فلسطین اسرائیل غزہ

اس وقت رمضان کے آخری عشرہ میں اچانک فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جنگ شروع ہوگئی اور اس جنگ پر پوری دنیاکی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ اور یہ فطری بات ہے کہ یہ جنگ مسلمانوں کے قبلہ اول کو لیکر ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں خاص طور سے مسلم نوجوانوں کی توجہ تو ہونا لازمی ہے۔ 

فلسطین اسرائیل اور حماس

2014 کی بات ہے جب میں اپنے اخبار کے دفتر میں بیٹھا تھا اچانک فلسطین سے اسرائیلی حملے کے تصویریں آنا شروع ہوگئیں۔ اس طرح کی ہیبت ناک اور دل دہلادینے والی تصویر کو دیکھ کر میری آنکھو سے آنسو جاری ہوگئے اور فلسطینیوں کی مظلومیت پر ترس آنے کے بجائے غصہ آنے لگا کہ آخر اسرائیل کا ظلم سہ کیوں رہے ہیں۔ اس کا کوئی حل تلاش کیوں نہیں کرتے آج کئی مسلم ممالک کے پاس طیارہ مار گرانے کی صلاحیت موجود ہے ان سے مدد لے کر اپنا تحفظ کر سکتے ہیں، لیکن مجھے اسرائیل اور فلسطین کے بارے ادنی سی بھی جانکاری نہیں تھی۔اس کے بعد سے فلسطین اور اسرائیل کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے مضامین اور کئی کتابوں کا مطالعہ کیا جس سے اسرائیل اور فلسطین کی صورت حال کھل کر سامنے آئی۔ اس کا خلاصہ آپ حضرات کے سامنے کرنا چاہتا ہوں۔

بیت المقدس

اقوام متحدہ نے 1948 کو فلسطین کی سرزمیں پر اسرائیل نامی ایک ملک یہودیوں کے دینے کی قرار داد پاس کردی مسلم ممالک نے اس کا پوری طاقت سے رد کیا لیکن امریکہ اور یورپ نے اسرائیل کو بسانے کی پوری مدد کی اور مہلک ہتھیار دیا جس سے اسرائیل اپنا دفاع کر سکے۔اسرائیل کی اپنے پڑوسی مسلم ممالک سے کئی جنگ ہوئی اور ہر جنگ میں مسلمانوں کی شکست ہوئی چونکہ اسرائیل کے ساتھ پورپ اور امریکہ علی الاعلان کھڑا تھا اور ہر طرح کی جنگی مدد کررہا تھا۔ ادھر مسلم ممالک خواب و خرگوش میں رسمی جنگ لڑرہے تھے۔ بالآخر ساتویں دہاکے بعد اکثر مسلم پڑوسی ممالک نے اسرائیل کو قبول کر لیا۔فلسطین کے اندر کئی تنظیمیں تھیں۔ایک بڑی تنظیم الفتح (فلسطینی لیبریشن آرگنائزیشن) جس کے صدر یاسر عرفات تھے۔لیکن ان سب تنظیموں کا خیال تھا کہ ہمیں اپنے معاملات کو مذاکرات سے حل کرنے چاہئیں اور ہمیشہ مذاکرات ناکام ہوتا تھا اس لئے کہ اسرائیل اپنے آپ کو مضبوط کر رہا تھا فلسطینی سرزمین پر اپنے قبضے کو بڑھانے کی کوشش کر رہاتھا۔ اس وقت فلسطینی مسلمانوں کے لئے بہت مایوسی کا وقت تھا کہ مسلم ممالک ہار مان کر اسرائیل کو تسلیم کرلیا اور فلسطینی لیڈر امریکہ اور اقوام متحدہ کے ساتھ مذاکرات میں لگے ہیں جس سے ان لیڈروں کو پذیرائی تو مل رہی ہے لیکن فلسطین آہستہ آہستہ اسرائیل کے قبضہ میں جارہا تھا۔

حماس کیا ہے


اس بے چینی نے فلسطین میں 1987 میں ایک تحریک کو جنم دیا جس کا نام حماس تھا۔اس تحریک کا طریقہ کاردوسری فلسطینی تنظیموں سے بالکل الگ تھا حماس نے مذاحمت کا راستہ اختیار کیا اور اپنے کارکنان کی ایک عسکری ونگ تیار کی جس کا نام القسام ہے۔ اپنے نئی ٹیکنالوجی سے لیس اور امریکہ و یورپ کی سایہ تلے رہنے والے اسرائیلیوں کے سامنے مٹھی بھر مسلمانوں کی نہتھی جماعت میدان میں اتری اور اپنا کام شروع کیا اسرائیلی ظلم کرتے تو یہ بھی اپنی حیثیت کے مطابق ان کا مقابلہ کرتے۔ کہیں پتھر پھینکتے۔ لاٹھی ڈنڈے اور چھوری چاکوسے لڑتے۔لیکن اس کا اس جماعت بلکہ فلسطینیوں کو بھاری نقصان چکانا پڑتا۔


اس مٹھی بھر جماعت کے آنے کے بعد مسلمانوں میں ایک امید جگی اور پوری دنیا کے مسلمانوں کی نظریں اس پر ٹک گئی صحافیوں اور ایڈیٹروں نے کھل کر اس کی تائید کی۔ لیکن حماس کو سب سے بڑا چیلنج صرف اسرئیل نہیں تھا بلکہ فلسطین کی دوسری تنظیمیں حماس کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں بلکہ یہ کہا جائے کہ ان کو کھڑا کیا گیا اور حماس نے جتنی مزامت (انتفادہ) اسرائیل کے ساتھ کی تھی اس سے زیادہ جنگیں خود اپنی تنظیموں کے ساتھ کرنی پڑی۔اقوام متحدہ کی ایما پر 2006 میں فلسطین میں فری الیکشن کرائے گئے جس میں حماس نے جیت حاصل کی اس لئے کہ فلسطینی نوجوان کو حماس کا طریقہ کار پسند تھا۔ لیکن یہ جیت اسرائیل اور اس کے حواریوں کو ایک نظر نہ بھائی اور حماس پر دباؤ بنانے لگے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرے لیکن حماس نے اس کو ماننے انکار کردیا اس کے بعد حماس حکومت پر سخت سیکشن (پابندیاں)نافذ کردی گئیں جس سے فلسطین میں مشکل حالات پیدا ہوگئے پھر اسرائیل نے الفتح کی مدد سے اس حکومت کو ختم کرنے کے لئے فلسطین میں بغاوت شروع کرادی۔ بالآخر حماس الفتح سے جنگ کے بعد غزہ پر قابض ہوگیا اور آج تک غزہ پر اس کا قبضہ ہے۔ بقیہ علاقوں پر آج بھی الفتح کی حکومت ہے جس کے صدر محمود عباس ہیں۔

غزہ جس پر آج حماس کا قبضہ ہے وہ 40 کیلو میٹر لمبا اور 12 کلو میٹر چوڑا علاقہ۔ 11 کلو میٹر کا حصہ مصر سے لگتا ہے اور دو طرف اسرائیل ہے پیچھے سمندر ہے۔ حماس کی لوکیشن ایسی ہے کہ اس کو کہیں سے مدد نہیں کی جاسکتی۔ مصر نے اپنے یہاں آنے کا راستہ بند کر رکھا۔ اخوان المسلمین کی حکومت آنے کے بعد اس راہداری کو کھول دیا.   گیا تھا لیکن جیسے السیسی نے تختہ پلٹ کیا اس

راہداری کو ہمیشہ کے لئے بند کر دیا تھا۔

ترکی نے ایک بار غزہ کی مدد کرنے کے سمندر کے راستے سامان سے بھرا ایک جہاز بھیج رہا تھا کہ اسرائیل نے اس جہاز پر قبضہ کرلیا جس کے بعد ترکی نے اپنے سفیر کو اسرائیل سے بلا لیا تھا۔

حماس جس کی کل جمع پونجی غزہ ہے جس کی مدد ہر طرف سے مشدود کردی گئی ہے۔اگر دیکھا جائے تو غزہ کی حیثیت ہندوستان کے کسی ایک ضلع سے زیادہ نہیں ہے۔ 

ایسے صورت حال میں آج اسرائیل کے ساتھ جنگ کر رہاہے۔ 

اول دن سے حماس کا خیال تھا کہ ہم غاصب اسرائیل کو اسی وقت روک سکتے ہیں جب تک ہم خود اس کے سامنے جنگ کے لئے میدان میں نہ آئیں۔حماس جنگوں کا طریقہ ڈھونڈتا رہا لیکن اسرائیل جو جدید ہتھیار سے لیس ایٹمی طاقت بن چکا تھا بڑی سے بڑی حکمت عملی بھی ناکام ہوجا تی تھی۔ لیکن 2000 میں حماس نے میزائل بنانا شروع کیا بغیر کسی تعاون کے اپنے گھروں میں دیسی میزائل بناتے جس کی صلاحیت چند کیلومیٹر ہی تھی اور میزائل میں بھی کوئی خاص طاقت نہیں تھی۔ اگر کسی گھر پر گرتا تو ایکادکا  نریاتھپوا پھوٹ جاتا۔لیکن حماس اس کوشش میں لگا رہا اور دو چار سال کے بعد میزائل میں مزید اضافہ وہوا اسرائیلی علاقہ میں مار کرنے کی صلاحیت پیدا ہوئی اور آج دو دہائی کے بعد وہ صلاحیت اس قابل ہوئی کہ اسرائیل کی راجدھانی تل ابیب کو پوری طرح سے اپنے حصار میں لے رکھا ہے اور پورا اسرائیل حماس کی میزائیل کے نشانے پر ہے۔

حماس کی اسرائیل کے ساتھ ہمیشہ جھڑپ ہو تی تھی لیکن 2014 میں پہلی بار حماس بحیثیت ایک فریق اسرائیل کے سامنے کھڑا ہوا۔ حماس کی میزائیلوں کی صلاحیتوں نے اسرائیل سمیت پوری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا کہ تمام تر وسائل سے محروم غزہ پر قابض حماس کی میزائل اور اس کی عسکری ونگ اتنے طاقتور کیسے ہو گئیں۔2014 کی جنگ 50دن چلی اور حماس 2200 جائیں گنوانے کے بعد اسرائیل کے 66 فوجی سمیت 71 کولوگوں کو مار گرایااور بے تحاشہ اسرائیل کا مالی نقصان کیا۔اس وقت پہلی بار اسرائیل کو احساس ہوا کہ کوئی طاقت اس کے سامنے گھڑی ہے۔ اسی اسرائیل نے1967 میں صرف 6 دنوں میں 6 ملکوں پر قبضہ کر لیا تھا 2014 کی جنگ 50 دن کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا معادہ ہوا۔ تاریخ میں پہلی بار طاقت میں اتنے فرق کے ساتھ دو فریق میں جنگ بندی پر معاہدہ ہوا ہوگا۔ 

2014 کی جنگ کو باریکی سے دیکھنے کے بعد مجھے اس بات کا یقین ہونے لگا کہ وہ وقت اب آنے والا ہے جب اسرائیل کو فلسطین میں رہنا مشکل ہوجائے گا۔

اب2021 کی جنگ شروع ہے آپ حضرات خود اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں اس جنگ میں حماس نے اسرائیلی دار الحکومت سمیت پورا اسرائیل اپنے حصار میں لے رکھاہے اسرائیل پوری طرح جنگ کی حالت میں ہے وہاں پر ایمرجنسی نافذ ہے۔ پوری دنیا اسرائیل، امریکہ اور یورپ کی اس بے بسی کو دیکھ رہی ہے۔ اسرائیل میں جو میزائیل شکن سسٹم نصب کیا گیا وہ امریکہ نے اپنے اخراجات پر نصب کرایا ہے۔ مٹھی بھر حماس دنیا میں سپر پاور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس اسرائیلی طاقت کو مجبور کردیاہے۔آج مسلم ممالک سمیت پوری دنیا حماس کے ساتھ کھڑی ہے اس لئے کہ حماس خود ایک طاقت بن چکا ہے۔

اس جنگ کا خواہ کچھ بھی نتیجہ ہو لیکن اب حماس کا عروج ہے اور اسرائیل کا زوال ہے اور جب قومیں زوال کی طرف جانا شروع ہوتی ہیں تو اس کی ہمت پست ہونے لگتی ہے اور اس کے ساتھی ساتھ چھوڑنا شروع کردیتے ہیں۔اور جو قومیں عروج پر جاتی ہیں لوگ اس کے خیمہ میں آنا شروع کردیتے ہیں اور اس کی طاقت کو روکنا مشکل ہوجا ہے۔اس وقت حماس صرف غزہ پر ہی حکومت کر رہا ہے لیکن پورے فلسطینی اس کے ساتھ ہیں اور دن بدن فلسطینیوں کی ہمدردی حماس کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔

رہا سوال مسلم ممالک کا تو کبھی بھی کوئی مسلم ملک فلسطین کے لئے براہ راست اسرائیل پر حملہ نہیں کر سکتامسلم ممالک صرف فلسطین اور قبلہ اول کے لئے وہاں کے عوام کی مدد کرسکتے ہیں۔ 


سبق ہندوستانی مسلمانوں کے لئے

جو قومیں اپنے مسئلے کو خود حل نہیں کرتیں کبھی کوئی اس کے مسئلے کو حل کر کے پلیٹ میں سجا کر اس کے سامنے پیش نہیں کرسکتاہے۔فلسطینی جب تک اقوام متحدہ اور دوسرے ممالک سے اپنے مسئلہ کے حل کے لئے گوہار لگا رہے تھے تو اسرائیل ان کے علاقوں پر قابض ہوتا رہا اور ظلم کرتا رہا لیکن جب خود میدان میں آئے اور ظالم اسرائیل کے سامنے کھڑے ہوئے خود کمان سنبھالی دنیا اس کے حق میں آنے لگی اور انشاء اللہ اس جنگ کا اینڈ ایک اطمنان بخش طریقے پر ہوگا.      

                مزید جانیں 

فلسطین, غزہ, اسرائیل, جنگ ہرمجدون اور ارض فلسطین میں رونما ہونے والے اہم واقعات


تحریک حماس کی مکمل تاریخ کیا ہے جانیے پوری حقیقت

1 تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی