سوال : ماہ محرم میں تعزیہ بنانے، رکھنے اور اس کا طواف کرنے، اس کے لئے منتیں ماننے اور اس کے پاس ڈھول تاشے بجانے، یا حسین یا حسین پکارنے اور رونے دھونے اور سینے کوبی کرنے کی ادلہ شرعیہ کی روشنی میں کیا حیثیت ہے؟ 

Taziyadari


جواب: ادلہ شرعیہ کی روشنی میں یہ ساری چیزیں بدعات  میں سے ہیں، اور ان میں سے بہت سی چیزیں کفر تک پہونچانے والی ہیں، مثلاً: تعزیہ کے لئے نذر ونیاز ماننا اور چڑھاوا چڑھانا، اس میں موجود حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی نقلی قبر کا طواف کرنا، اس کو سجدے کرنا، اس سے اولاد وغیرہ مانگنا۔ 

Read More 

یوم عاشوراء اور روزے كي فضيلت و اہمیت احادیث کے آئینے میں

 

مستشرقین کسے کہتے ہیں : اقسام, طریقہ کار , اثرات اور علمی خدمات

اور کچھ چیزیں حرام اور موجب گناہ ہیں، جیسے صدیاں گزر جانے کے بعد بھی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر نوحہ و ماتم کرنا، گریبان پھاڑنا، منہ نوچنا، سینہ کوبی کرنا، چھوٹی چھوٹی چھریوں وغیرہ سے اپنے بدن کو زخمی کرنا، ننگے پاؤں آگ پر چلنا وغیرہ وغیرہ۔ 

 اسی طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے مخالفین کی لڑائی کی نقل اتارنا اور تلواروں اور لکڑیوں وغیرہ سے نقلی لڑائی لڑنا۔ 

 شیعہ کا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی جماعت کا نمائندہ بننا اور  سنیوں کو یزید کی جماعت کا نمائندہ بنانا، اور ان کا کردار ادا کرنا اور کرانا۔ 

 عشرۂ محرم میں ڈھول تاشے بجانا، میٹھے شربتوں کی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے نام پر  سبیلیں لگانا، سنیوں کا یوم عاشوراء کو ایک عید اور تہوار سمجھنا اور اچھے اچھے کپڑے پہننا اور دعوتیں کھانا اور کھلانا۔ 

 دسویں محرم  کو تعزیہ کو باجے گانے کے ساتھ لے جاکر کسی ندی یاتالاب وغیرہ میں ڈبودینا، یا توڑ پھوڑ کر پھینک دینا۔ 

 غرضیکہ تعزیہ اور اس کی مناسبت سے ماہ محرم میں اور خاص طور سے دسویں محرم کو جو اعمال عموما مسلمانوں میں رائج ہیں سب بدعات و خرافات میں سے ہیں، اور شریعت اسلامیہ سے ان کا کوئی تعلق اور ثبوت نہیں ،رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور ستّر کے قریب قراء اور دوسرے سیکڑوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوئے، مگر ان کی شہادت کی بنا پر آپ نے اور آپ کے بعد صحابہ کرام و تابعین عظام نے اس طرح کے اعمال نہیں کئے، اور سب کو صبر کی تلقین کی اور صبر  کے فضائل بتائے، اس واسطے مسلمانوں کو چاہئے کہ یہ تمام چیزیں ترک کر دیں اور خالص کتاب و سنت اور سلف صالحین کے منہج پر چلیں۔



قرآن سے تعزیہ داری کی تردید 


سوال : قرآن کریم سے  تعزیہ داری کی تردید میں کوئی دلیل بتائیے؟ 

جواب: تعزیہ داری کی تردید میں علماء کرام نے کئی آیتوں سے استدلال کیا ہے، مثلا آیت کریمہ: 

  ﴿قَالَ اَ تَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ  (95) وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ﴾(الصافات: 95-96.)  

 کیا تم اس چیز کی عبادت کرتے ہو جس کو تم خود تراشتے ہو، حالانکہ اللہ نے تم کو اور تمہارے اعمال کو پیدا کیا ہے۔ 

 اس سے استدلال کی صورت یہ ہے کہ تعزیہ پرست بھی بانس کی تیلیوں اور ابرق وغیرہ سے خود یہ تعزیہ تیار کرتے ہیں، پھر اس سے مرادیں مانگتے ہیں، اس پر چادر اور ریوڑی وغیرہ چڑھاتے ہیں، جھک جھک کر اس کی تعظیم کرتے، اس کا طواف کرتے، اس کے سامنے سجدے وغیرہ افعال عبادت کرتے ہیں، جس طرح بت پرست انسانوں کے بنائے ہوئے بےجان بتوں کی پوجا پاٹ کرتے ہیں، یہ بھی انسانوں کے بنائے ہوئے بےجان لکڑیوں وغیرہ کے ڈھانچے یعنی تعزیہ کی عبادت کرتے ہیں۔ 

 اسی طرح آیت کریمہ:  

 ﴿وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَضُرُّھُمْ وَلَا يَنْفَعُھُمْ وَيَقُوْلُوْنَ هٰٓؤُلَاۗءِ شُفَعَاۗؤُنَا عِنْدَ اللّٰهِ ۭ قُلْ اَتُنَبِّـــــُٔوْنَ اللّٰهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ ۭ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ﴾ (يونس: 18.) 

 اور یہ اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو ان کو نفع و نقصان نہیں پہونچا سکتے، اور کہتے ہیں کہ یہ ہماری سفارش اللہ کے پاس کریں گے، ( اے نبی ) ان سے کہہ دیجئے کہ اللہ کو وہ چیز بتاتے ہو جس کا وجود آسمان و زمین میں نہیں ہے، وہ پاک ہے اور ان لوگوں کے شرک سے اس کی ذات بالا تر ہے۔ 

 اس آیت میں اگرچہ مشرکین کا تذکرہ اور تردید ہے جو اپنے بزرگوں کی تصویروں، مورتیوں اور  قبروں وغیرہ کی پوجا کرتے تھے، مگر یہ تعزیہ پرستوں پر بھی صادق آتی ہے، کیونکہ یہ بھی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی نقلی قبر کی پرستش کرتے ہیں جو نہ نفع پہونچا سکتی ہے اور نہ نقصان،  یعنی ان میں سے اکثر لوگ ایمان لانے کے باوجود شرک کرتے ہیں۔ 

  کیونکہ یہ بھی ایمان کا دعوی کرتے ہوئے شرکیہ اعمال کرتے ہیں۔

نعمة المنان


تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی