بنایا تھا۔ جس مجلس میں ہوتے اپنی صلاحیت قابلیت اور نقاہت و ثقافت و نقاہت کے اعتبار سے چھا جاتے تھے۔ 

         

   آپ مسلسل چوبیس سال ایم ایل سی رہے ۱۹۷۲ء سے ۱۹۹۲ء تک۔۔ سیاسی میدان میں بھی آپ کو زبردست صلاحیت تھی۔۔۔۔ تحریر و تقریر دونوں میدان کے ماہر تھے، اسلوب خطابت بڑا موثر اور نرالا تھا، زبان و بیان پر ملکہ حاصل تھا۔ ان کے چلے جانے پر دل کہتا ہے اندر سے آواز آتی ہے کہ 

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا 


امیر شریعت مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی صاحب رحمانی زندگی کا مختصر خاکہ 

نام:  حضرت مولانامحمد ولی صاحب رحمانی 


والد کا نام: حضرت مولانا منت اللہ رحمانی بانی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ


 دادا کا نام : حضرت مولانا محمد علی مونگیری بانی ندوۃ العلماء لکھنؤ 

 پیدائش :  ۵ / جوان ۱۹۴۳ ء بمقام خانقاہ رحمانی مونگیر

 

تعلیم : رحمانیہ اردو اسکول خانقاہ رحمانی ، جامعہ رحمانی مونگیر ، ندوة العلماء لکھنؤ دارالعلوم دیوبند پھر تلکا مانجھی یونیورسٹی بھاگلپور ۔ 


اہم خدمات : ۱۹۶۵ ء بعد فراغت ہفتہ وار نقیب پھلواری شریف پٹنہ کے شریک ایڈیٹر رہے ، اور اس کا وقار بلند کیا ۔ 

جامعہ رحمانی مونگیر میں ۱۹۶۲ ء سے ۱۹۷۷ ء تک درس و تدریس سے وابستہ رہے ، اور چار سال تک ناظم تعلیمات ، ہے ۔

 والد بزرگوار کے بعد ۱۹۹١ ء سے جامعہ رحمانی کے سر پرست اور خانقاہ رحمانی کے سجاد نشیں رہے ، دونوں اداروں کے دائرہ کو وسیع کیا ۔ 

۱۹۹۱ تا جوان ۲۰۱۵ تک مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکر یٹری رہے ۔ 

جوان ۲۰۱۵ ء میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے کار گزار جنرل سکریٹری بتائے گئے

 اپریل ۲۰۱۶ ٫ء میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری بنائے گئے


اپریل ۲۰۰۵ ء سے امارت شرعیہ کے نائب امیر شریت ۔

 امیر شریعت :

 ۲۹ نومبر ۲۰۱۵ کو دارالعلوم رحمانی ، زیرو مائل ، ارریہ میں مجلس ارباب حل و عقد نے آپ کو مستقل طور پر امیر شریت سابع بہار اڑیسہ و جھارکھنڈ منتخب کیا ۔


 ۱۹۷۴ ء سے ۱۹۹۲ ء تک بہار قانون ساز کونسل کے رکن رہے ، اس درمیان دوبار ۱۹۸۴ ء میں ۱۹۹۰ ء میں ڈپٹی چیرمین منتخب ہوئے مسلمانوں کے حقوق کی لڑائی لڑتے رہے ۔ اور تعمیراتی اور ترقیاتی کاموں میں حصہ لیتے رہے ۔


 اداروں کا قیام : 

۱۹۹٦ ء میں سماجی فلاح و بہبود کے لیے رحمانی فاونڈیشن قائم کیا ، جس کی تعلیم اور تربیت کی سمت میں شاندار خدمات ہیں ۔


 ۲۰۰۸ ء میں مسلمانوں کی معیاری تعلیمی ترقی کے لیے پٹنہ میں رحمانی ۳۰ قائم کیا ، جس نے آئی آئی ٹی اور دیگر مشکل مقابلوں میں مسلم بچوں اور بچیوں کو کامیابی کی راہ دکھائی ۔ اور شاندار ریکارڈ قائم کیا ۔


 رحمانی ۳۰ کے دائرے کو وسیع کیا اور آئی آئی ٹی ٹیسٹ کی تیاری کے علاو چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی تیاری کے ساتھ ۲۰۱۴ ء میں مسلم طلبہ کو وکیل اور جج بنانے اور ۲۰۱۳ ء میں میڈیکل کی تیاری کرانے کی شروعات کی ۔


 تحریکات :

۲۰۰٣ ء میں مدارس کی حفاظت کی تحریک چلائی اور مونگیر میں تاریخ ساز ناموس مدارس اسلامی کنونشن منعقد کیا جس کے اثرات پورے ملک پر ہوئے ۔


 مسلم پرسنل لا بورڈ کے پروگرام کے مطابق اصلاح معاشرہ اور مینی حقوق بچاؤ تحریک کل ہند پر چلائی ، جس میں خاطر خواہ کامیابی ملی ، اور آخری ایام میں دین دستور بچاؤ تحریک کی قیادت فرما رہے  تھے. 


ایوارڈس اعزاز : 

بھارت جیوتی ایوارڈ, راجیوگاندھی ایکسلنس ایوارڈ, شکچھارتن ایوارڈ, سرسید ایوارڈ اور امام رازی ایوارڈ ، کولمبیا یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری - 


ماہر معلیم کی حثیت سے آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم پر اظہارخیال کے لیے عالمی میٹنگ میں شرکت کی دعوت ۔ 

اہم تصانیف : 

تصوف اور حضرت شاہ ولی الله- بیت عہد نبوی میں آپ کی منزل یہ ہے ۔ دینی مدارس میں مفت تعلیم کا مسئلہ ۔ سماجی انصاف عدلیہ اور عوام ۔ مرکزی مدرسہ بورڈ اور اقلیتوں کی تعلیم لڑکیوں کا قتل عام, شہنشاہ کونین کے دربار میں ۔ حضرت سجاد مفکر اسلام ۔ کیا ۔۱۸۵۷ ۔ پہلی جنگ آزادی ہے ؟ - مجموعہ رسائل رحمانی ۔ 


بیت و ارشاد :

 اب تک ساڑھے آٹھ لاکھ سے زیادہ افراد آپ کے ہاتھ پر توبه وبیت کر چکے ہیں ۔ اور پورے ملک میں آپ کے مرید ین پھیلے ہوئے ہیں ۔ آپکے خلفاء کی تعداد 9 ہے جو ملک کے مختلف حصوں میں اصلاحی خدمت انجام دے رہے ہیں ۔ 


آ پکے جانشیں :

 ١۵ نومبر ۲۰۱۵ کو آپ نے اپنی بڑھتی ہوئی مشغلیتوں کے پیش نظر اپنے بڑے صاحب زادے حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب کو اپنا جانشیں منتخب فرمایا کہ ابھی وہ ہمارے کاموں میں معاونت کرینگے اور ہمارے بعد خانقاہ رحمانی کے سجاد نشیں ہونگے ، اور ہمارے چھوٹے لڑکے حامد ولی فہد رحمانی ان کی معاونت کرینگے ۔

وفات :

3 اپریل 2021 بروز ہفتہ دوپہر 


تجہیز و تکفین : 4 اپریل 2021 بروز اتوار 11 دن بمقام خانقاہ رحمانی 

یقینا ان کی وفات پوری ملت اسلامیہ کے لیے نہایت غم انگیز واقعہ ہے، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا کی مغفرت فرمائے ،ان کے درجات بلند فرمائے او ران کو اعلیٰ علیین میں جگہ دے۔

مزید پڑھیے 

فیشن پرستی اور اس کی نحوست -اہم انکشافات


استشراق کیا ہے ؟ مستشرق کسے کہتے ہیں ؟ تعریف،آغاز اور جد و جہد

تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی