ماہ محرم الحرام میں سوگ کرنے کا حکم

 ایک چیز جس کا رواج عام طور پر بہت زیادہ ہو چکا ہے کہ محرم غم کا مہینہ ہے ، اس مہینے میں خوشی نہیں منانی چاہیے ، کیوں ؟ اس لیے کہ اس مہینے میں نواسہ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے خاندان کے چھوٹوں اور بڑوں کو ظالمانہ طور پر نہایت بیدردی سے شہید کردیا گیا ، ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کے لیے منانا ، سوگ کرنا اور ہرخوشی والے کام سے گریز کرنا ضروری ہے ، سوچنا تو یہ ہے کہ ہم کو اس بارے میں شریعت کی طرف سے کیا راہنمائی ملتی ہے ؟ 


اس بارے میں سب سے پہلے علامہ ابن کثیر رحمہ الله کا ایک قول ملاحظہ کرتے ہیں :

 ہر مسلمان کے لیے مناسب یہ ہے کہ اس کو حضرت حسین رضی الله عنہ کی شہادت کا واقعہ غمگین کر دے ؛ اس لیے کہ وہ مسلمانوں کے سردار اور اہل علم صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے تھے ، آپ جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سب سے افضل لخت جگر کے بیٹے یعنی آپ صلی الله عليه وسلم کے نواسے تھے ۔ آپ عبادت کرنے والے ، بڑے بہادر اور بہت زیادہ سخی تھے لیکن آپ کی شہادت پر جس انداز سے رنج وغم کا اظہار کیا جاتا ہے ، وہ کسی صورت میں مناسب نہیں ہے ، آپ کے والد حضرت علی کرم اللہ وجہ ) آپ سے زیادہ افضل تھے ، ان کو رمضان میں جب کہ وہ اپنے گھر سے نماز فجر کے لیے تشریف لے جارہے تھے شہید کردیا گیا ۔ ان کی شہادت کے دن کو اس طرح ماتم نہیں کیا جاتا جس طرح حضرت حسین رضی الله عنہ کی شہادت کے دن ماتم کیا جاتا ہے ۔ اسی طرح حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک حضرت علی کرم الله وجہ سے افضل ہیں جنھیں ذوالحجہ  میں انہیں کے گھر میں شہید کردیا گیا لیکن ان کے قتل کے دن کو بھی اس طرح بطور سوگ نہیں منایا جاتا جس طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دن کو ، اسی طرح حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ان دونوں حضرات ( حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما ) سے افضل ہیں ، جن کو مسجد کے محراب میں نماز کی حالت میں جب کہ قراءت کر رہے تھے شہید کر دیا گیا لیکن کوئی بھی ان کے قتل کے دن اور مہینے کو ان کی شہادت کی وجہ سے غم کا مہینہ قرار نہیں دیتا جس طرح حضرت حسین رضی الله عنہ کی شہادت کے دن اور مہینے کو قرار دیا جاتا ہے ۔ جناب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جو دنیاو آخرت میں بنی آدم کے سردار ہیں ، ان کی وفات کے دن بھی یہ لوگ اس طرح ماتم نہیں کرتے جس طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دن کرتے ہیں ۔ ( البدایہ والنہایہ ۵۷۹/۱ )


 شہادت کا مرتبہ خوشی کا ہے یا غم اور سوگ کا ؟ تعلیمات نبوی صلی الله علیہ وسلم سے تو یہ سبق ملتا ہے کہ شہادت کا حصول تو بے انتہاسعادت کی بات ہے ۔ 


نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا شوق شہادت 

شہادت تو ایک عظیم سعادت اور دولت ہے جس کی تمنا خود جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے لیے کی اور امت کو بھی اس کی ترغیب دی ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جس میں حضورصلی الله علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : میں چاہتا ہوں کہ میں اللہ کے راستے میں جہاد کروں ، پھر شہید کر دیا جاؤں ، (پھر مجھے زندہ کر دیا جائے ) پھر میں اللہ کے راستے میں جہاد کروں اور شہید کر دیا جاؤں ، (پھر مجھے زندہ کر دیا جائے ) پھر میں اللہ کے راستے میں جہاد کروں اور پھر شہید کر دیا جاؤں ۔ صحیح مسلم : ۲۹۷ ) 


حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا شوق شہادت

 یہی وجہ ہے تھی کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ مستقل حصول شہادت کی دعا مانگا کرتے تھے ، ( صحیح  بخاری   : ۱۸۹۰ ) 


حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا شوق شہادت

 حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جنھیں بارگاہ رسالت سے سیف اللہ کا خطاب ملا تھا ، وہ ساری زندگی شہادت کے حصول کی تڑپ لیے ہوئے قتال فی سبیل الله میں مصروف رہے لیکن اللہ کی شان کہ انہیں شہادت نہیں مل سکی, جب ان کی وفات کا وقت آیا تو پھوٹ پھوٹ کے رو پڑے کہ میں آج بستر پر پڑا ہوا اونٹ کے مرنے کی طرح اپنی موت کا منتظر ہوں ۔ ( البد به بهانه ای / ۱۳ مته المعارف ، بیروت ) 


الغرض یہاں تو صرف یہ دکھلانا مقصود ہے کہ شہادت تو ایسی نعمت ہے جس کے حصول کی شدت سے تمنا کی جاتی تھی ، یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر افسوس اور غم منایا جائے ، اگر اس عمل کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو پھر ہمیں یہ بتایا جائے کہ پورے سال کا ایسا کون سا دن ہے جس میں کسی نہ کسی صحابی رسول کی شہادت نہ ہوئی ہو ، کتب تاریخ اور سیر کو دیکھ لیا جائے ، ہر دن کسی نہ کسی کی شہادت مل جائے گی ، نیز اس بات کو بھی دیکھا جائے کہ جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں بھی تو کئی عظیم اور نبی صلی الله علیہ وسلم کی محبوب شخصیات کو شہادت ملی لیکن کیا ہمارے پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم نے بھی ان کی شہادت کے دن کو بطور یادگار کے منایا , نہیں بالکل نہیں تو پھر کیا ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ غم محسوس کرنے والے ہیں ؟ خدارا ہم اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور اس قسم کی رسومات و بدعات سے بچنے کی مکمل کوشش کریں ۔ 


شرعا سوگ کرنے کا حکم

 شرعا سوگ کرنے کی صرف چند صورتیں ہیں اور وہ بھی عورتوں کے لیے : ( ۱ ) مطلقہ بائنہ کے لیے صرف زمانہ عدت میں ، ( ۲ ) جس عورت کا شوہ فوت ہو جائے ، اس کے لیے صرف زمانہ عدت میں ، ( ۳ ) کسی قریبی رشتے دار کی وفات پر صرف تین دن ۔ اس کے علاوہ کسی بھی موقع پر عورت کے لیے سوگ کرنا جائز نہیں ہے ، اور سوگ کا مطلب یا طریقہ یہ ہے کہ وہ اس عرصہ میں زیب وزینت اور بناؤ سنگھار نہ کرے ، زینت کی کسی بھی صورت کو اختیار نہ کرے مثلا : خوشبو لگانا ، سرمہ لگانا مہندی لگانا اور رنگ برنگ نئے خوشنما کپڑے پہننا وغیرہ ، اس کے علاوہ کوئی صورت اپنانا مثلا : اظہار غم کے لیے سیاہ لباس پہننا یا بلند آواز سے آہ و بکا وغیرہ کرنا جائز نہیں ۔ نیز ! مردوں کے لیے تو کسی صورت میں سوگ کی اجازت نہیں ہے ۔

 

تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی