شہادت امام حسین کے غور طلب و سبق آموز پہلو- سلیس انداز میں

شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ پر اس فراوانی سے آنسو بہائے گئے ہیں کہ دجلہ اور فرات کی روانیاں تھم گئی ہیں. ماتم اور گریہ کی ہر ہر صورت کو اس طرح آزمایا گیا ہے کہ اب اس میں کوئی جدّت نہیں رہی  ہر لکھنے والے قلم اور بولنے والی زبان نے اس پر اس طرح حاشیہ آرائی و فسانہ طرازی فرمائی ہے کہ حقیقت و افسانہ کے درمیان خطِ امتیاز کھینچنا مشکل ہو گیا ہے. لہذا ہم اس سانحہ پر ایک قطرہ آنسو کا بہائے بغیر اور اس کی فسانہ طرازیوں پر سرِمُو اضافہ کیے بغیر ایک حقیقت نگر اور عبرت پزیر انسان کی حیثیت سے اس واقعہ کے ان پہلوؤں سے متعلق غور کرنا چاہتے ہیں جو عام نظروں سے اوجھل ہیں. اور مسلمانوں کو دعوت دینا چاہتے ہیں کہ وہ بھی ان پہلوؤں پر سوچیں.

ہمیں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی جلالتِ قدر کا پورا پورا احساس ہے. ہم ان کی مظلومیت کے معترف ہیں اور ان کی شہادت کے قائل. 

سردست ہم تاریخ کی مختلف فیہ کڑیوں کو چھیڑنا نہیں چاہتے. ہم اس پر نہیں بحث کرنا چاہتے کہ یہ جنگ کفر و اسلام کی جنگ تھی یا دو مسلمانوں کی جنگ. جن کو حالات کی اضطراری چال نے لڑنے پر مجبور کر دیا؟

ہم اس سوال کو بھی درمیان میں نہیں لانا چاہتے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے اسلامی حکومت سے متعلق کوئی مخصوص نظریہ اور تصور تھا یا نہیں؟ جو امام حسین رضی اللہ عنہ کو معلوم نہیں تھا، یا جسے حِبر اُمّت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نہیں جانتے تھے (جنہوں نے حضرت امام کو کوفہ کی طرف روانہ ہونے سے روکا) اور جو اس وقت کے دوسرے صحابہ اور جلیل القدر تابعین کی چشمِ بصیرت سے مخفی تھا. 

ہم اس تلخ پہلو سے بھی تعرض (چھیڑ چھاڑ)نہیں کرنا چاہتے کہ شہادت حسین کے بعد اس جنگ کو باقی امت نے جاری کیوں نہ رکھا؟

 ہم اس ساری داستان کو صرف اس نقطہ پر مرکوز رکھنا چاہتے ہیں

کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت سے اسلامی ذہن و فکر نے جو نتائج اخذ کیے وہ بلاشبہ اتنے عمدہ، اتنے صحت مند اور روشن ہیں کہ ان کی وجہ سے اسلامی سیاست کی بنیادیں نکھر گئیں. یعنی اس شہادت سے پہلی دفعہ امت میں اس احساس نے کروٹ لی کہ ٰ،،تنظیمی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ، اربابِ حکومت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ متقی و پاکباز ہوں. ان کا دینی پایہ اور دینی بصیرت بلند ہو، کیونکہ وہ حاکم ہی نہیں ہیں، بلکہ ایک دین کے مبلّغ بھی ہیں، چند بنیادی اور اصولی قدروں کے داعی بھی ہیں. اس سے پہلے بھی یہ احساس موجود تھا لیکن اتنا اُجلا اور واضح نہیں تھا. تاریخ کا یہ تجزیہ اگر صحیح ہے اور یقیناً صحیح ہے تو پھر بحث کے وہ پہلو سامنے آئیں گے جن کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے؟

،، کہ کیا یہ تقوی و صلاح اور فسق و فجور کے درمیان آخری جنگ تھی؟ 

کیا اس کے بعد کبھی فاسق و فاجر حکومتیں برسرِاقتدار نہیں آئیں گی؟ 

اگر عقیدہ یہ ہے کہ ہر دور میں تاریخ حکومت و اقتدار کی مسندوں پر نا اہلوں اور فاسقوں کو بٹھا سکتی ہے تو پھر یہ سوال دل میں چٹکی 

لے گا کہ ایسے حالات میں امت کا فرض کیا ہے؟ 

کیا حسین کی سنت کا احیاء؟

 یا صرف سینہ کوبی و ماتم گساری؟......

 اس پر سنجیدگی سے غور فرمائیے...... کہ آپ کا یہ حزن و ملال، یہ اندوہ اور غم، یہ نالہ و شیون، یہ رونا اور آہ و بکا کی محفلیں بپا کرنا، آخر کیوں؟ کس لیے؟ کوئی اصول آپ کے سامنے ہے؟ 

آپ اس تضاد کی کیا توجیہہ کرتے ہیں 

کہ آپ فی الوقت ایسے دور میں رہ رہے ہیں جو حسین رضی اللہ عنہ کی بصیرت چاہتا ہے، حسین رضی اللہ عنہ کا ایثار چاہتا ہے اور کھل کر کہیے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی جاں بازی چاہتا ہے. 

آپ کے گردو پیش برائیاں ہیں، نئے نئے فتنے ہیں، تقوی و اصلاح کے معیاروں کو چھلنی کیا جا رہا ہے. اسلامی قدروں کو روندا اور پائمال کیا جا رہا ہے. ایسے ایسے نظریات کی اشاعت ہو رہی ہے جس سے اسلامی تصور حیات بالکل پامال ہو جاتا ہے مزید برآں اقتدار و اختیار کی باگ ایسے ہاتھوں میں ہے جو یقیناً حسین رضی اللہ عنہ کے ہاتھ نہیں..... مگر اس کے باوجود آپ ہیں کہ مطمئن ہیں. آپ کے دل میں دین کے لیے کوئی خلش نہیں. آپ اس ( غیر شرعی ) ماحول سے قطعاً شاکی نہیں، بلکہ اس دور کے فتنوں کے ساتھ سازگاری اور تعاون برابر جاری ہے. 

آپ ہی بتائیے.... ایک طرف امام حسین رضی اللہ عنہ کی یاد، دوسری طرف یزیدی روح سے تعاون. اسے آپ کیا کہیں گے...؟ اور اگر قیامت کے روز امام شہید رضی اللہ عنہ نے اپنے عقیدت مندوں کو گریبان سے پکڑ کر اس دو عملی پر پوچھ لیا کہ اس مذاق کے کیا معنی تھے..... تو جواب کیا ہوگا؟ 

اسلامی تاریخ میں شہادت حسین رضی اللہ عنہ ایسا سانحہ نہیں کہ ہم جب سنیں، رونا اور بسورنا شروع کر دیں بلکہ یہاں تو ہر قدم اور ہر موڑ پر قربانی اور ایثار کے ایسے ایسے واقعات ہیں کہ پڑھنے اور سننے والوں سے آہ و بکا اور نالہ و شیون کا خراج وصول کر کے رہیں. ہماری تاریخ اس معاملہ میں اتنی سرخرو ہے کہ ایثار و قربانی کی کوئی دوسری تاریخ اس کی ہمسری کا دعوی نہیں کر سکتی.......... اور یہ اس لیے نہیں کہ ہمارے یہاں جو اختلاف پیدا ہوئے وہ اس درجہ ہولناک تھے، کہ سوا جنگ و جدل کے ان کو ٹالنے کی کوئی اور تدبیر ہی نہیں تھی. بلکہ اس لیے کہ اسلام ایک اصولی دعوت ہے ایک پیغام ہے اور زندگی اور اس کے تمام ظہورات کا ایک جامع لائحہ عمل ہے. اس کا تعلق شخصیتوں سے اتنا زیادہ نہیں جس قدر سیرت سے ہے. اس لیے جب کبھی اس کی تعبیر و ترجمانی میں اختلاف پیدا ہوا، بڑی سے بڑی شخصیت کو نظر انداز کر دیا گیا.

ہم اس نکتہ چینی کی مزید وضاحت کرنا چاہتے ہیں، آئیے! ہم اس پر سوچیں کہ گو شہادت حسین رضی اللہ عنہ عبرو بصائر کا مرقع( البم) ہے. گو اس سے اسلامی تصور حکومت کی بڑی حد تک وضاحت ہوتی ہے اور حضرت امام کی زندگی کا وہ پہلو سامنے آتا ہے جس سے استبداد و جبر کے ایوان ہل جاتے ہیں...... مگر بہر آئینہ یہ اسوہ حسین رضی اللہ عنہ کی ایک جھلک ہے. پورے اسوہ کی تابانیاں نہیں. 


دیکھنے کی شئے یہ ہے کہ جب انہوں نے جام شہادت نوش فرمایا ہے اس وقت عمر پچاس برس سے متجاوز ہوچکی تھی. سوال یہ ہے کہ اس پچاس برس کی زندگی میں اطاعتِ دین کے کیا کیا نمونے ہیں؟ جن کو اپنا کر ہم اللہ کی خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں. 

غور اس پر کرنا ہے کہ ان کے عہدِ طفلی کی معصومیتیں ہمیں کیا سکھاتی ہیں؟ 

شباب کی سرمستیوں میں انہوں نے موجودہ پود (نسل)کے لئے کیا ذوق و عمل کا نمونہ چھوڑا؟ اور پھر جب جوانی کا جوش تھا، اور سنجیدگی و وقار نے زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لی، تو اپنے فکرو عمل اور مواعظ و تذکیر سے خلق اللہ کو کیا کیا فوائد پہنچائے؟ گھرمیں  ان کی زندگی کیسی تھی؟ بچوں سے معاملہ کی نوعیت کیا تھی؟ تعلیم و تربیت میں انہوں نے کن کن اصولوں کو سامنے رکھا؟ اور لوگوں کو ان کی روحانیت اور شخصیت سے کیا حاصل ہوا؟....... 

یہ سب سوال ہیں جو قدرتی طور پر اس دل میں پیدا ہوتے ہیں، جو ہر سال حضرت امام رضی اللہ عنہ کا نام سنتا ہے. اور ان سے متعلق مظاہروں کو دیکھتا ہے... لیکن یہ کس درجہ محرومی و تہی دستی ہے کہ خود ان کی شہادت کو اپنا ذریعہ معاش قرار دینے والے ذاکرین بھی ان نکات پر توجہ نہیں فرماتے اور جب ایک طالبِ حق ان سوالوں کے جواب کے لیے لٹریچر کے دروازوں کو کھٹ کھٹاتا ہے تو آنسوؤں، آہوں اور رونے دھونے کی چیخ و پکار کے سوا اور کوئی چیز اسے نہیں ملتی. 


حالانکہ کہ حقیقی اور سچی محبت انہیں تنقیحات کے تسلی بخش جواب پر مبنی ہے. آخر کب تک روتے اور رلاتے رہیں گے؟ ایک وقت آئے گا جب پڑھے لکھے عوام آپ سے مطالبہ کریں گے کہ جناب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی زندگی کا پورا چوکھٹا پیش کیجیے. ان کی قوت عمل انہیں مجبور کرے گی کہ حضرت امام رضی اللہ عنہ کا پورا اسوہ ان کے سامنے رکھا جائے....... 

اس ضمن میں اس حقیقت کو نہ بھولنا چاہیے کے پورے بارہ مہینے ہوتے ہیں جن میں محرم ایک مہینہ ہے. گیارہ مہینے کا دوسرا پروگرام اور مصروفیات چاہتا ہے یعنی شہادت حسین رضی اللہ عنہ حضرت امام رضی اللہ عنہ کی کتاب زندگی کی آخری سطر ہے. اس سے پہلے کے ابواب (chapter)و فصول کی تفصیلات(details) مطلوب(required) ہیں. عوام کی اصلاح طلب طبیعتیں رہنمائی و استفادہ کے لیے یہ معلوم کرنا چاہتی ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسہ نے پاکیزگی و عمل کے کن کن نقشوں کو چھوڑا؟ صرف رونے اور بسورنے سے عمل کے تقاضے پورے نہیں ہونے کے.....! 

ہر سال امام کے نام پر نوحہ کرنے والوں سے پوچھنا ہے کہ حضرت امام کبھی ہنسے بھی ہوں گے، فرحت و طرب کی ساعتیں بھی ان کی زندگی میں آئی ہوں گی، ایسے واقعات سے بھی انہیں دوچار ہونا پڑا ہوگا جن سے ان کی روح کو بالیدگی  و مسرت حاصل ہوئی ہوگی... یہ تو بتائیے کہ وہ واقعات کون کون سے ہیں، کیوں کہ زندگی صرف رونا ہی نہیں ہنسنا بھی ہے، بسورنا اور غم گین ہونا ہی نہیں انبساط و اہتزاز سے لہرانا بھی ہے۔۔۔...

  محمد حنیف ندوی

تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی