سیرت حضرت امام حسین اور واقعہ کربلا - ایک تحقیقی مطالعہ

بالآخر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ۱۰ محرم الحرام بروز جمعہ بعد زوال سن 61 هجری میں ۵۸ برس کی عمر میں مقام کربلا میں اپنے بہت سے ساتھیوں کے ساتھ حالت نماز میں شہید کیے گئے ۔ 

 مختصر سیرت حضرت سیدنا امام حسین رضی الله عنہ

 نام و نسب : حسین رضی اللہ عنہ بن علی المرتضی رضی الله عنہ کنیت ابوعبدالله ، لقب سید شہاب اہل الجنۃ اور ریحانۃ النبی ، والده سیدہ فاطمہ خاتون جنت رضی اللہ عنہا ۔ 


ولادت باسعادت کی خبر سن کر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمانے لگے بچے کو دکھاؤ ، اور نومولود بچے کو جگا کر اس کے کانوں میں اذان دی ، اس طرح گویا پہلی مرتبہ لسان وحی نے اس بچے کے کانوں میں توحید الہی کا پیغام پہنچایا پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو عقیقہ کرنے اور بچے کے بالوں کے ہموزن چاندی خیرات کرنے کا حکم دیا ۔ حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ نے آپ کا نام حرب رکھا تھا لیکن آپ صلی الله علیہ سلم نے یہ نام بدل کر حسین رضی الله عنہ رکھا ۔ 


عہد نبوی : حضرت امام حسین رضی الله عنہ کے بچپن میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے ان کے ساتھ پیار محبت کے بیشمار واقعات ملتے ہیں آپ صلی الله علیہ وسلم تقریباً روزانہ دونوں بھائیوں کو دیکھنے کے لیے حضرت فاطمہ رضی الله عنہا کے گھر تشریف لے جاتے اور دونوں کو بلا کر پیار کرتے اور کھلاتے ۔ یہ دونوں آپ صلی الله علیہ وسلم سے بے حد مانوس اور شوخ تھے آپ ان کی شوخیاں دیکھ کر خوش ہوتے تھے ، آپ صلی الله علیه وسلم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے دوش مبارک پر سوار کرکے برآمد ہوتے تھے حسنین کریمین کبھی نماز کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک پر چڑھ کر بیٹھ جاتے غرض کہ طرح طرح کی شوخیاں کرتے ، آپ صلی الله علیه وسلم نہایت پیار اور محبت سے ان کے ساتھ پیش آیا کرتے تھے ۔ 


ابھی حضرت حسین رضی اللہ عنہ صرف سات سال کے تھے کہ ہادی دو جہاں صلی الله علیہ وسلم کا سایہ شفقت سر سے اٹھ گیا ، اس لیے انہیں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی محبت سے اتنا فیض حاصل کرنے کا موقع نہ ملا جتنا ان کے والد حضرت علی رضی الله عنہ کو ملا تھا ، حضرت حسین رضی الله عنہ کو صغر سنی کے باعث احادیث حفظ کرنے کے مواقع کم ملے اس لیے براہ راست آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے سنی ہوئی مرویات کی تعداد آٹھ ہے ، جو آپ کی کمسنی کو دیکھتے ہوئے کم نہیں کہی جاسکتیں ، البتہ بالواسطہ روایات کی تعداد کافی ہے ۔ 


حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان :


 آپ صلی الله علیہ وسلم حضرت حسین رضی الله عنہ سے بہت محبت کرتے تھے ، ایک مرتبہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الحسن والحسين سيدا شباب اهل الجنة یعنی حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما تمام جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں ، ایک مرتبه آقاصلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ " ان الحسن والحسين هماريحاني من الدنيا یعنی بے شک حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما دونوں میرے دنیا میں پھول ہیں ۔ مذکورہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ والہ وسلم کس طرح حضرت حسین رضی الله عنہ سے محبت کا اظہار فرماتے تھے ۔


 عہد صدیقی : حضرت حسین رضی الله عنہ کی ذات سے صحابہ کرام بھی بہت زیادہ محبت کرتے تھے حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کی خلافت کے دور میں آپ تقریبا ۸ ، ۹ برس کے تھے آپ سے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بہت زیادہ ادب و محبت سے پیش آتے تھے اور آپ کو اپنے کندھوں پر بٹھاتے تھے ۔ 

مزید جانیں

تعزیہ داری کی مختصر تاریخ اور اس کا موجد کون ؟

ہندوستان میں تعزیہ کی ابتداء کب اور کیسے ؟ 

عہد فاروقی : حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے دور میں حضرت حسین رضی الله عنہ کے لیے ۵۰۰۰ پانچ ہزار ماہانہ وظیفہ مقرر کیا تھا اور جو جنگ بدر میں شامل صحابہ کے فرزند تھے ان کے لیے دو ہزار مقرر کیے تھے ، اس سے حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کی محبت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ 


عہد عثمانی : حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ کے خلافت کے دور میں آپ پورے جوان ہو چکے تھے ، چنانچہ سب سے اول اسی عہد میں میدان جہاد میں قدم رکھا اور سن ۳۰ ہجری میں طبرستان کی فوج کشی میں مجاہدانہ طور پر شریک ہوئے ، پھر جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت برپا ہوئی اور باغیوں نے قصر خلافت کا محاصرہ کرلیا تو حضرت علی رضی الله عنہ نے دونوں بھائیوں کو حضرت عثمان رضی الله عنہ کی حفاظت پر مامور کیا کہ باغی اندر گھسنے نہ پائیں ، چنانچہ حفاظت کرنے والوں کے ساتھ ان دونوں نے بھی نہایت بہادری کے ساتھ باغیوں کو اندر گھسنے سے روکے رکھا ، جب باغی گھر پر چڑھ کر اندر اتر گئے اور حضرت عثمان رضی الله عنہ کو شہید کر ڈالا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہادت کی خبر ہوئی تو انہوں نے دونوں بھائیوں سے سخت باز پرس کی ۔


 حضرت علی کی شہادت : اس کے بعد سنہ 40 هجری میں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا ، زخم بہت بھاری تھا ، تو اس وقت حضرت حسن و حسین رضی الله عنہما کو بلا کر نصیحت کی ، حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے علم میں کمال حاصل کیا تھا اور تفسیر و حدیث کا علم حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے حاصل کیا تھا ۔ حضرت علی رضی الله عنہ کا قضا و افتاء میں بڑا مقام تھا ۔ 

فضائل 

ارباب سیر لکھتے ہیں کہ : " كان الحسين رضي الله عنه كثير الصلوة والصوم والحج و الصدقة افعال الخير جمیعا یعنی حضرت حسین رضی اللہ عنہ بڑے نمازی ، روزہ دار ، بہت حج کرنے والے بڑے صدقہ دینے والے اور تمام اعمال حسن کو کثرت سے کرنے والے تھے ۔ 


شهادت حضرت حسین رضی الله عنہ 

حضرت معاویہ رضی الله عنہ کی وفات ہوئی یزید نے مدینہ کے گورنر کو خط لکھا اس میں حضرت معاویہ رضی الله عنہ کی وفات اور حضرت حسین ، ابن عمر ، ابن عباس ، ابن زبیر رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بیعت کی تجدید کے لئے لکھا ابن عمر اور ابن عباس رضوان اللہ علم نے تو تجدید بیت کر دی البتہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں چھپ کر بیت نہیں کروں گا مجھے وقت دیا جائے تو گورنر نے تین دن کا وقت دے دیا اور ابن زبیر رضی اللہ عنہ سوچنے کا وقت لے کر مکہ چلے گئے ، اس کے بعد حضرت حسین بھی مکہ تشریف لے گئے ۔ 


کوفیوں کے خطوط 

حضرت حسین رضی الله عنہ مکہ ہی میں تھے کہ آپ کو کوفیوں کے خطوط ملنا شروع ہوئے یہاں تک کہ تاریخ میں آتا ہے کہ ۱۲۰۰ کے قریب خطوط آپ کو لکھے گئے تھے اور کوفہ کے سرکردہ سرداروں نے آپ کو خطوط لکھے تھے ۔ پھر آپ نے کوفہ کے لوگوں کو جواب دینے کا فیصلہ کیا حضرت مسلم بن عقیل کو بھیجا وہ کوفہ پہنچے اور ان لوگوں سے ملے لوگوں نے مسجد میں آ کر امام حسین رضی الله عنہ کی بیعت کا وعدہ کیا اور حضرت مسلم بن عقیل نے آپ کو لکھا کہ جلدی آجاؤ پورا کوفہ آپ کے لیے تیار ہے ۔


 آپ کی کوفہ روانگی

 حضرت مسلم بن عقیل کا خط ملتے ہی آپ کوفہ روانہ ہونے کے لیے تیار ہوئے اور اپنا خاندان ساتھ لیا ، ابن عباس ، ابن عمر ، ابن عمرو بن العاص ، ابن علی الحنفیہ ابن جعفر رضوان اللہ علیہم اجمعین اور دوسرے لوگوں نے آپ کومنع کیا کہ کوفه نا جائیں لیکن آپ نے سب کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں جانے کا عزم کر چکا ہوں ۔


 کوفہ کے حالات میں تبدیلی

 یزید سے کہا گیا کہ ابن زیاد کو وہاں گورنر بنایا جائے ، وہ حالات ٹھیک کر دے گا ، ابن زیاد کے آتے ہی کوفہ میں سختی کرنا شروع کر دی اور فوج کو متحرک کر دیا کوفیوں نے یزید کی بیعت کر لی اور حضرت مسلم بن عقیل کا ساتھ چھوڑ دیا ان کے ساتھ چند ساتھی رہ گئے اور انہیں ان ساتھیوں سمیت ابن زیاد نے بربریت سے شہید کروا دیا حالات کی اس تبدیلی کا حضرت حسین رضی الله عنہ کو علم نہیں تھا آپ مسلم بن عقیل کے خط ملنے کے بعد ہی نکلے تھے جس میں انھوں نے آپ کی بیعت کے بارے میں لکھا تھا ۔ 


حضرت حسین کو حالات کا معلوم ہونا 

حضرت حسین رضی اللہ عنہ جب عراق کی سرحد پر پہنچےتو آپ کو معلوم ہوا کہ مسلم بن عقیل شہید ہو چکے ہیں آپ نے ان کے لیے دعا کی اور اپنے ساتھیوں کو واپس جانے کو کہا روایات میں آتا ہے کہ آپ نے یہاں رک کر واپسی کا ارادہ کیا تھا لیکن پھر کوفہ کی جانب روانہ ہوئے,


حر بن یزید کی آمد

 حر بن یزید ایک لشکر لے کر آپ کو آملا اس نے آپ کو کہا کہ آپ کوفہ نہیں جا سکتے, مجھے آپ کو روکنے کا حکم ہے باقی آپ جہاں چاہیں چلے جائیں حر نے کہا : کوئی ایسی بات کریں کہ نہ آپ کے لیے نقصان کار ہو نہ ہمارے لیے ، پھر آپ نے کربلا جانے کا ارادہ کیا حر بھی آپ کے ساتھ چلتا رہا ۔ 


کوفی لشکر اور آپ کا ان سے مکالمہ 

کربلا میں ہی کوفیوں کا لشکر آ پہنچا انھوں نے آپ سے کہا یاتو بیعت کر لیں یا جنگ, آپ نے کہا بیعت نہیں کروں گا ، پھر آپ نے ان کے سامنے تین باتیں پیش کیں : 1-  مجھے مکہ جانے دیا جائے ۔ 2- یا پھر مجھے چھوڑ دو میں جا کر جہاد کروں مسلمانوں کے ساتھ ۔ 3 یا پھر چھوڑ دو کہ میں خود یزید کے پاس جا کر اپنے معاملے میں بات کروں گا ۔ آپ کی اس بات کو قبول نہ کیا گیا ۔


 حضرت حسین کو امان نہ ملنا 

یہ امت مسلمہ کی بد قسمتی ہے کہ نا اہل لوگوں کی وجہ سے حضرت حسین رضی الله عنہ کی بہترین شرائط ماننے سے انکار کیا گیا اور یہ بھی بدقسمتی ہے کہ نا اہلوں کی وجہ سے سیدہ فاطمہ رضی الله عنہا کے جگر گوشہ کو امان نہیں ملی اور یہ شہادت کا عظیم واقعہ پیش آ گیا ۔ 

بالآخر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ۱۰ محرم الحرام بروز جمعہ بعد زوال سن 61 هجری میں ۵۸ برس کی عمر میں مقام کربلا میں اپنے بہت سے ساتھیوں کے ساتھ حالت نماز میں شہید کیے گئے ۔ الله تعالی آپ کی مرقد مبارک پر ہزارہا رحمتیں نازل فرمائے ۔ بلاشبہ حضرت امام حسین رضی الله عنہ جنت کے سردار ہیں آپ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے نواسے خاتون جنت رضی الله عنها اور شیر خدا علی المرتضی کے فرزند ہیں آپ کے مناقب بہت ہیں ، آپ دلیر تھے شجاع تھے حق گو تھے اور نہ جھکنے والے تھے آپ کو مظلوم شہید کر دیا گیا ، خلیفہ دوم حضرت عمر اور مظلوم مدینہ حضرت عثمان اور حضرت علی رضی الله عنہ کے بعد آپ کی شہادت ، امت مسلمہ پر یہ حادثے بہت ہی گراں تھے ۔۔

مزید پڑھیے

حلال و حرام کی تعریف اور اسلام میں حلال و حرام کے اصول و ضوابط 

حرام چیزیں باعث مضرت ہیں اور حلال چیزیں باعث راحت - دلچسپ اسلامی حقائق   

1 تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی