افغانستان،طالبان اور ہندوستان

       افغانستان کی تازہ صورتحال سے پورے عالم میں کہرام برپا ہے،دنیا بھر کے تجزیہ نگار بڑی باریکی سے مستقبل کے حالات کا تجزیہ کر رہے ہیں،اور سقوط کابل کے مضمرات پر روشنی ڈال رہے ہیں،ہندوستان کا میڈیا،طالبان کی خوفناک تصویر پیش کرنے کیلئے دن رات،جتن کر رہا ہے،زبردستی کھینچ تان کر،ماضی کی فرضی اور دھندلی تصویروں کو حقیقت بنا کر پیش کر رہا ہے،لیکن چشم دیدوں کے بیانات اس مفروضہ کو غلط ثابت کر رہے ہیں،حکومت ہند کے ترجمان خاموش ہیں،اور دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں،گودی میڈیا کے 

 اینکرس اس کیلئے امریکہ کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں،اور اس کو دغا باز،فریبی اور نہ جانے کن کن القاب سے یا د کر رہے ہیں،لیکن سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ دھوکہ باز ہے،تو اس کا ساتھ دینے والا اور دن رات اس سے اظہار وفاداری کرنے والا مجرم نہیں ہے؟اگر مجرم امریکہ ہے،تو مجرم کا ساتھ دینے والا بھی کم مجرم نہیں ہے،کون نہیں جانتا کہ مودی سرکار کے گہرے روابط امریکہ سے ہیں،براک اوبامہ کو ہندوستان آنے کی دعوت کس نے دی تھی؟اور کون تھا جو اس کے سامنے بچھا جارہا تھا؟نمستے ٹرمپ کا اسٹیج کس نے سجایا تھا؟اور اب کی بار ٹرمپ سرکار کا نعرہ کس نے دیا تھا؟

کون نہیں جانتا کہ کابل میں امریکہ کے اشارہ پر بننے والی کٹھ پتلی سرکار پر ہندوستان دولت نچھاور کر رہا تھا،اور افغان سرکار کے لئے اپنے خزانے کھول دیئے تھے،ہندوستانیوں کے خون پسینے کی کمائی افغان صدر،وزراء اور فوجیوں پر خرچ کی جارہی تھی، ملک کے غریب عوام مہنگائی کے بوجھ سے دبے جارہے تھے،لیکن جھوٹی تعریف اور نام نمود کیلئے کابل پر انعام واکرام کی بارش ہو رہی تھی،بد قسمتی سے بیس سال کے عرصہ میں جتنی بھی حکومتیں کابل میں آئیں،وہ سب کرپٹ تھیں،ان کے اندر سیم وزر کی ہوس تھی،حکومت کے سربراہوں نے ملک کی دولت سے اپنے ذاتی خزانے بھر لئے،اور عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ نہیں کیا،کل کی بات ہے،جب اشرف غنی ملک سے فرار ہوا،تو رپوٹوں کے مطابق چار ہیلی کاپٹر میں پیسے بھر لیکر گیا،یقینا اس میں ہندوستان کے تعاون کی بھی خاصی رقم ہو گی،یہ سوال کوئی نہیں اٹھا رہا ہے کہ ملک کی گاڑھی کمائی ،کابل کے عیش وعشرت کیلئے بےدریغ کس نے لٹائی اور آج اس کا کیا صلہ ملا؟

دراصل ملک کی موجودہ حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ دولت کے بل بوتے پر لوگوں کو ہمنوا بنایا جائے،حکومت بنائی اور بگاڑی جائے،ملک کے مختلف ریاستوں میں یہی پالیسی اپنائی گئی،اور کئی حکومتیں کانگریس کی جھولی سے نکل کر بی جے پی کے حصہ میں چلی گئیں،یہی پالیسی افغانستان میں اختیار کی گئی،اور بغیر سوچے سمجھے،لاکھوں ڈالر افغانستان میں لٹائے گئے،اور کرپٹ حکمرانوں کے عیش وآرام کیلئے خزانوں کے دہانے کھول دیئے گئے،حکومت کی اس ناعاقبت اندیشی نے طالبان کو ہندوستان کا مخالف بنا دیا اور دن گزرنے کے ساتھ یہ مخالفت تیز تر ہوتی گئی

طالبان کا سب سے مضبوط پشت پناہ چین ہے،جس سے ہمارے تعلقات اس وقت بے حد خراب ہیں،بلکہ دشمنی ٹھن چکی ہے،اس کی وجہ حکومت کے چانکیہ سمجھے جانے والے،امت شاہ کا بڑ بولا پن ہے،دراصل کشمیر سے 370ہٹاتے وقت امت شاہ نے پارلیمنٹ میں جو بیان دیا،اس نے دشمنی کی کھائی کو گہرا کردیا،امت شاہ نے کہا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کو بھی ہم ہندوستان کا حصہ مانتے ہیں،اور اس کو بھی واپس لینے کی کوشش کریں گے،اس بیان کے بعد لداخ کے سرحدی حصوں پر چین نے اپنا دبدبہ قائم کر لیا اور ہندوستانی فوج کو پسپا ہونا پڑا،آئے دن جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوا،حکومت اس کو چھپانے کی کوشش کرتی رہی،تاہم چین اپنے استعماری عزائم کے ساتھ آگے بڑھتا رہا،ہندوستان چونکہ امریکہ کا پٹھو بن کر طالبان کی مخالفت کر رہا تھا،اس لئے چین کھل کر طالبان کی حمایت کر رہا تھا،اس طرح در پردہ چین کے ساتھ افغانستان میں جنگ جاری تھی،اب جب کہ طالبان کا غلبہ ہوگیا ہے،تو ہندوستان کو اپنی سرحد کے حفاظت کے حوالے سے شدید تحفظات ہیں،ہندوستان کو اندیشہ ہے کہ طالبان کی فوجی سرگرمیاں کشمیر میں شروع ہو سکتی ہیں،جن پر قابو پانا آسان نہیں ہوگا،گویا اس وقت ہندوستان تین طرف سے مضبوط دشمنوں کے نرغہ میں آگیا ہے،چین،پاکستان اور طالبان،اس صورتحال کیلئے خود حکومت کی ناکام خارجہ پالیسی ذمہ دار ہے،مگر ہندوستانی میڈیا میں اس حقیقت کو بیاں کرنے کی جرءات اور ہمت نہیں ہے،اصل بات یہ ہے کہ حکومت داخلی اور خارجی دونوں محاذ پر ناکام ہو چکی ہے،اس نے اپنی پالیسی سے پہلے ملک کو چند سرمایہ کاروں کے ہاتھوں بیچ دیا،اور اب ملک کی سرحدوں کو بھی اس نے غیر

 محفوظ بنا دیا۔۔فقط

 مفتی محمد نصر الله ندوی 

استاد دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ 

تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی