عشرہ ذی الحجہ میں روزہ رکھنے کا حکم

فضائل و مسائل ذی الحجہ

ماہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں روزہ رکھنا مشروع ہے، جس کا ثبوت سنت نبوی اور اقوال سلف سے صراحت کے ساتھ موجود ہے. 

محترم قارئین: عشرہ ذی الحجہ میں روزہ رکھنے کے سلسلے میں عمومی اور خصوصی دونوں قسم کی دلیل پائی جاتی ہے. 


*عمومی دلیل*: نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے عشر ذی الحجہ میں نیک اعمال بجا لانے کی ترغیب دی ہے، اور نیک اعمال کے عموم میں روزہ داخل ہے، اس سلسلے میں علماء کرام کا تقریبا اتفاق ہے. 

فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((ما من أيام العمل الصالح فيهن أحب إلى الله من هذه الأيام العشر...)) (١).۔

ترجمہ: ذو الحجہ کے دس دنوں میں انجام دئے جانے والے نیک اعمال کو جتنی فضیلت حاصل ہے اتنی فضیلت دیگر دنوں میں کئے گئے اعمالِ صالحہ کو حاصل نہیں۔


*خصوصی دلیل*: بعض ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے مروی ہے کہ: ((أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصوم تسعا من ذي الحجة......))(٢). 

ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ذی الحجہ کے ابتدائی نو دن روزہ رکھتے تھے.. 


یہ حدیث ذی الحجہ کے ابتدائی نو دنوں میں روزہ رکھنے کے متعلق نص صریح ہے، جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں. 

شیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ ومتعہ بالصحۃ والعافیہ مذکورہ حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے عشرہ ذی الحجہ میں روزہ رکھنے کی دلیل ملتی ہے(٣). 


*سلف صالحین بھی  عشرہ ذی الحجہ میں روزہ رکھنے کےقائل تھے.*


 ا- عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ: "أنه كان يستحب قضاء رمضان في عشر ذي الحجة، وقال: وما من أيام أقضى فيها رمضان أحب إليَّ منها"(٤)۔

ترجمہ: عمر رضی اللہ عنہ عشرہ ذی الحجہ میں ماہِ رمضان کے روزے کی قضاء کو مستحب سمجھتے تھے،  بلکہ وہ کہا کرتے تھے کہ ان ایام میں رمضان کے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا  دیگر کے مقابلے مجھے زیادہ پسند ہے۔

ب- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ: ((إن على أيام من رمضان، أفأصوم العشر تطوعا؟ فقال: لا، ولم؟ إبدأ بحق الله، ثم تطوع بعد ما شئت)) (٥). 

ترجمہ: میرے اوپر رمضان کی چند روزوں کی قضا باقی ہے، کیا میں ذی الحجہ کے پہلے عشرہ میں نفلی روزے رکھ سکتا ہوں؟ تو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ نہیں رکھ سکتے، پہلے اللہ کا حق ادا کرو یعنی فرض روزے کی قضا کرو پھر جتنا چاہے نفلی روزے رکھو. 

محترم قارئین: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ذی الحجہ کے پہلے عشرہ میں روزہ رکھنے کا انکار نہیں کیا بلکہ فرض کی قضا سے قبل نفلی روزہ رکھنے کا انکار کیا، مذکورہ دونوں اثر سے پتہ یہ چلا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین بھی ذی الحجہ کے ابتدائی دنوں میں روزہ رکھنے کے قائل تھے. 

ج- امام ابن حزم (٦)، امام ابن قدامہ(٧)، امام نووی(٨)، اور دیگر متقدمین، متاخرین اور معاصرین ائمہ کرام رحمہم اللہ جن کا ذکر بخوف طوالت ترک کر رہا ہوں ذی الحجہ کے ابتدائی نو دنوں میں روزہ رکھنے کے استحباب کے قائل ہیں. 


قارئین کرام: ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک حدیث عشرہ ذو الحجہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے روزہ رکھنے کی نفی کرتی ہے چنانچہ ام المومنین فرماتی ہیں کہ: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو عشرہ ذی الحجہ میں کبھی روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا(٩). 


# عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث بظاہر اس حدیث سے متعارض ہو رہی ہے جس میں عشرہ ذی الحجہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے روزہ رکھنے کا ذکر ہے، لیکن حقیقت میں دونوں حدیث کے مابین کوئی تعارض نہیں، کیوں کہ: عائشہ رضی اللہ عنہا کی نفی کرنے کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں، ممکن ہے انہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے روزہ رکھنے کا علم نہ رہا ہو، یا علم رہا ہو لیکن نسیان ہو گیا ہو، یا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر یا مرض کی وجہ کر روزہ نہ رکھا ہو. 

# نیز عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث روزہ رکھنے کی نفی کر رہی ہے، جبکہ دوسری حدیث سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے روزہ رکھنے کا ثبوت مل رہا ہے، اور قاعدہ ہے کہ جس حدیث سے کسی چیز کا ثبوت ملے اسے اس حدیث پر فوقیت حاصل ہوگی جس میں اس عمل کی نفی کی گئی ہو. 

# اور اگر ہم عائشہ رضی اللہ کی حدیث پر عمل کریں گے تو یہ لازم آئے گا کہ عرفہ کا روزہ بھی نہیں رکھا جائے، کیوں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا پورے عشرہ میں روزہ رکھنے کی نفی کر رہی ہیں جس میں نویں ذی الحجہ کا روزہ بھی داخل ہے.

# اور اگر ہم یہ بھی مان لیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے عشرہ ذی الحجہ میں روزہ رکھنا ثابت نہیں ہے پھر بھی کوئی فرق نہیں پڑتا، کیوں کہ عمومی دلیل ان ایام میں نیک اعمال کے بجالانے کی ترغیب دیتی ہے جس میں روزہ بدرجہ اولی داخل ہے. 

 خلاصہ کلام یہ کہ عشرہ ذی الحجہ میں روزہ رکھنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے، نیز ان ایام میں روزہ رکھنے کے جواز کے قائل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین،  تابعین اور ائمہ کرام رحمہم اللہ بھی ہیں. 


ابو احمد کلیم الدین یوسف 

جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ

.............................................................

(١) صحیح البخاری (969).

(٢) سنن ابی داؤد (٢٤٣٧)، شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو. صحیح قرار دیا ہے، گرچہ بعض علماء نے اس حدیث کو مضطرب کہا ہے، لیکن ضروری نہیں کہ ہر مضطرب حدیث ضعیف ہو، اور یہی حال اس حدیث میں ہے، اس حدیث کی مختلف طرق ہیں جن میں بعض طرق راجح ہے اسی بنا پر شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے.

(٣)  شرح سنن ابی داؤد. 

(٤) مسند الفاروق (١/١٢٨).

(٥) (مصنف عبد الرزاق (٤/٢٥٦/٧٧١٥).

(٦) المحلی (٧/١٩/٧٩٤).

(٧) الکافی (١/٣٦٢).

(٨) شرح صحیح مسلم (٨/٣٢٠/١١٧٦).

(٩) صحیح مسلم (٢٧٤٤).

┄┅════❁❁════┅┄

 

تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی