مولانا محمد ولی رحمانی ایک مرد قلندر اور صدق وصفا کے پیکر انسان تھے


عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے  

 امیر شریعت مولانا محمد ولی رحمانی سپرد خاک ہو گئے،ان کے جنازہ میں انسانوں کا ہجوم امڈ پڑا،تاحدنگاہ لوگ اپنے امیر کو آخری کاندھا دینے کیلئے بیتاب تھے،شدت غم سے لوگ نڈھال تھے،ان پرگریہ طاری تھا، ان کی ہچکیاں بندھی ہوئی تھیں ،پروانوں کا ہجوم تھا،جو ایک دوسرے پر ٹوٹ رہا تھا،عقیدت مندوں کی آنکھوں میں اشکوں کا سیلاب تھا،تاہم وہ صبر ورضا کی تصویر بنے ہوئے تھے،قضا وقدر کے فیصلہ پر مطمئن تھے،ادب کے ساتھ وہ جنازہ میں چل رہے تھے،اپنے جذبات کو سینوں میں دبائے ہوئے تھے،ان کی زبان پر بس یہ دعا تھی کہ رب کریم اپنے بندہ پر خاص فضل فرما،اس یر رحمت کی بارش فرما،اس کی قبر کو جنت کا ایک باغ بنا،بڑی مزاحمت کے بعد جنازہ آخری آرام گاہ تک پہونچا،اور مولانا منت الله  رحمانی کے پہلو میں تدفین ہوئی،جو اپنے والد ماجد مولانا مونگیری کے بغل میں  آسودہ خواب ہیں،خاندان رحمانی کے مایہ ناز سپوت کی آخری منزل بھی وہیں ٹھہری،ان کے فرزندوں نے عقیدت کے ساتھ قبر میں اتارا اور لوگوں نے منھا خلقناکم۔۔۔ کے ابدی نعرہ کے ساتھ سپرد خاک کردیا۔۔۔نمازجنازہ مولانا محمد  عمرین محفوظ  نے پڑھائی۔۔  ان للہ  ما اعطی ولہ ما اخذ لکل شیئ عندہ اجل مسمی۔۔

  مولانا ولی رحمانی  کے انتقال سے وہ آواز بھی دفن ہو گئی،جس سے باطل کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہوجاتا تھا،جس کے جلال سے ایوان سیاست میں سناٹا چھا جا تا تھا،جو شیر کی طرح وقت کے حاکم کے سامنے گرجتا تھا،جو سیاسی لیڈران کو جوتے کی نوک پر رکھتا تھا،جس کی فراست سے بڑے بڑے شاطر دماغ تھرا تے تھے،جس کے رعب سے مجلس پر سناٹا طاری ہوجاتا تھا،جس کی فراست سے سیاست کے ماہر کھلاڑی بھی گھبراتے تھے،جو حق کی آواز بن کر باطل کے ایوانوں میں گرجتا تھا،جو ملت کیلئے ڈھال تھا،جب بھی ملت پر برا وقت آیا،ولی رحمانی اس کے سامنے سینہ سپر ہوجاتا تھا،مسلمانوں کے متفقہ پلیٹ فارم آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کا وہ دماغ تھا،اس کے اندر تدبر اور دور اندیشی تھی،اس کی انگلیاں زمانہ کی نبض پر ہوتی تھیں،ملت کے خلاف اٹھنے والے طوفان کو وہ پہلے سے بھانپ لیتا تھا،باطل کی ہر سازش کو اپنی ذہانت سے بے نقاب کر دیتا تھا،اس کے اندر ایک قائد کی تمام خوبیاں موجود تھیں،جراءت وبیباکی اس کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی،وقت کے حاکموں سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا ہنر اسے بخوبی آتا تھا،ایک طرف وہ شریعت کا ماہر تھا،تو دوسری طرف سیاست کا مفکر،وہ امیر شریعت ہی نہیں،شیخ طریقت بھی تھا،وہ ایک صاحب اسلوب قلم کار اور مصنف تھا،اس کی تحریر میں میں بڑی سلاست اور روانی تھی،وہ ایک ولولہ انگیز خطیب تھا،اس کی آواز میں جلال تھا،اس کی شخصیت میں جمال تھا،اس کی چال ڈھال میں وقار تھا،اس کے اندر متانت اور سنجیدگی تھی،وہ اصول کا پابند تھا،اس کے اندر قوت ارادی تھی،اس کے فیصلے بے لاگ ہوتے تھے،اخلاص وللہیت کی دولت سے متصف تھا،صدق وصفا کا پیکر تھا،اس نے دنیا کو کبھی نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھا،وہ دن کا شہسوار اور شب کا تہجد گزار تھا،اس کی راتیں خوف خدا میں بسر ہوتی تھیں،وہ ایک عظیم مصلح اور مربی تھا،اس کے دست حق پرست پر بےشمار لوگوں نے توبہ کی اور راہ ہدایت پر گامزن ہوئے،وہ ملت کا ایک بے باک سپاہی اور مجاہد تھا،جس کی پوری زندگی ملت کی اٹھان اور ترقی کیلئے وقف تھی،وہ دین کا داعی اور علمبردار تھا،وہ اسلام کیلئے جیتا اور مرتا تھا،وہ دین ودنیا کا جامع تھا،رحمانی تھرٹی کے ذریعہ اس نے ملت کی نئی نسل کو ماڈرن ایجوکیشن سے آراستہ کیا اور نئی منزلوں سے آشنا کیا،وہ مدارس اسلامیہ کیلئے رول ماڈل تھا،علماء دین کی آن بان اور شان تھا،اس کے کردار میں بلندی تھی،اس کے اخلاق میں نرمی تھی،اس کے گفتار میں صداقت تھی ،اس کی فطرت میں حق گوئی تھی،وہ کبھی بھی،عہدہ،منصب اور دولت وشہرت سے مرعوب نہیں ہوا،وہ ایک مرد قلندر تھا،جو دنیا کی چمک دمک سے بے نیاز تھا،متاع دنیا کو وہ حقارت کی نگاہ سے دیکھتا تھا،حق مغفرت کرے،بڑی خوبیاں تھیں مرنے والے میں۔۔فقط۔۔

مولانا مفتی محمد نصر الله  ندوی۔۔۔۔۔

استاد دارالعوام ندوۃ العلماء لکھنؤ 

مزید پڑھیے 

مولانا ولی رحمانی:ایک بے باک مرد آہن اور ملت کے بے لوث قائد-حیات و خدمات اہم تجزیہ


تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی