دعائے افطار کی علمی اور شرعی تحقیق: اَللّٰهُمَّ لَكَ صُمْتُ پڑھیں یا ذهب الظمأ پڑھیں. دونوں میں سے کونسی دعا صحیح ہے؟

 افطار کی پہلی دعا:

اَللّٰهُمَّ لَكَ صُُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِكَ اَفْطَرْتُ.

▪ *ترجمہ:* اے اللہ! میں نے آپ ہی کے لیے روزہ رکھا اور آپ ہی کے رزق پر افطار کیا۔

(سنن ابی داود، پُرنور دعائیں از شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دام ظلہم)

بعض حضرات اس دعا پر مشتمل روایت کو ضعیف قرار دے کر افطار کے وقت اس دعا کو پڑھنے سے منع کرتے ہیں، حالاں کہ یہ غلط فہمی ہے، ذیل میں اس کی تفصیل ذکر کی جاتی ہے۔

تحقیقِ دعا:

مذکورہ دعا سنن ابی داود میں موجود ہے:

2360- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ مُعَاذِ بْنِ زُهْرَةَ أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ النَّبِىَّ ﷺ كَانَ إِذَا أَفْطَرَ قَالَ: «اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ». (باب الْقَوْلِ عِنْدَ الإِفْطَارِ)

اسی طرح یہ دعا ’’السنن الصغریٰ للبیہقی، السنن الکبریٰ للبیہقی، شعب الایمان للبیہقی، مصنَّف ابن ابی شیبہ، معجم الصحابہ لابن القاسم البغوی اور الزہد لابن المبارک‘‘ وغیرہ میں بھی موجود ہے۔ 

واضح رہے کہ یہ روایت معتبر ہے اور اس کے تمام راوی ثقہ اور معتبر ہیں۔ جہاں تک اس روایت کے مرسل ہونے کا تعلق ہے تو مرسل ہونا کوئی عیب نہیں، بلکہ جمہور کے نزدیک مرسل روایت حجت ہے۔ اس لیے محض مرسل ہونے کی بنیاد پر اس روایت کو ضعیف قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ افطار کے وقت یہ دعا پڑھنا بالکل درست بلکہ یہ مسنون دعاؤں میں سے ہے۔

☀ مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح:

1994- (وَعَنْ مُعَاذِ بْنِ زُهْرَةَ) تَابِعِيٌّ يَرْوِي عَنْهُ حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيُّ الْكُوفِيُّ، ذَكَرَهُ 

الطِّيبِيُّ (قَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا أَفْطَرَ قَالَ) أَيْ دَعَا، وَقَالَ ابْنُ الْمَلَكِ: أَيْ قَرَأَ بَعْدَ الْإِفْطَارِ، وَمِنْهُ: (اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ) قَالَ الطِّيبِيُّ: قَدَّمَ الْجَارَّ وَالْمَجْرُورَ فِي الْقَرِينَتَيْنِ عَلَى الْعَامِلِ دَلَالَةً عَلَى الِاخْتِصَاصِ إِظْهَارًا لِلِاخْتِصَاصِ فِي الِافْتِتَاحِ وَإِبْدَاءً لِشُكْرِ الصَّنِيعِ الْمُخْتَصِّ بِهِ فِي الِاخْتِتَامِ. (رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ مُرْسَلًا) قَالَ فِي «التَّقْرِيبِ»: مُعَاذُ بْنُ زُهْرَةَ، وَيُقَالُ أَبُو زُهْرَةَ مَقْبُولٌ مِنَ الثَّالِثَةِ، فَأَرْسَلَ حَدِيثًا فَوَهِمَ مَنْ ذَكَرَهُ فِي الصَّحَابَةِ، قَالَ مِيرَكُ: عِبَارَةُ أَبِي دَوُادَ هَكَذَا عَنْ مُعَاذِ بْنِ زُهْرَةَ: بَلَغَهُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَرَأَهُ، لَا يُقَالُ لِمِثْلِهِ أَنَّهُ كَانَ إِذَا أَفْطَرَ إِلَى آخِرِهِ، وَمُعَاذُ بْنُ زُهْرَةَ بْنِ حِبَّانَ فِي الثِّقَاتِ، وَانْفَرَدَ بِإِخْرَاجِ حَدِيثِهِ هَذَا أَبُو دَاوُدَ، وَلَيْسَ لَهُ سِوَى هَذَا الْحَدِيثِ اهـ  قَالَ ابْنُ حَجَرٍ: وَهُوَ مَعَ إِرْسَالِهِ حُجَّةٌ فِي مِثْلِ ذَلِكَ، عَلَى أَنَّ الدَّارَقُطْنِيَّ وَالطَّبَرَانِيَّ رَوَيَاهُ بِسَنَدٍ مُتَّصِلٍ لَكِنَّهُ ضَعِيفٌ، وَهُوَ حُجَّةٌ أَيْضًا. (كِتَابُ الصَّوْمِ)

افطار کی دوسری دعا

افطار کے سلسلے میں مستند احادیث سے جو دعا ثابت ہے وہ ہے:

ذَهَبَ الظَّمَأُ، وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ (ابوداؤد، کتاب الصوم: 2357)

دعا کا ترجمہ : پیاس بجھ گئی، رگیں تر ہو گئیں اور اجر بھی ان شاء اللہ ثابت ہو گیا.

بعض اہل علم نے اس دعا کے سلسلے میں یہ اشکال ذکر کیا ہے کہ اگر ہم اس کا ترجمہ ماضی کی شکل میں کرتے ہیں (جیسا کہ اوپر کیا گیا ہے) تو یہ صحیح نہیں ہوگا کیونکہ ایسی صورت میں یہ جملہ خبریہ ہو جائے گا ، جب کہ یہ دعا ہے اور دعا انشاء سے تعلق رکھتی ہے، اس لیے اس دعا کا ترجمہ یوں کیا جانا چاہیے : پیاس بجھ جائے، رگیں تر ہو جائیں اور اجر ثابت ہو جائے ان شاء اللہ. اسی لیے بعض علماء اس بات کے قائل ہیں کہ اس دعا کو افطار کے وقت پڑھا جائے نہ کہ افطار کے بعد.

تحقیق دعا:

ہماری تحقیق کے مطابق اس دعا کا ترجمہ جملہ خبریہ کے طور پر کرنے میں کوئی حرج نہیں.. اس دعا کی مثال بعینہ اس دعا کی طرح ہے جو کسی کے یہاں کھانا کھانے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد ہے اور جس کے الفاظ یوں ہیں :

أَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ، وَأَكَلَ طَعَامَكُمُ الْأَبْرَارُ، وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلَائِكَةُ (ابوداؤد، کتاب الاطعمۃ:3854)

ترجمہ : آپ لوگوں کے یہاں روزہ داروں نے افطار کیا، آپ کا کھانا نیک لوگوں نے کھایا اور فرشتوں نے آپ لوگوں کے لیے دعائے رحمت کی.

اب ظاہر ہے یہ دعا کھانا کھا چکنے کے بعد ہی ہڑھی جاتی ہے اس لیے اس کے ترجمہ میں وہ منطق بالکل لاگو نہیں ہو سکتی جو افطار والی دعا میں لگائی جاتی ہے. اسی لیے "ذهب الظمأ.." والی دعا کے سلسلے میں شارحین حدیث نے بھی یہ وضاحت کی ہے کہ یہ دعا افطار کے بعد پڑھی جائے گی، چنانچہ صاحب عون المعبود علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

(إذا أفطر) أي بعد الإفطار

یعنی یہ دعا آپ صلی اللہ علیہ وسلم افطار کے بعد پڑھتے تھے.

 فائدہ:

اس حوالے سے بعض اہلِ علم فرماتے ہیں کہ مذکورہ دو دعاؤں میں سے پہلی دعا افطار سے پہلے جبکہ دوسری دعا افطار کے بعد پڑھی جائے۔

لہذا صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ افطار اللھم لک صمت والی دعا سے کیا جائے اور افطار کے بعد ذھب الظمأ والی دعا پڑھی جائے. کیونکہ دونوں دعائیں صحیح ہیں اور حدیث سے ثابت ہیں. 

واللہ اعلم بالصواب

( عبدالغفار سلفی ،بنارس)

۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ

تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی