*ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ* سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : *"لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقْبَضَ الْعِلْمُ، وَتَكْثُرَ الزَّلَازِلُ، وَيَتَقَارَبَ الزَّمَانُ، وَتَظْهَرَ الْفِتَنُ، وَيَكْثُرَ الْهَرْجُ، وَهُوَ الْقَتْلُ الْقَتْلُ، حَتَّى يَكْثُرَ فِيكُمُ الْمَالُ فَيَفِيضَ "* کہ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک کہ علم دین نہ اٹھ جائے گا اور زلزلوں کی کثرت نہ ہو جائے گی اور زمانہ جلدی جلدی نہ گزرے گا اور فتنے فساد پھوٹ پڑیں گے اور «هرج» کی کثرت ہو جائے گی اور «هرج» سے مراد قتل ہے، اور تمہارے درمیان مال و دولت کی اتنی کثرت ہو گی کہ وہ ابل پڑے گا *(صحیح بخاری : 1036)* 

Qyamat ki nishani
Fb. Com

 *قارئین کرام!* اس سے پہلے کے دروس میں ہم نے قیامت کے تعلق سے بعض بنیادی باتوں کو جان لیا ہے إن شاء اللہ آج سے ہم *أشراط الساعة* پہ دروس شروع کریں گے.


أشراط الساعة کی تشریح 


 *أشْرَاطٌ* شَرَطٌ کی جمع ہے جس کے معنی علامت یا نشانی کے آتے ہیں اسی سے *أشراط الشئ* کہتے ہیں کسی بھی چیز کے پہلے اور اگلے حصہ کو، اسی طرح *شُرَطُ السلطان* کہتے ہیں  بادشاہ کے وہ فوجی اور پولیس جو اس کے آنے سے پہلے آتے ہیں *[لسان العرب (٧/٣٢٩) النهاية لابن الأثير (٢/٤٦٠)]* جیساکہ أشراط کا لفظ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں استعمال کیا ہے فرمان باری تعالیٰ ہے : *{فَهَلۡ یَنظُرُونَ إِلَّا ٱلسَّاعَةَ أَن تَأۡتِیَهُم بَغۡتَةࣰۖ فَقَدۡ جَاۤءَ أَشۡرَاطُهَاۚ}* تو کیا یہ قیامت کا انتظار کر رہے ہیں کہ وه ان کے پاس اچانک آجائے یقیناً اس کی علامتیں تو آچکی ہیں *(سورة محمد :١٨)*. *بعض علماء کرام* نے أشراط کو آیات اور أمارات سے بھی تعبیر کیا ہے جس کے معنی بھی نشانیوں کے آتے ہیں .

Read More 

علامات قیامت حصہ اول اہم معلومات 

 

ڈاکٹر راحت اندوری:اردو ادب کے ایک بے باک اور خود رنگ شاعر

لغت میں *الساعة:* رات یا دن کے کسی بھی حصہ کو کہتے ہیں، *شرعی اصطلاح* میں الساعة سے مراد وہ وقت ہے جس میں قیامت قائم ہوگی اور تمام مخلوقات فنا ہو جائیں گے. قیامت کو *الساعة* اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ دن یا رات کے کسی بھی لمحہ اچانک واقع ہوگی اور ساری مخلوق بیک وقت ایک ہی چیخ سے ہلاک  ہوجائے گی دیکھئے : *[غريب الحديث لابن الأثير (460/2)]*. 


اس طرح *أشراط الساعة* کے معنی ہوئے قیامت کی علامتیں *شرعی اصطلاح* میں اس سے مراد وہ حوادث و واقعات ہیں جس کے بارے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے بتلایا ہے کہ وہ آخری زمانے میں قیامت سے پہلے پیش آئیں گے، جو قیامت کی قربت و نزدیکی یا اس کے قائم ہونے پر دلالت کریں گے. دیکھئے : *[فتح الباري (١٣/٣٥٢)]*.

 

علاماتِ قیامت کی قسمیں


قرآن و سنت میں قیامت کی جو نشانیاں ذکر کی گئ ہیں علماء کرام نے ان کی دو قسمیں بیان کی ہیں : چھوٹی علامتیں، بڑی علامتیں. 


 *١) چھوٹی علامتیں :* جو اس بات کی علامت ہوتی ہیں کہ قیامت بہت ہی قریب ہے، اِن کی تین قسمیں ہیں : (ا) وہ چھوٹی علامتیں جو واقع بھی ہوئیں اور ختم بھی ہوگئیں یعنی وقوع قیامت سے بہت پہلے کی علامتیں ہیں جیسے : نبی کریمﷺ کی بعثت، آپ ﷺ کی وفات اور چاند کا دو ٹکڑے ہونا وغیرہ بعض علماء کرام نے انہیں علاماتِ صغری بعیدہ سے تعبیر کیا ہے.


(ب) وہ چھوٹی علامتیں جو ظاہر ہوچکی ہیں اور ان کا سلسلہ ابھی جاری ہے اور بار بار واقع ہوتی رہیں گی جیسے : فتنوں کا رونما ہونا اور قتل و غارت گری کا بڑھ جانا، ننگے پیر، ننگے بدن، محتاج اور بکریوں کے چرواہوں کا اونچی اونچی عمارتیں بنانے میں فخر و مباہات کرنا وغیرہ بعض علماء کرام نے انہیں علاماتِ متوسطہ سے تعبیر کیا ہے.


(ج) وہ چھوٹی علامتیں جو ابھی ظاہر نہیں ہوئیں جیسے : جانوروں اور جمادات کا انسان سے بات کرنا، دریائے فرات سے سونے کے پہاڑ کا نکلنا اور انتفاخ الأھِلَّہ یعنی مہینہ کی پہلی شب کا چاند کا موٹا دکھائی دینا وغیرہ.


 *٢)بڑی علامتیں :* وہ دس علامتیں ہیں جن کا ذکر حذیفہ بن أسيد الغفاري کی حدیث میں موجود ہے *(صحيح مسلم باب في الآيات التي تكون قبل الساعة )* جو اس بات کی علامت ہوتی ہیں کہ ان کے فوراً بعد قیامت قائم ہونے والی ہے جیسے : دجال کا نکلنا، عیسی علیہ السلام کا نازل ہونا اور یاجوج وماجوج کا ظاہر ہونا وغیرہ. دیکھئے : *[أشراط الساعة ندا أبو أحمد (ص:٣٨)]*. 


 *بعض علماء کرام* نے تمام علامتوں کو ظاہر ہونے کے اعتبار سے تین قسموں میں تقسیم کیا ہے:


 ١) وہ علامتیں جو ظاہر بھی ہوئیں اور ختم بھی ہوگئیں. 


٢) وہ علامتیں جو ظاہر ہوچکی ہیں اور اب تک باقی ہیں اور دن بدن بڑھ رہے ہیں . 


٣) وہ علامتیں جو ابھی ظاہر نہیں ہوئیں بلکہ قیامت کے بالکل قریب ظاہر ہوں گی اور ان کے ظاہر ہونے کے بعد بہت جلد قیامت قائم ہوجائے گی. دیکھئے : *[صحيح أشراط الساعة لأبي النصر مصطفى الشبلي (ص : ٢٢)].*


*(1) پہلی علامت : بعثتِ نبوی* *سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ* فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے اپنی شہادت کی انگلی اور درمیان کی انگلی کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا *:" بُعِثْتُ وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ "* میری بعثت قیامت سے اتنی قریب ہے جیسے  یہ دونوں انگلیاں ملی ہوئی ہیں *(صحیح بخاری : ٤٩٣٦).* 


*قارئین کرام!* مذکورہ حدیث بہت ہی عظیم حدیث ہے اسی معنی میں کئ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے احادیث مروی ہیں جس میں نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو اس بات سے آگاہ فرمایا ہے کہ آپﷺ کی بعثت قرب قیامت کی دلیل اور نشانی ہے، اسی طرح آپ آخری رسول اور نبی ہیں،آپ کی امت آخری امت ہے، آپ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا : *(مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَاۤ أَحَدࣲ مِّن رِّجَالِكُمۡ وَلَـٰكِن رَّسُولَ ٱللَّهِ وَخَاتَمَ ٱلنَّبِیِّـۧنَۗ وَكَانَ ٱللَّهُ بِكُلِّ شَیۡءٍ عَلِیمࣰا)* (لوگو) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ محمد ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ نہیں لیکن آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے ختم کرنے والے، اور اللہ تعالی ہر چیز کا (بخوبی) جاننے واﻻ ہے *(سورة الأحزاب :٤٠).* جیساکہ اللہ کے نبیﷺ نے کہا : *"أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي"* میں خاتم النبین ہوں میرے بعد کوئی ( دوسرا ) نبی نہیں ہو گا“ *(سنن ترمذي :٢٢١٩)۔*


 علماء کرام کا کہنا ہے کہ آپ ﷺ کی بعثت قیامت کی چھوٹی نشانیوں میں سے سب سے پہلی نشانی ہے جیساکہ رسول اکرم ﷺ نے ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا : *"بُعِثْتُ فِيْ نَسَمِ السَاعَةِ"* "مجھے قیامت کے آغاز میں بھیجا گیا ہے " *[الكنى للحاكم بحوالہ سلسلۃ الأحاديث الصحيحة ح/٨٠٨ عن أبي جبيرة]*.


امام قرطبی رحمہ اللہ* فرماتے ہیں کہ :"قیامت کی پہلی نشانی نبی کریم ﷺ کا تشریف لانا ہے کیونکہ آپﷺ نبی آخر الزماں ہیں آپ کے اور قیامت کے درمیان کوئی نبی آنے والا نہیں " *[التذكرة للقرطبي ص / ١١١].* 


حديث میں موجود لفظ *"آپ ﷺ نے اپنی شہادت اور بیچ کی انگلی کو ملایا یا ان سے اشارہ کیا"* کے علماء کرام نے دو معنے بیان کئے ہیں :


١) مُجاورت و مُقاربت یعنی جس طرح شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کے درمیان کوئی اور انگلی نہیں ہے اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان کوئی نبی آنے والا نہیں ہے.


٢) آپﷺ کی بعثت اور قیامت کے قائم ہونے کے درمیان فاصلہ اتنا ہی کم ہے  جیساکہ درمیانی انگلی اور شہادت کی انگلی کے درمیان کم ہے *[شرح مسلم للنووي]*. 


*قارئین کرام!* بعض لوگوں کو یہ اشکال ہوتا ہے کہ کیسے قیامت کو قریب کہا گیا ہے حالانکہ اب تک تقریباً ١٤٠٠ سال گذر گئے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ قربت اور نزدیکی اللہ تعالیٰ کے پاس، اس کے علم میں اور تقدیر میں ہے نہ کہ انسانوں کے عقل و دماغ اور ان کے پیمانوں کے مطابق کیونکہ انہیں تو وہ دور ہی دکھائی دیتی ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : *{إِنَّهُمۡ یَرَوۡنَهُۥ بَعِیدࣰا ، وَنَرَىٰهُ قَرِیبࣰا}* بیشک یہ اس (عذاب) کو دور سمجھ رہے ہیں اور ہم اسے قریب ہی دیکھتے ہیں *(سورة المعارج : ٦،٧)* *[القيامة الصغرى لعمر الأشقر ( ص 115 )] .* 

مزید جانیں 

تعزیہ اور اس سے متعلق چند بدعات

دوسری علامت : وفاتِ نبوی


*عوف بن مالک رضی اللہ عنہ* فرماتے ہیں کہ غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ : قیامت سے پہلے چھ نشانیاں شمار کر لو پھر آپﷺ نے سب سے پہلے اپنی موت کا تذکرہ فرمایا پھر باقی پانچ علامتیں ذکر کی *(صحيح بخاری :٣١٧٦).*  

*قارئین کرام!*  یہ بہت ہی عظیم حدیث ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے اس حدیث میں قیامت کی علامتوں کا ذکر کرتے ہوئے اس میں سب سے پہلے اپنی موت کا ذکر فرمایا ہے. علماء کرام لکھتے ہیں کہ آپ ﷺ کی وفات قرب قیامت کی ابتدائی علامات میں سے ایک علامت ہے.


 واقعی آپ ﷺ کی وفات سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بہت بڑا دھچکا لگا *ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ* فرماتے ہیں کہ : "خبرِوفات کے بعد مسلمانوں کے جگر کٹ گئے، قدم لڑکھڑا گئے، چہرے بجھ گئے، آنکھیں خون بہانے لگیں، ارض وسماء سے خوف آنے لگا، سورج تاریک ہو گیا، آنسوبہہ رہے تھے اور نہیں تھمتے تھے، کئی صحابہ حیران وسرگردان ہو کر آبادیوں سے نکل گئے، کوئی جنگل کی طرف بھاگ گیا، جو بیٹھا تھا بیٹھا رہ گیا، جو کھڑا تھا اس کو بیٹھ جانے کا یارانہ ہوا، مسجد نبوی قیامت سے پہلے قیامت کا نمونہ پیش کر رہی تھی" *[انسانیت موت کے دروازے پر ]*.


 واقعی آپ ﷺ کی وفات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو پریشان کر گئ ان کے آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا ان کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور پیروں تلے زمین کھسک گئ، *انس بن مالک رضی اللہ عنہ* فرماتے ہیں کہ :" *لَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي دَخَلَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْمَدِينَةَ ؛ أَضَاءَ مِنْهَا كُلُّ شَيْءٍ، فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ ؛ أَظْلَمَ مِنْهَا كُلُّ شَيْءٍ، وَمَا نَفَضْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ الْأَيْدِي، وَإِنَّا لَفِي دَفْنِهِ حَتَّى أَنْكَرْنَا قُلُوبَنَا"* جب وہ دن ہوا جس میں رسول اللہ ﷺ (پہلے پہل) مدینہ میں داخل ہوئے تو اس کی ہر چیز پرنور ہو گئی، پھر جب وہ دن آیا جس میں آپ کی وفات ہوئی تو اس کی ہر چیز تاریک ہو گئی اور ابھی ہم نے آپ کے دفن سے ہاتھ بھی نہیں جھاڑے تھے کہ ہمارے دل بدل گئے *(سنن ترمذی :٣٦١٨).*


 *قارئین کرام!* واقعی آپ ﷺ کی وفات اہل اسلام کے لئے ایک بہت بڑا سانحہ تھا کیونکہ آپ کی وفات کے ساتھ ہی آسمان سے وحی کی آمد کا سلسلہ منقطع ہوگیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کا بہت غم تھا حدیث میں آتا ہے کہ *ابوبکر رضی اللہ عنہ* نے رسولﷺ کی وفات کے بعد *عمر رضی اللہ عنہ* سے کہا کہ ہمارے ساتھ *ام ایمن* کی ملاقات کے لئے چلو ہم ان سے ملیں گے جیسے رسولﷺ ان سے ملنے کو جایا کرتے تھے، جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ رونے لگیں، دونوں ساتھیوں نے کہا کہ تم کیوں روتی ہو؟ اللہ تبارك وتعالی کے پاس اپنے رسولﷺ کے لئے جو ہے وہ رسولﷺ کے لئے بہتر ہے، *ام ایمن رضی اللہ عنہا* نے کہا کہ میں اس لئے نہیں روتی کہ یہ بات نہیں جانتی بلکہ اس وجہ سے روتی ہوں کہ اب آسمان سے وحی کا آنا بند ہو گیا۔ ام ایمن کے اس کہنے سے ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کو بھی رونا آگیا پس وہ بھی ان کے ساتھ رونے لگے *(صحیح مسلم :٦٣١٨)*.


 *قارئین کرام!* واقعی نبی کریم ﷺ کی وفات امت کے لئے ایک بہت بڑا سانحہ تھا کیونکہ آپ کی وفات کے بعد جو نت نئے فتنوں نے جنم لیا ان کا سلسلہ اب تک بھی نہ تھما ایک طرف  فتنہ ارتداد نے سر اٹھایا تو دوسری طرف مانعین زکاۃ نے پھر دیکھتے ہی دیکھتے خوارج، معتزلہ، جہمیہ، قدریہ اس طرح فتنوں کا یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا گیا اسی لئے *امام قرطبی رحمہ اللہ* فرماتے ہیں کہ: *"أول أمر دهم الإسلام موت النبي ﷺ ثم موت عمر رضي الله عنه"* "اسلام پر سب پہلی مصیبت و آفت نبی کریمﷺ کی موت ہے پھر عمر رضی اللہ عنہ کی موت ہے " *[التذكرة في أحوال الموتى وأمور الآخرة ص: ٧١٤ ].* غرض ایں کہ آپ ﷺ کی وفات قیامت ان چھوٹی علامتوں میں سے ایک علامت ہے جو واقع ہو چکی ہے اس کو علامات قیامت بعیدہ میں شمار کیا جاتا ہے 


 *نوٹ :* مزید علامتوں کا ذکر اگلے دروس میں آئیگا إن شاء الله تعالى

تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی