مغرب کے تسلط کا رونا ہم میں سے ہر شخص روتا ہے ، مغرب کی بالا دستی کا ماتم ہم میں سے ہر شخص کرتا ہے مغرب کی اجارہ داری سے بیزار ہم میں سے ہر شخص نظر آتا ہے ، لیکن افسوں کہ نہیں روتا تو اپنی بے مائیگی پر، نہیں ماتم کرتا تو اپنی غلامی پر، نہیں بیزار نظر آتا تو پے در پے اپنی رسوائیوں سے ، وہ آج کا مغرب دیکھتا ہے پست ہمتی میں مبتلا ہوتا ہے ، احساس کمتری کا شکار ہوتا ہے ، مایوسی کی اندھیری وادیوں میں ڈوبتا چلا جاتا ہے لیکن افسوس کہ وہ کل کا مشرق نہیں دیکھتا ، چمکتا دمکتا ہوا ، روشنی بکھیرتا ہوا ، کاش کہ ایک نظر ادھر بھی ڈال لیتا امیدوں کی قندیلیں روشن ہو جاتیں اور مایوسی کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں امید کا سورج جگمگانے لگتا ۔ ہم کل کیا تھے ، ہم خود ہی نہیں جانتے ، ہمارے بچے نہیں جانتے اور بچے کیا جانیں گے جب ان کے ماں باپ ہی نہیں جانتے ، جب کہ کل کا دن ابھی کل ہی گزرا ہے ، مہک اس کی ابھی باقی ہے ، تازگی اس کی ابھی برقرار ہے ، آہٹ اس کی آج بھی محسوس ہوتی ہے ۔ اورمحسوس کیا ، سنائی دیتی ہے ، خیر جانے دیجیے اس نسل کو جو بھی دنیا میں نہیں آئی ، آپ اپنی بات کیجٸے ، اپنے دور کی بات کیجیے ، کیا آپ کو یقین آٸے گا اپنے اس کل پر جس میں ہم فلکیات ، سائنس ، کیمیا اور طب میں پورے یورپ کے استاد تھے ، اس " کل " میں امام رازی کی طب پر لکھی ہوٸی کتاب نقرس، پتھری، مثانہ،گردے اور بچوں کے امراض میں آج بھی مرجع بنی ہوٸی ہے۔
اب یورپ کا کل بھی دیکھٸے، کیا آپ کو یقین آۓ گا یورپ کے اس کل پر جس میں نہ علم تھا نہ ہنر نہ تہذیب تھی نہ صنعت پورا یورپ مادی ، ادبی ، تہذیبی ، علمی ، لحاظ سے پسماندہ تھا جہاں نہ کوٸی لکھنا جانتا تھا اور نہ کوٸی پڑھنا، جہاں صرف ایک لاٸبریری تھی وہ لاٸبریری ہی کیا تھی ایک تختہ تھا جس پر کل ایک رکھی تھی وہ کسی انگریز مصنف کی نہیں بلکہ ایک مسلمان عربی کی ۔
لیکن حالیہ بیتی کچھ صدیوں میں جس طرح کی ترقی مغرب نے کی ہے وہ اچھے اچھے عقل مندوں کی نیند اڑانے کے لیے کافی ہے۔ہر میدان میں ، چاہے وہ ساٸنس اور ٹیکنالوجی کا میدان ہو یا پھر حکومت و سیاست کا میدان۔ مگر اس کے پیچھے کیا عوامل و وسائل کار فرما رہے ہیں انہیں جاننا ہمارے لٸے بے حد ضروری ہے۔
مغرب نے پوری دنیا کے اندر ترقی کی راہ ہموار کرنے کے لٸے اور اپنے مقاصد کو بروۓ کار لانے کے لٸے چار طرح کے وساٸل کو اختیار کیا 1
عیساٸی مشنری 2 استشراق 3 صہیونی تحریک 4 فری میسن کلب
ان چاروں طرح کے وسائل کو جاننا ہمار لٸے بے حد ضروری ہے جنہیں ہم قسط وار بیان کریں گے اس تحریر میں ہم بات کرتے ہیں عیساٸی مشنری اس کے آغاز اور اس کے طریقہ کار کے بارے میں ۔
عیسائی مشنری
عیسائی مشنری دینی ، سیاسی اور استعماری تحریک ہے جو تیرہویں صدی عیسوی میں صلیبی جنگوں میں شکست کے بعد وجود میں آئی جس کا مقصد دنیا کی مختلف قوموں خصوصا مسلمانوں میں عیسائی مذہب کی تبلیغ و اشاعت کے ذریعے پوری دنیا پرکنٹرول اورغلبہ حاصل کرنا قرار پایا ۔ اسی وجہ سے مغربی سامراج نے عیسائیت کی تبلیغ و اشاعت کی ہمت افزائی کی، مشنریوں کو ہرممکن سہولت بہم پہونچاٸی ، اور ان کو بہت سے اختیارات دیدیے تا کہ وہ آسانی کے ساتھ مقامی عقاٸد اورقومی و وطنی تہذیب و ثقافت کے خلاف اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں ۔
آغاز ، پس منظر ،اور کلیدی شخصیات
ریمن لل پہلا شخص ہے جس نے صلیبی جنگوں میں شکست کے بعد عیسائی مشنری کی داغ بیل ڈالی ، ریمن نے بڑی جدوجہد سے عربی زبان سیکھی ، اس کے بعد شام کے مختلف علاقوں میں مسلم علماء سے مباحثے اور مناظرے کرتا رہا ۔ پیٹر ہیلنگ Peter Holings نے افریقہ کے ساحلی علاقوں میں کام کیا ، اور مسلمانوں کے اندر رہ کر نصرانیت کی تبلیغ کی ،
ہارون ژوپڑی نے 1664 ء میں عیسائی مشنری کی تعلیم کے لیے ایک کالج قائم کیا بہ ادارہ حقیقت میں مشنری سرگرمیوں کا مرکز تھا ، یہاں عیسائی مبلغین کو تیار کیا جاتا ، اور پھر انہیں مختلف علاقوں میں بھیج دیا جاتا ۔ اٹھارویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کے اوائل میں مسٹر کاری سرگرم مشتری کی حیثیت سے منصہ شہود پر آیا ، اس نے مشنری مشن کو مزید تقویت پہونچائی اور اس کے کاز کو منظم کیا
Read More
حلال و حرام کی تعریف اور اسلام میں حلال و حرام کے اصول و ضوابط
١٨٥٥ ء میں نوجوان نسل میں نصرانیت کو فروغ دینے کے لیے شام میں ایک انجمن قائم ہوئی جس میں امریکہ اور برطانیہ کے عیسائی نو جوان شریک ہوئے ۔ عیسائی مشنری نے اسلامی ملکوں میں تعلیمی اور رفاہی ادارے قائم کرنے کی اسکیم تیار کی تا کہ ان اداروں کے ذرایہ آنے والی نسلوں کا باآسانی شکار کیا جا سکے ، سب سے پہلے یہ رائے ڈینیل بس Danial Bliss اور ڈاکٹر ولیم نامس Wiliam Tomsoc نے دی تھی ، ان دونوں نے ١٨٦١ میں مسلم ملکوں میں تعلیمی ادارے اور اسکول قائم کرنے کے بارے میں غور و خوض کیا تاکہ بیک وقت خود مسلمانوں میں سے عیسائیت کے مبلغ اور داعی تیار کیے جاسکیں ، اور بڑی تعداد میں لوگوں کو متاثر بھی کیا جا سکے ، ان دونوں کا اس بات پر اصرار تھا کہ ان اسکولوں اور کالجوں میں تمام اساتذہ عیسائی مشنری ہی رکھے جائیں ، چنانچہ ان کی تجویز اور رائے کے مطابق ترکی ، شام ، مصر ، لبنان ، الجزائر اور عراق میں علمی ادارے اور اسکول کھولے گئے ، اور ان اداروں کی طرف لوگوں کا زبردست رجحان ہوا ، عیساٸی مشنری کی زیادہ تر توجہ بڑے گھرانوں اور اعلی طبقے کی طرف تھی اس لٸے کہ ملک کے حکمران اور رہنما انہیں گھرانوں میں تیار ہوتے ہیں
صموئیل زویمر یہ بحرین میں مشنری کاز کا صدرتھا ، بعد میں شرق اوسط میں سرگرم عمل عیساٸی مشنریوں کا صدر منتخب ہوا ۔ صموٸیل زریمر نے ١٩١١ میں انگریزی رسالہ العالم الاسلامی جاری کیا ، جس نے اسلام اور مسلمانوں کی گمراہ کن تصویر پیش کی، موجودہ زمانہ میں زویمر نصرانیت کا سب سے بڑا مبلغ اور داعی سمجھا جاتا ہے ۔
زویمر نے العالم الاسلامی ‘ نامی جو مجلہ جاری کیا اس کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کے متعلق ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنا ، اسلامی عقائد و مسلمات کی غلط شبیہ پیش کرنا ، مسلمانوں کی نئی نسل کو ان کے دین سے تنفر و بیزار کرنا قرآن و حدیث پر مسلمانوں کے اعتماد کو کمزور کرنا اور عیسائیت کی دعوت دینا تھا اس مجلہ کے بنیادی موضوعات اسلام ، نبی کریم صلی اللہ ، دنیا میں مسلمانوں کے حالات قرآن وحدیث ، عیسائی مشنری سرگرمیاں ، کتاب مقدس ( انجییل ) اور مسلم خواتین تھے۔ جس پر یہ مجلہ زہر افشانی کرتا رہتا تھا۔
عیساٸی مشنریز کا طریقہ کار
مشنریوں نے نصرانیت کے فروغ واشاعت میں تعلیم کے ذریعہ کو بڑی اہمیت دی ، اور مسلم نوجوانوں کے ذہن و دماغ اور قلب و نظر کو تعلیم کے ذریعہ بدلنے پر زویمر ۱۹۲۳ ء میں ہونے والی مشنری کانفرنس میں اپنی رپورٹ پیش کرتے کہا تھا: یہ ضروری ہے کہ ہر میدان میں ساری توجہ مسلمانوں کی نئی نسل پردی جائے تا کہ ان کا احاطہ کیا جا سکے ، اور براہ راست اس سے رابطہ قائم رہے ، اس لیے کہ نئی نسل میں اسلامی روح کی روشنی پچپن ہی سے شروع ہو جاتی ہے ، لہذا اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کی چھوٹی نسل کا شعور پختہ ہونے سے پہلے اس پر بھر پور توجہ دی جائے
‘ ‘ امریکی Takle کہتا ہے ضروری ہے کہ ہم اسکول قائم کرنے کی ہمت افزائی کریں ، خصوصا مغربی تعلیم پر بھار ہیں ، کیونکہ بہت سے مسلمان ایسے ہیں کہ صرف انگریزی زبان سیکھنے سے ان کا ایمان و اعتقاد کمزور پڑ گیا ، اس لیے کہ ہمارے نصاب کی کتا بیں پڑھنے کے بعد کسی مذہبی مقدس کتاب پر ایمان رکھنا آسان نہیں رہتا"
عیساٸی مبلغہ اناملی گن کہتی ہے :
" اسلام کے قلعے تک پہونچنے کا راستہ تعلیم سے مختصر اور کوٸی راستہ نہیں ہو سکتا"
عقائد وافکار اور افتراپردازیاں
مذکورہ بالا بیانات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ عیسائی مشنری نے سامراجی اغراض ومقاصد کے حصول کے لیے علم کو بنیادی ذریعہ بنایا ، ایسا نظام تعلیم وتربیت بنایا جس کی بنیاد ایک طرف خالص علمی اور عقیدہ ، اخلاق اور انسانی قدروں سے خالی تھی۔ تو دوسری طرف اس کی بنیاد قدیم سے بغاوت پر تھی ، چنانچہ اس نظام تعلیم کے اثر سے ایک ایسی نسل وجود میں آئی جو روحانیت سے خالی تھی اور اپنے اسلاف کی میراث کی باغی تھی، یعنی اسلامی تہذیب وتمدن ، اقداروروایات ، عقائد اور اسلامی طرز حیات کی باغی تھی ۔ اس حقیقت کا اعتراف خود مشنریز نے کیا ہے۔
مشنری کی اہم کانفرنسیں
عیسائی مشنریاں سال بھر کی سرگرمیوں اور کارگزاریوں کا جائزہ لینے اور اس کی روشنی میں آئندہ کی حکمت عملی اختیار کرنے کے لیے عالمی سطح پر کانفرنسیں منعقد کرتی ہیں ، جن میں دنیا کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے نمائندے اپنے اپنے دائرہ کے علاقوں میں نصرانیت کی اشاعت تبلیغ کی پیش رفت کے متعلق رپورٹیں پیش کرتے ہیں ، طویل تجربہ رکھنے والے مشنری پوری دنیا میں نصرانیت کی اشاعت و ترویج کے نئے نئے منصوبے پیش کرتے ہیں .
سب سے پہلی کانفرنس قاہرہ میں ۱۹۰۹ ء میں منعقد ہوئی ، اس کا کنویز صموئیل زویمر تھا ، اس میں تمام پروٹسٹنٹ عیسائی مشنریاں شریک ہوئیں ، اس کا مرکزی موضوع یہ تھا کہ مسلمانوں کے اندر انجیل کس طرح عام کی جاۓ۔ ١٩١١ میں لکھنٶ ، ١٩١٢ میں بیروت ، ١٩٧٤ میں سوٸزر لینڈ میں کانفرنس منعقد ہوتی رہیں۔
عیساٸی مشنری کے اہم مراکز
عیساٸی مشنری کے اہم ترین وسائل میں تعلیم ، طب ، امداد، اور رفاہی خدمات ہیں مشنری جس علاقے میں جاتے ہیں وہاں سب سے پہلے تعلیمی ادارے اسکول اور ابتدائی تعلیمی مراکز قاٸم کرتے ہیں انکے بہت سے مشہور ادرے ہیں جیسے استنبول کا رابرٹ کالج ، بیروت کی امریکن یونیورسٹی ،لبنان کا جیرارڈ کالج قابل ذکر ہیں ۔
مشنری کا عالمی نیٹ ورک
پوری دنیا میں عیسائی مشنری کے اٹھارہ سو ( ۱۸۰۰ ) ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن قائم ہیں ، کلیسا سے وابستہ مشنریوں کے پاس تقریبا تیس لاکھ کمپیوٹر ہیں اور چار ہزار نیوز ایجنسیاں ہیں ۔
خلاصہ
اسلامی دنیا پر مشنری کا اثر
مشنری نے مفت علاج و معلاجہ ، تعلیم ، رفاہی ادارے ، حوادث و آفات کے متأثرین کی امداد و تعاون ، غزاٸی اجناس کی فراہمی کو آلہ کار بنایا خاص طور پر طبابت کے ذرائع کو اپنانے میں ہر ممکن کوشش کی ۔ جس تازہ مثال ہے کہ آج بھی کلینک اور نرسنگ ہوم فلسطین غزہ شام مصر افریقہ سوڈان جیسے ملکوں میں سرگرم عمل ہیں اور لاکهوں لوگوں کے دلوں کو مغرب کی تعلیمات کے لٸے تیار کر رہے ہیں ۔ عیساٸی مشنریز نے عالم اسلام میں بہت گہرے اثرات ثبت کیۓ ہیں جو نٸی نسل کے ایمان کو خطرے میں ڈالنے کا کام انجام دے رہے ہیں ہمیں اپنے بچوں کو اس طرح کی تعلیم سے دور رکھنا ہوگا۔
ایک تبصرہ شائع کریں
تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں