جانور ذبح کرنے کے احکام وآداب- مکمل مسائل

 *ذبح سے متعلق احکام سے واقفیت کی اہمیت:*

شریعت اسلامیہ کے مطابق جانور کو ذبح کرنے کے لئے خواہ وہ بقر عید کے موقع پر ہو کیا کسی اور موقع پر ذبح سے متعلق مسائل و آداب کا جاننا بے حد ضروری ہے تاکہ جانور حلال ہوسکے اور معاشرے میں اس کے متعلق بیداری آسکے  آجکل بہت سے لوگ مسائل سیکھنے کا اہتمام نہیں کرتے جس کی وجہ سے وہ نظریاتی اور عملی طور پر متعدد غلطیوں اور غیر شرعی امور کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔

 *ذبح کے اسلامی طریقے کی خوبی:* 

اسلام نے جانور ذبح کرنے سے متعلق جن احکام اور طریقہ کار کی تعلیم دی ہے ان میں جانور کی بھرپور رعایت کی گئی ہے اور اس بات کا خصوصی خیال رکھا گیا ہے کہ جانور کو تکلیف کم سے کم ہو۔ اس طریقے سے بندوں کو ایک پاکیزہ اور طیب رزق بھی میسر آتا ہے۔ اور یہ خوبی صرف اور صرف اسلامی تعلیمات کا خاصہ ہے۔

☀ سنن ابی داود میں ہے:

2817- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ أَبِى قِلَابَةَ عَنْ أَبِى الأَشْعَثِ عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ: خَصْلَتَانِ سَمِعْتُهُمَا مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ: «إِنَّ اللهَ كَتَبَ الإِحْسَانَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ، فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا -قَالَ غَيْرُ مُسْلِمٍ: يَقُولُ: «فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ»-، وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ، وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ، وَلْيُرِحْ ذَبِيحَتَهُ».


 *ذبح کرتے وقت جانور کو بے جا تکلیف دینے کی ممانعت:*

اس امر کا خاص خیال رکھا جائے کہ جانور کے ساتھ رحمدلی اور ہمدردی سے پیش آیا جائے تاکہ اسے کسی درجہ کی کوئی بےجا تکلیف نہ ہونے پائے  ۔ جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جو شخص ذبیحہ (یعنی ذبح کیے جانے والے جانور) کے ساتھ رحمدلی کا معاملہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس پر رحم فرمائے گا۔‘‘

☀ المعجم الکبیر للطبرانی میں ہے:

7913- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ: حَدَّثَنِي رَوْحُ بْنُ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ الْمُقْرِئُ، ح: وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْحَضْرَمِيُّ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي رَجَاءَ الْعَبَّادَانِيُّ: حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ رَجَاءٍ عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ جَمِيلٍ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «مَنْ رَحِمَ ذَبِيحَةً رَحِمَهُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ».

مذکورہ حدیث پر عمل کرتے ہوئے درج ذیل باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے:

1 جانور کو ذبح کی جگہ لے جاتے ہوئے حتی الامکان نرمی اور آہستگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے، بلا ضرورت گھسیٹ کر لے جانا ممنوع ہے کیوں کہ یہ بے جا تکلیف کا باعث ہے۔

2️⃣ جانور کو ذبح کے لیے لِٹاتے ہوئے بھی حتی الامکان نرمی اور آہستگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

3 ایک جانور کے سامنے دوسرا جانور ذبح کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے کیوں کہ  یہ اس جانور کے لیے تکلیف کا باعث ہے، اگر کوئی مجبوری ہو تو کوئی بات نہیں 4️⃣ جانور کے سامنے چھری تیز کرنا یا جانور کو لِٹانے کے بعد چھری تیز کرنا بھی ممنوع ہیں، صحیح طریقہ یہی ہے کہ جانور ذبح کرنے سے پہلے ہی جانور سے چھپا کر چھری اچھی طرح تیز کرلی جائے۔

نا چلنے والی چھری مردار اور کند چھری سے جانور کو ذبح کرنا مکروہ ہے کیونکہ یہ جانور کے لئے کلفت کا ذریعہ بنے گا اس لئے تیز چھری سے ذبح کریں  ۔ 

مزید پڑھیے 

کیا فتنے کے ڈر سے گائے کی قربانی چھوڑ سکتے ہیں 

قربانی واجب ہونے کی شرائط اور اس کا نصاب

6️⃣ قربانی کے جانور کو ذبح سے پہلے بھوکا پیاسا رکھنا بھی درست نہیں بلکہ بہتر یہ ہے کہ اس کو خوب کھلایا پلایا جائے۔ (فتاوی عالمگیری، بدائع الصنائع، رد المحتار)

 *ذبح کرتے وقت جانور کو قبلہ رخ کرنے کا حکم:*

ذبح کرتے وقت جانور کو قبلہ رخ کرلینا سنت ہے، اسی طرح ذبح کرنے والے کا قبلہ رخ ہونا بھی سنت ہے، ان دونوں باتوں کا خصوصی اہتمام ہونا چاہیے، لیکن اگر کسی عذر کی وجہ سے قبلہ رخ ہونا مشکل ہو تو جس طرف سہولت ہوسکے اسی طرف جانور کو ذبح کرلیا جائے۔ (بدائع الصنائع، بحوث فی قضایا فقہیہ معاصرہ)

*دائیں ہاتھ سے ذبح کرنے کا حکم:*

جانور کو دائیں ہاتھ سے ذبح کرنا سنت ہے، اور ضرورت پڑے تو بائیں ہاتھ سے مدد لی جاسکتی ہے۔ البتہ اگر دائیں ہاتھ سے ذبح کرنے میں مشکلات ہو تو ایسی صورت میں بائیں ہاتھ سے ذبح کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ (ذوالحجہ اور قربانی کے فضائل واحکام از مفتی محمد رضوان صاحب دام ظلہم)

☀ موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے:

ذَكَاةُ الْبَقَرِ:

ذَكَاةُ الْبَقَرِ كَذَكَاةِ الْغَنَمِ، فَإِذَا أُرِيدَ تَذْكِيَةُ الْبَقَرَةِ فَإِنَّهَا تُضْجَعُ عَلَى جَنْبِهَا الأَيْسَرِ، وَتُشَدُّ قَوَائِمُهَا الثَّلَاثُ: الْيَدُ الْيُمْنَى وَالْيُسْرَى وَالرِّجْل الْيُسْرَى، وَتُتْرَكُ الرِّجْل الْيُمْنَى بِلَا شَدٍّ لِتَحَرُّكِهَا عِنْدَ الذَّبْحِ، وَيُمْسِكُ الذَّابِحُ رَأْسَهَا بِيَدِهِ الْيُسْرَى، وَيُمْسِكُ السِّكِّينَ بِيَدِهِ الْيُمْنَى، ثُمَّ يَبْدَأُ الذَّبْحَ بَعْدَ أَنْ يَقُول: بِاسْمِ اللهِ وَاللهُ أَكْبَرُ، وَبَعْدَ أَنْ يَتَّجِهَ هُوَ وَذَبِيحَتُهُ نَحْوَ الْقِبْلَةِ.


 *اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے کی فضیلت:*

افضل یہ ہے کہ قربانی کرنے والا شخص خود ہی ذبح کرے لیکن اگر کوئی اور شخص اس کی اجازت سے ذبح کرلے تو بھی جائز ہے، البتہ اس بات کا دھیان رکھنا ضروری ہے کہ جس شخص کو جانور ذبح کرنے کے لیے بلایا جائے وہ اچھی طرح ذبح کرنا جانتا ہو اور شرائط پر بھی پورا اُترتا ہو۔

(فتاوی عالمگیری، جواہر الفقہ، فتاوی ٰرحیمیہ، اعلاءالسنن، تکملۃ فتح الملہم)


 *ذبح کے وقت شُرکاء کی موجودگی کا حکم:*

ذبح کے وقت تمام شُرکاء کا موجود ہونا ضروری نہیں بلکہ سب کی طرف سے اجازت ہی کافی ہے، البتہ بہتر یہی ہے کہ ذبح کے وقت موجود رہا جائے۔ (فتاویٰ محمودیہ، بہشتی زیور، فتاوی ٰرحیمیہ، تکملۃ فتح الملہم)


 *ذبح اور نحر کی حقیقت:*

1⃣ ”ذبح“ درحقیقت جبڑے اور سینے کے درمیان مخصوص رگیں کاٹنے کا نام ہے، جبکہ ”نحر“ حلق کے آخر اور سینے کے قریب رگیں کاٹنے کا نام ہے۔ 

2️⃣ بکرا، بکری، دنبہ، مینڈھا، بھیڑ، گائے، بیل، بھینسا اور بھینس میں ”ذبح“ سنت ہے، جبکہ اونٹ اور اونٹنی میں ”نحر“ سنت ہے۔  (فتاویٰ قاضی خان)

 *ذبح میں کاٹی جانے والی رگیں:*

ذبح میں چار رگیں کاٹی جاتیں ہیں:

1⃣ حُلقوم یعنی سانس کی نالی، جس کو نرخرہ بھی کہا جاتا ہے۔

2️⃣ مری یعنی کھانے پینے کی نالی۔

3⃣ وَدَجَین یعنی خون کی دو رگیں، یہ سانس کی نالی کے دائیں بائیں دو رگیں ہوتی ہیں، جن کو شہ رگ بھی کہا جاتا ہے۔

یہ چاروں رگیں کاٹنے کو ذبح کہا جاتا ہے۔ کوشش تو یہی ہو کہ یہ چاروں رگیں کٹ جائیں البتہ اگر ان میں سے تین بھی کٹ جائیں تب بھی جانور حلال سمجھا جائے گا۔

(مختصرالقدوری مع الجوہرة، فتاوی عالمگیری، ذوالحجہ اور قربانی کے فضائل واحکام)


 *جانور کو عُقدہ یعنی گلے کی گھنڈی اور سینے کے درمیان ذبح کرنے کا حکم:*

جانور کو عُقدہ یعنی گلے کی گھنڈی اور سینے کے درمیان ذبح کرنا چاہیے، لیکن اگر کسی نے جبڑوں اور گھنڈی کے مابین ذبح کرلیا اور وہ خاص رگیں کٹ گئیں تو بھی ذبح درست ہے۔ (امداد الفتاویٰ، احسن الفتاویٰ)


 *گدی کی جانب سے جانور ذبح کرنے کا حکم:*

ذبح کرتے وقت اس بات کا خیال رہے کہ گلے ہی کی جانب سے ذبح کیا جائے، گلے کو چھوڑ کر گدی کی جانب سے ذبح کرنا مکروہ ہے، اس میں جانور کو بے جا تکلیف دینا ہے، البتہ اگر کسی نے گدی کی جانب سے ذبح کرلیا اور وہ خاص رگیں کٹ گئیں تو جانور حلال ہے لیکن یہ عمل مکروہ ہے۔

(فتاوی ٰقاضی خان، المحیط البرہانی، البحر الرائق)


 *قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت نیت کیا ہونی چاہیے؟*

قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت دل میں نیت ہونی چاہیے کہ یہ جانور اللہ کی رضا کی خاطر قربانی کی نیت سے ذبح کررہا ہوں۔ (جواہر الفقہ)


*ذبح کے لیے جانور لِٹانے کے بعد کی دعا:*

جب جانور کو ذبح کرنے کے لیے قبلہ رخ لٹایا جائے تو یہ دعا پڑھنا بہتر ہے: 

اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ۔ 

(قربانی کے احکام و مسائل از مفتی اعظم ولی حسن ٹونکی رحمہ اللہ، ذوالحجہ اور قربانی کے فضائل واحکام)

 *ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا:*

ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا ضروری ہے، جس کا سنت طریقہ یہ ہے کہ یوں کہے: 

بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ (ذوالحجہ اور قربانی کے فضائل واحکام)


▪درج ذیل احادیث میں ’’بسم اللہ اللہ اکبر‘‘ کے الفاظ وارد ہوئے ہیں:

1⃣ مسند احمد میں ہے:

15022: عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْأَنْصَارِيِّ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ ذَبَحَ يَوْمَ الْعِيدِ كَبْشَيْنِ ثُمَّ قَالَ حِينَ 

وَجَّهَهُمَا: «إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا مُسْلِمًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ. بِسْمِ اللهِ اللهُ أَكْبَرُ، اَللّٰهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ».

2️⃣ صحيح ابن خزيمہ میں ہے:

2899- عن جابر بن عبد الله: أن رسول الله ﷺ ذبح يوم العيد كبشين ثم قال حين وجههما: «إني وجهت وجهي للذي فطر السمٰوات و الأرض حنيفا وما أنا من المشركين. إن صلاتي و نسكي ومحياي ومماتي لله رب العالمين، لا شريك له، وبذلك أمرت، وأنا أول المسلمين، بسم الله الله أكبر، اللهم منك ولك من محمد وأمته».

3⃣ مجمع الزوائد میں ہے:

6189- عن عائشة قالت: يعق عن الغلام مكافأتان وعن الجارية شاة. قالت عائشة: فعق رسول الله ﷺ عن الحسن والحسين شاتين شاتين يوم السابع وأمر أن يماط عن رأسه الأذى وقال: «اذبحوا على اسمه وقولوا: بسم الله الله أكبر، [اللهم] منك ولك، هذه عقيقة فلان». قال: وكانوا في الجاهلية تؤخذ قطنة فتجعل في دم العقيقة ثم توضع على رأسه فأمر رسول الله ﷺ أن يجعل مكان الدم خلوقًا.

4️⃣ مسند ابی يعلى میں ہے:

4521- عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: يَعِقُّ عَنِ الْغُلامِ شَاتَانِ مُكَافِئَتَانِ، وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌَ قَالَتْ عَائِشَةُ: فَعَقَّ رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ شَاتَيْنِ شَاتَيْنِ يَوْمَ السَّابِعِ، وَأَمَرَ أَنْ يُمَاطَ عَنْ رَأْسِهِ الأَذَى، وَقَالَ: اذْبَحُوا عَلَى اسْمِهِ وَقُولُوا: بِسْمِ اللهِ اللهُ أَكْبَرُ، اَللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ هَذِهِ عَقِيقَةُ فُلانٍ. قَالَ: وَكَانُوا فِي الْجَاهِلِيَّةِ تُؤْخَذُ قُطْنَةٌ تُجْعَلُ فِي دَمِ الْعَقِيقَةِ ثُمَّ تُوضَعُ عَلَى رَأْسِهِ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللهِ ﷺ أَنْ يَجْعَلُوا مَكَانَ الدَّمِ خَلُوقًا.


 *ذبح کرتے وقت بسم اللہ بھول جانے کا حکم:*

اگر ذبح کرنے والا ذبح کرتے وقت بسم اللہ بھول گیا تو تب بھی ذبح حلال ہے لیکن جان بوجھ کر اللہ کا نام نہ لیا تو جانور حرام ہوجائے گا۔ (البحر الرائق، رد المحتار، فتاویٰ عالمگیری، بحوث فی قضایا فقہیہ معاصرہ)


 *ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا کس کے ذمے ہے؟*

ذبح کرتے وقت صرف ذبح کرنے والے کے لیے بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے، اسی طرح اگر چھری چلانے والے افراد ایک سے زائد ہوں تو ان سب کے ذمے بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے، باقی جن حضرات نے جانور پکڑ رکھا ہو تو ان کے ذمے بسم اللہ اور تکبیر کہنا ضروری نہیں۔ (امداد الفتاویٰ، امداد الاحکام)


 *ذبح کرنے والے کا مسلمان ہونا:*

1⃣ ذبح کرنے والے کا مسلمان ہونا ضروری ہے، کیوں کہ غیر مسلم کا ذبح حلال نہیں۔ (فتاویٰ عالمگیری)

2️⃣ جہاں تک اہلِ کتاب یعنی یہودی اور عیسائی شخص کے ذبیحے کا حکم ہے تو اگر وہ واقعی اہلِ کتاب میں سے ہو، اپنے آسمانی دین کو برحق جانتا ہو، اپنے پیغمبر اور کتاب پر ایمان رکھتا ہو تو اس کا ذبیحہ حلال ہے شرط یہ ہے کہ جانور ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لے۔ لیکن یہ صورتحال بہت ہی کم ہے کیوں کہ بہت سے (بلکہ اکثر) عیسائی اور یہودی مردم شماری میں تو عیسائی اور یہودی ہی کہلاتے ہیں لیکن درحقیقت وہ لا مذہب دہری اور مادہ پرست ہوتے ہیں، جو اپنے آسمانی دین کے منکر، اپنے پیغمبروں اور کتابوں کے منکر حتی کہ خدا ہی کے منکر ہوتے ہیں، ایسے نام کے اہل ِکتاب کا ذبیحہ حلال نہیں، بہرحال کوشش یہی ہو کہ ذبح کے لیے کسی صحیح العقیدہ مسلمان ہی کا انتخاب کیا جائے۔  (تفصیل کے لیے دیکھیں: جواہر الفقہ)


 *عورت اور نابالغ بچے کے ذبح کا حکم:*

عورت اور اسی طرح نابالغ لڑکا یا لڑکی اگر اچھی طرح ذبح کرنا جانتے ہوں تو ان کا ذبح بالکل درست ہے۔ (الدر المختار مع رد المحتار، امداد الفتاویٰ)


 *گویائی سے محروم شخص کے ذبیحہ کا حکم:*

گویائی سے محروم شخص کا ذبیحہ حلال ہے جبکہ وہ ذبح کا طریقہ جانتا ہو کہ ذبح میں کتنی اور کون کون سی 

رگیں کاٹنی چاہییں اور اس کو تکبیر کا طریقہ بھی اشارے سے سکھایا جائے کہ اگر وہ اشارے سے تکبیر کہہ دے تب بھی کافی ہے، اور اگر وہ تکبیر کے لیے زبان کو حرکت دینے پر قادر ہے تو اچھی بات ہے۔

(امداد الاحکام ودیگر کتب)


 *بلا وضو اور حالتِ جنابت میں جانور ذبح کرنے کا حکم:*

ذبح کرنے والے شخص کا باوضو ہونا ضروری نہیں، بلکہ بے وضو کے بھی ذبح کیا جاسکتا ہے، اسی طرح جنابت کی حالت میں اگر کسی نے ذبح کیا تب بھی ذبح درست ہے۔ البتہ مناسب یہی ہے کہ طہارت کے ساتھ ذبح کیا جائے۔ (رد المحتار، الموسوعۃ الفقہیہ ودیگر کتب)

 *ذبح کے بعد کھال کب اتاری جائے؟*

ذبح کرنے کے بعد جب جانور سے روح نکل جائے تو اس کے بعد ہی کھال اتارنی چاہیے، روح نکلنے سے پہلے کھال اتارنا مکروہ ہے۔ (فتاوی ٰقاضی خان، عالمگیری


1 تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی