مغرب نے پوری دنیا کے اندر ترقی کی راہ ہموار کرنے کے لٸے اور اپنے مقاصد کو بروۓ کار لانے کے لٸے چار طرح کے وساٸل کو اختیار کیا 1عیساٸی مشنری 2 استشراق 3 صہیونی تحریک 4 فری میسن کلب۔ ان چاروں طرح کے وسائل کو جاننا ہمارے لٸے بے حد ضروری ہے جنہیں ہم قسط وار بیان کریں گے یہ اس سلسلے کا چوتھا حصہ ہے باقی کے لنک نیچے ہیں .

صہیونیت کیا ہے (ZIONISM) تعریف, پس منظر, منصوبے, سازشیں, اور صہیونی مراکز- مکمل حقائق

صہیونیت کا تعرف : صہیونیت ایک سیاسی نسل پرست اور انتہا پسند تحریک ہے جس کا اولین مقصد فلسطین میں یہودیوں کی حکومت قائم کرنا ہے جس کے ذریعہ پوری دنیاپرحکمرانی کی جا سکے اور اقوام عالم پرتسلط وقبضہ حاصل ہوجائے ، لفظ صہیونیت جبل ’ صہیون “ سے مشتق ہے جوشہر قدس اور یروشلم کے درمیان واقع ہے جہاں بین الاقوامی صہیونیت ہیکل سلیمانی قائم کرنا چاہتی ہے. یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت داؤدؑ نے اس صہیون نامی پہاڑی پر ایک معبدخانہ؍ عبادت گاہ جسے آج کے یہودی ’کنیسہ‘کہتے ہیں اس کی بنیاد رکھی ‘اسی لئے اس پہاڑی کو مقدس سمجھا جانے لگا – یہودیوں نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس پہاڑی کو اپنے ادنیٰ مقاصد کے حصول کے لئے علامت بنا لیا‘ اسی سے لفظ ’’ صہیونیت‘‘ بنا ہے. واضح رہے کہ یہ لفظ صہیون ہے نہ کے صیہون جیسا کہ عام ہوگیا ہے. 


تھیوڈر ہرٹزل ( ۱۸۲۰ ء -۱۹۰۴ ء ) Theodor Hetzle صہیونیت کا پہلا وہ پر جوش داعی ہے جس کے افکار ونظریات پر آج صہیونیت گامزن ہے ۔ اس وقت عالمی سیاست میں سب سے زیادہ منظم ، سب سے زیادہ خطرناک اورسب سے زیادہ فعال یہوی ہیں ، ان کی جڑیں اتنی گہری ہیں جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ، سابق سپرپاور ( روس ) اور موجودہ سپر پاور امریکہ دونوں عالمی بساط سیاست پر صہیونی طاقت کے مہرے ہیں ، روس ہو یا امریکہ ، برطانیہ ہو یا فرانس ، جرمنی ہو یا اٹلی مشرقی یورپ ہویا مغربی یورپ سب وہی کرتے ہیں جو صہیونی کروانا چاہتے ہیں ۔


صہیونیت کا تاریخی پس منظر : 

صہیونیت کی تاریخی ، فکری اور سیاسی جڑیں بہت گہری ہیں ، یہ ہرٹزل سے پہلے مختلف مراسل سے گزری ہے .


 1 - روم میں گرفتاری کے بعد یہودی 70 ء میں مقام عریش ( مصر ) میں جمع ہوئے اور پانچ بنیادی مقاصد پر اتفاق  کیا جن میں ایک مقصد یہ بھی تھا کہ کسی بھی ممکن طریقے سے فلسطین واپس لے کر وہاں اپنا وطن بسانا ہے. اس سے پہلے ۵۳۸- قبل مسیحی میں بابل کی گرفتاری سے واپس آنے کے بعد مکابی تحریک شروع ہوئی تھی جس کے مقاصد میں مقام صہیون کی واپسی اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر تھے. 576 ق م میں بخت نصر کلدانی نے یہودیوں کو تین مرتبہ جلا وطن کیا اور ان کا قتل عام کیا ، اس عرصہ میں یہودیوں نے توریت میں تحریف کی ، اس کے بعد شہنشاہ روم ٹائیٹس نے 70 ء میں یہودیوں کا قتل عام کیا او فلسطین سے نکال دیا ، قدس کی تباہی کے بعد یہودی عراق ، ایران ، ہندوستان ، چین اور حبشہ ہجرت کر گئے اور ہر جگہ اپنی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے ۔ 

بقیہ حصوں کے لنک 

عیساٸی مشنری کیا ہے عالم اسلام پر اس کا اثر و رسوخ کیسا اہم رپورٹ

استشراق کیا ہے ؟ مستشرق کسے کہتے ہیں ؟ تعریف،آغاز اور جد و جہد

مستشرقین کسے کہتے ہیں : اقسام, طریقہ کار , اثرات اور علمی خدمات


2- تحر یک بار کوخبا -118 , 138 ء، ) Bar Kokhba اس یہودی نے یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے اور وہاں حکومت قائم کرنے پر ابھارا ، اس کے بعد موزس کریٹی Moses نے اس تحریک کو اور آگے بڑھایا ۔ 


3- یہودیوں پر عیسائیوں کے مظالم اور خانماں بربادی کے زمانہ میں اس تحریک کی سرگرمیاں سرد پڑ گئیں لیکن اس کے باوجود یہودیوں میں قومی شعور و احساس برتری برابر شدت اختیار کرتا رہا ۔ ۸۰ ء سے اٹھارویں صدی عیسوی تک یورپ کے مختلف ملکوں ، فرانس ، جرنی روس اور انگلینڈ میں یہود مارے مارے پھرتے رہے لیکن ان کو کہیں بھی جائے قرار نہیں ملی ۔


 4 سالو مان مولوخ Solomon Moloch ( 1532-1501 ء ) نے فلسطین میں ایک اسرائیلی مملکت قائم کرنے کی تحریک شروع کی ۔


 5۔ اس کے بعد منشہ بن اسرائیل ( 1604 - 1657ء ) Murshey haraon نے تحریک شروع کی ، یہ پہلا شخص تھا جس نے صہیونیت کی منصوبہ بندی کی اور صہیونی مقاصد کے حصول کے لیے برطانیہ کو آلہ کار بنانے پر زور دیا ۔ ۔ 

6 - ۔ اس کے بعد شبتائی زوی ( ۱۹۲۶-۱۹۷۹ء ) sabbatai Zewi نے صہیونیت کی باگ ڈور سنبھالی ، اس نے یہ دعوی کیا تھا کہ وہ یہودیوں کا نجات دہندہ ہے ۔ چنانچہ اس کی قیادت میں پوری دنیامیں بکھرے یہودیوں نے فلسطین واپس آنے کی تیاری شروع کردی لیکن جلدی ہی سبتائی کی موت ہوگئی اور 1650 ء میں یورپ نے یہودیوں سے چھٹکارہ حاصل کرلیا جب کہ یہودیوں کی ایک بڑی تعداد کو پھانسی دیدی گئی ۔ 

7-  اس کے بعد روٹ شیلڈ Rotschlied ساہوکار نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے ایک تحریک شروع کی جس کا مقصد فلسطین میں یہودی بستیاں اور کالونیاں بنانا تھا  تاکہ اس طرح فلسطین میں یہودی سلطنت کا قیام عمل میں آ سکے ، اس کے بعد انیسویں صدی کے آغاز میں برطانوی سامراج نے فلسطین میں یہودی سلطنت قائم کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ 1831 ء سے یہودی برطانوی مقبوضات پر قابض ہو گئے تھے ، مصر پر قبضہ کرنے اور نہر سوئز بنانے میں ان کا اہم رول رہا ہے ۔


 8- 1882ء میں روس میں یہودیوں کے قتل عام کے بعد صہیونیت نے اور شدت اختیارکرلی اسی زمانہ میں ہیکلر جرمانی Haikler Germani نے  " إرجاع اليهود إلى فلسطين حسب أقوال الأنبياء ‘ ‘ کے نام سے کتاب شائع کی ۔

موجودہ صہیونیت اور سازشیں 

 موجودہ بین الاقوامی صہیونیت یہودی صحافی تھیوڈر ہرٹزل کی طرف منسوب ہے اس کا واضح بنیادی مقصد فلسطین میں اسرائیلی حکومت کے ذریعہ پوری دنیا کی قیادت یہودیوں کو سونپنا ہے ، ہرٹزل کی ہدایت پر ایک یہودی وفد نے اس سلسلے میں عثمانی بادشاہ سلطان عبدالحمید سے دو بار گفتگو کی اور کہا :۔ اگر آپ بیت المقدس اور فلسطین ہمیں دیدیں گے تو ہم خلافت عثمانیہ کا سارا قرضہ اتار دیں گے اور مزید کئی ٹن سونا بھی دیں گے ۔ ( اس وقت ترکی کی مالی حالت خستہ ہوچکی تھی اور حکومت بھی مقروض تھی )


سلطان عبدالحمید کا جواب


 لیکن غیرت مند سلطان عبدالحمید نے یہودیوں کو ایک بالشت بھی زمین دینے سے انکار کردیا ، اور ایسا جواب دیا ہے جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی ، غیورخلیفہ نے پاؤں کی انگلی سے زمین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا :۔ "اگر اپنی ساری دولت دیگرتم لوگ بیت المقدس کی ذرا سی مٹی بھی مانگو گے تو ہم نہیں دیں گے "۔ 

اس وفد کا سربراہ ایک ترکی یہودی قرہ صوہ آفندی تھا اور 1909ء میں انقلاب کے بعد جوشخص مصطفی کمال پاشا کی طرف سے خلافت عثمانیہ کے خاتمے کا پروانہ لے کر خلیفہ عبدالحمید کے پاس گیا تھا، وہ کوئی اور نہیں ، بلکہ یہی یہودی قرہ صوہ آفندی ہی تھا ۔ 


خلافت عثمانیہ کے خلاف سازشوں کا آغاز اور خلافت کا سقوط


اس کے بعد یہودیوں نے سلطان عبدالحمید کو اقتدار سے بے دخل کرنے اور خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے کی سازشیں شروع کردیں ، آخر کار یہودی سازشوں کی وجہ سے 1924 ء میں خلافت عثمانیہ کا سقوط ہوا اور ترک عثمانیوں کا اقتدار ختم ہوگیا اور نوجوان ترکوں کا زمانہ شروع ہو گیا ۔ بین الاقوامی صہیونی لیڈر سلیمان منصور نے اپنے ایک خفیہ مراسلے میں لکھا کہ :۔ ہم نے فلسطین میں ( جوترکوں کی عملداری میں ہے ) تھوڑی سی زمین خریدنے کے لیے سلطان عبد الحمید کو منہ مانگی قیمت کی پیش کش کی تھی لیکن وہ نہیں مانے اور ہمارے آدمیوں کو بے عزت کر کے اپنے دربار سے نکال دیا ، لیکن آپ یقین رکھئے ہم اس سرکش حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اور ترکوں کو ایسی سزا دیں گے کہ ان کا حال اس سے بدتر ہوگا جو ریڈ انڈین لوگوں کا امریکہ میں ہوا ہے ۔ " عالمی سازشوں پر نظر رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ کس طرح ترکی میں اتحاد و ترقی انجمن Committee Of Union & Progress قائم ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے بہٹ الاقوامی صہیونیت نے پس پر رہ کر اپنی خفیہ تنظیم فری میسن کے ذریعے سلطنت عثمانیہ کو پارہ پارہ کر دیا اور یونینسٹ پارٹی جو نوجوان ترک (Young Turks) کے نام سے بھی مشہور ہیں فری میسنری مصطفی کمال اتاترک کی قیادت میں اسلام پسندوں پر جو مظالم ڈھائے  وہ تاریخ کے ادنی سے جانکار سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں, 


مصر میں سازشیں اور صہیونی منصوبے

مصر میں بھی یہی صہیونی منصوبہ روبہ عمل لایا گیا اور برطانوی انٹیلی جینس اور امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے CIA ( جس میں بنیادی اور کلیدی کردار صہیونی ادا کرتے ہیں ) کے ذریعہ شاہ فاروق کی حکومت ختم کر کے ناصر کو برسر اقتدار لایا گیا جس نے نہ صرف مصر میں فکر اسلامی کا استعمال کیا ، بلکہ پورے خطے کو بے دین کی سمت دھکیلنے میں اہم رول ادا کیا ۔ ناصر بھی فری میسنری تھا اسے بات پر ناز تھا کہ وہ فرعون کی اولاد ہے ۔ 

یہودی جس ملک میں بھی گئے وہاں انہوں نے اپنی قومی خصوصیات کا مظاہرہ کیا ۔ دینی بے راہ روی ، اخلاقی انحراف اور انسانیت سوز بیماریوں کو عام کیا اور ملک میں بغاوتیں اور سوشیں برپا کیں ، اسی وجہ سے ہر جگہ سے نکالے گئے ، روم اور روس کا زوال یہودیوں کی سازشوں سے ہوا, فرانسیسی انقلاب کے بعد یورپی ممالک میں جہاں بھی انقلاب اور بغاوت ہوئی اس میں صہیونیت کا پورا پورا ہاتھ رہا , علی امام علطیہ نے الصہیونیۃ وارض المعاد میں لکھا ہے کہ رومن امپائر کا سقوط وزوال ملک کے کاروبار اور انتظام وانصرام میں صہیونیوں کی مداخلت کی وجہ سے ہوا ، رومن امپائر کے سقوط کے بعد یہودی پورے یورپ خصوصا برطانیہ فرانس اور جرمنی میں پھیل گئے انہوں نے ہر جگہ اپنا اثر ونفوز قائم کرنے کی کوشش کی ۔


 باسل کانفرنس اور چار نکاتی پروگرام 


 1897 ء میں سوئٹزرلینڈ Switzerland کے شہر " باسل Basel میں ہرٹزل نے ایک عالمی کانفرنس منعقدکی ، جس میں تین سو یہودی دانشوروں, مفکروں,  فلسفیوں,  اور یہودی مدبرین نے ہرٹزل کی قیادت میں جمع ہوکر پوری دنیا پرحکمرانی کا منصوبہ بنایا ، یہ منصوبہ چوبیس پروٹوکول کی صورت میں منظر عام پر آچکا ہے ، اس منصوبہ کو یہودی دانشوروں کی دستاویز بھی کہتے ہیں ، اس پلان کی تیاری میں پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ریس یہودی تنظیموں کے ذہین ترین ارکان نے حصہ لیا تھا ، اس کانفرنس کے بعد یہودیوں نے اپنی انجمنوں کو اور مستحکم کیا اور انتہائی چالاکی ، عیاری اور راز دارانہ خفیہ طریقہ پر اپنے تخریبی مقاصد کی تکمیل کے لیے کارروائیاں شروع کردیں ، غیر معمولی ذہانت سے مختلف خانوں میں رنگ بھرنا شروع کردیا ، سب سے پہلے انہوں نے ذرائع ابلاغ کا سہارا لے کر تمام دنیا کی نظروں میں اپنی خصوصیات ، ذلت و خواری ، بدطینتی ، حرص ولالچ ، قساوت قلبی ، شر پسندی ، انسانیت دشمنی کو بدلنے ، اپنے کو مظلوم ثابت کرنے اور اپنی تمام قومی خصوصیات کو عربوں کے سرمنڈھنے کی بھر پور کوشش کی ، اور اقتصادی میدانوں میں ان کی زبردست کامیابیوں نے انہیں اپنی منزل سے قریب کر دیا ، اور ان کا وطن عالم عربی کے قلب فلسطین میں قائم ہو گیا ۔

 باسل کانفرنس میں اس یہودی منصوبے کی تکمیل کے لیے چار نکاتی پروگرام بنایا گیا ( 1 ) فلسطین میں ہر ممکن طریقہ سے یہودی کسانوں ، کاشتکاروں مزدوروں اور تاجروں کو بسایا جائے ( 2 ) مختلف ملکوں میں عالمی اور مقامی انجمنوں کے ذریعہ تمام دنیا کے یہودیوں کو متحد و منظم کیا جائے ۔ ( 3 ) اگر ضرورت پڑے تو گفتگو کے ذریعہ حکومتوں کو صہیونی مقاصد سے مطمئن کرنے کے لیے جمہوری اقدامات کیے جائیں او فلسطین میں اسرائیلی وجود تسلیم کرانے کے لیے کوششیں کی جائیں ۔ (4 ) یہودیوں میں قومی شعور کو بڑھایا جائے ۔


بالفور معاہدہ 

 صہیونیوں نے ترکی ، جرمنی اور برطانیہ سے یہودیوں کے لیے الگ وطن بنانے کی متعدد بار گفتگو کی لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی ، یہاں تک کہ وہ 1917 ء میں  اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوگئے ، جب 2 نومبر 1917 میں بالفور معاہدہ Balfour Declaration ہوا,  اس معاہدہ میں برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور Anther Balfouer اور مارکس سایکس Marks Sykes نے اہم رول ادا کیا اور مارکس سایکس نے وزارت خارجہ کو صہیونیت کا ہم خیال بنالیا ۔ ( بحوالہ : Encyclopaedia Britannica )


 صہیونی مراکز

 صہیونیوں نے پوری دنیا میں دینی تطہیر ، نفسیاتی تربیت اور جسمانی ورزش کے مراکز قائم کیے ہیں ، جو حاخاسرا HARKHASRA کہلاتے ہیں ، جو یہودی ایک بار اس میں داخل ہوجائے اس کا اپنے اوپر اختیار ختم ہوجاتا ہے ، اور وہ اس تنظیم کی ملکیت بن جاتاہے ۔ اور اسرائیل کا وفادار ہونا پڑتا ہے ، اور اس کے بعد وہ اپنا سب کچھ قربان کر کے اس گروہ میں شامل ہو جاتا ہے ، جو عرف عام میں ہالٹزیم Halutzeems کہلاتا ہے ۔ یہ گروه اسرائیل کے لیے جاسوسی اور تخریب کاری کرتا ہے ، اور مسلم ملکوں میں بد امنی پھیلاتا ہے ، دعوت اسلام کی تمام کوششوں کو بالواسطہ یا بلا واسطہ ناکام بنانے کی کوشش کرتا ہے تعلیمی اداروں میں کام کرنے کے علاوہ یہ گروہ اسلامی ممالک کے حفاظتی نظام میں بھی نقب لگاتا ہے. 

 نوٹ - اگلے حصے میں ہم صہیونیت کے عقائد و مقاصد کے بارے میں سیر حاصل بحث کریں گے 

تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی