اسرائیل اور فلسطین کے درمیان گزشتہ دس دنوں سے جو جھڑپیں جاری ہیں وہ اب خونی جنگ میں تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہیں,  ہر طرف اسرائیل کی بربریت کا بازار گرم ہے,  غزہ کی نسل کشی کے لئے اس نے جنتی بھاری مقدار میں جنگی ہتھیار کا استعمال کیا ہے اس کی مثال ماضی قریب میں نہیں ملتی,  خبر تو یہ ہے کہ اب اسرائیل 735 ملین امریکی ڈالرز کے ہتھیار امریکہ سے خرید رہا ہے تاکہ وہ فلسطین کو آسانی سے  صفحہ ہستی سے مٹا دے,  لیکن وہیں دوسری طرف فلسطین کی مزاحمتی اسلامی تحریک حماس نے اسرائیلی جارحیت کا  جس منظم انداز میں منہ توڑ جواب دیا ہے اس سے اسرائیل تلملا گیا ہے اور اس کو اپنے منہ کی کھانی پڑ رہی ہے,  

اس تناظر میں ہمارے لئے یہ جاننا ضروری ہو گیا ہے کہ حماس کیا ہے,  اس کا طریقہ کار کیا ہے,  خطے میں اس کی ضرورت کتنی ہے,  اس کے حمایتی ملک کتنے ہیں,  اس کو ہتھیار کہاں سے ملتے ہیں,  کیا وہ دہشت گرد تنظیم ہے (جیسا کے مغربی دنیا کہتی ہے) یا پھر وہ ایک مزاحمتی تحریک ہے,  ہر سوال کا جواب اس تحریر میں آپ کو مل جائے گا,  آپ ضرور اس تحریر کو پڑھیں. 


 کیا ہے تحریک حماس 

حماس کیا ہے


اسلامی مزاحمتی تحریک حماس (حرکۃ المقاومۃ الاسلامیۃ حماس ) گزشتہ سات دہائیوں سے ملک فلسطین میں آزادیٔ بیت المقدس اور مظلوم فلسطینیوں کو اسرائیلی ظلم و بربریت کے شکنجے سے نکالنے کی جد و جہد میں سرگرم ایک دفاعی اور سیاسی تحریک ہے جو روز اول سے ہی آزادئ بیت المقدس کے لئے سینہ سپر ہے یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حماس کا تعلق مصر کی تنظیم الاخوان المسلمون سے ہے جس کے بانی حسن البنا الشہید تھے جو اس تنظیم کے بانی اور عظیم قائد و رہبر تھے, انہوں نے اسلام کی سربلندی کی خاطر مصر میں تحریک اخوان المسلمون کی بنیاد رکھی اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں اس کی شاخیں پھیل گئیں اور فلسطین میں بھی اس کی شاخ حماس کے طور پر جانی گئی. 

حماس کی مختصر تاریخ 

[ تحریک حماس کی بنیاد 1987ء میں سر زمین انبیاء علیہم السلام فلسطین میں رکھی گئی، اس تنظیم کے بانی شہید شیخ احمد یاسین ہیں کہ جن کو اسرائیل نے ایک ڈرون میزائل حملے میں شہید کر دیا تھا، شیخ احمد یاسین کے بعد تنظیم کی ذمے داری ڈاکٹر عبد العزیز رنتیسی نے سنبھالی اور اسرائیل نے ان کو بھی شہید کر دیا جس کے بعد تنظیم کے سیاسی شعبے کے سربراہ کی حیثیت سے خالد مشعل سامنے آئے جب کہ اسماعیل ہنیہ فلسطینی پٹی غزہ میں فلسطین کے وزیر اعظم ہیں اور ان کا تعلق بھی حماس کے ساتھ ہے۔


تحریک حماس کا وجود  'تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کی مخالفت میں عمل میں آیا تھا جس کی قیادت و سیادت اس وقت کے سیاسی رہنما یاسر عرفات کے زیر اثر تھی ۔ یاسر عرفات نے 1993 میں اسرائیل کے ساتھ اوسلو امن معاہدہ کرکے فوجی کارروائی کا خاتمہ کر دیا اور 1987 میں اٹھی انتفادہ تحریک کو بھی سرد جھولے میں ڈال دیا جبکہ حماس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور اسرائیل پر اٹیک جاری رکھا .


حماس نے اپنی تاسیس کے بعد سے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کی ہے اور اب حماس ایک مزاحمتی تنظیم ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعت بھی ہے جس نے 2006ء کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کی تھی اور فلسطین میں حکومت سازی کی تھی تاہم اس موقعے پر بھی عالمی سامراجی قوتوں اور غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے حماس کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور ظلم تو یہ تھا کہ حماس کے اثاثے منجمند کرنے کے ساتھ ساتھ یورپی یونین اور امریکا سمیت دیگر مغربی قوتوں نے حماس کو دہشت گرد قرار دے دیا تھا۔ یہ بھی کوشش کی گئی کہ حما س کو حکومت بنانے کے عمل سے دور رکھا جائے اور اس عنوان سے غزہ کو ملنے والی بین الاقوامی امداد کو بھی رو ک لیا گیا اور اس موقعے پر حماس تنہا ہو گئی تھی تاہم اس کڑے وقت میں ایران نے حماس کو حکومت چلانے اور بنانے کے لیے بھاری مالی تعاون کیا تھا جس کے بعد غزہ میں حماس حکومت قائم ہو سکی تھی ۔

مزید جانیں

مسئلہ فلسطین, اسرائیل, حماس, اور موجودہ حالات - بے حد اہم تجزیہ


ہندوستان نے اقوام متحدہ میں فلسطین کی زبردست حمایت کی

غزہ میں اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے حکومت تو قائم کر لی لیکن عالمی سامراج اور مغربی پنڈتوں کو یہ بات بالکل بھی پسند نہ آئی اور انھوں نے غاصب اسرائیل کے ذریعے 2008ء میں غزہ پر بڑا فضائی حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں درجنوں کیا بلکہ سیکڑوں فلسطینی جام شہادت نوش کر گئے، غزہ کا محاصرہ کر لیا گیا جو تا حال جاری ہے، اس حملے کے جواب میں حماس نے فلسطینیوں کا دفاع کیا اور دفاع کا یہ عمل 22 روز جاری رہنے کے بعد بالآخر اسرائیل کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور حماس کامیاب ہو گئی۔ حماس اپنی تاسیس کے بعد سے اب زیادہ طاقتور ہو چکی ہے اور مسلح بھی ہو چکی ہے اور صلاحیت رکھتی ہے کہ غاصب اسرائیلی دشمن کو کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جا سکے۔ ( بشکریہ ایکسپریس نیوز پی کے) 

حماس انتظامی طور پر دو بنیادی گروہوں میں منقسم ہے۔

پہلا معاشرتی امور جیسے کہ اسکولوں ہسپتالوں اور مذہبی اداروں کی تعمیر اور دوسرا عسکریت پسند کارروائی۔ اس قسم کی کارروائیاں زیادہ تر فلسطین کی زیر زمین عزالدین القسام بریگیڈ سر انجام دیتی ہے۔


کہا جاتا ہے کہ حماس کی ایک شاخ اردن میں بھی ہے جہاں اس کے ایک رہنما خالد مشعل کو اسرائیل نے متعدد مرتبہ قتل کرنےکی کوشش کی۔  ( بشکریہ ویکیپیڈیا ) 


غزہ پٹی کی موجودہ صورتحال اور حماس 

غزہ 2007 کے بعد سے پوری طرح حماس کے قبضے میں ہے جبکہ مغربی کنارہ محمود عباس کی پارٹی الفتح کے زیر اثر ہے جو کہ یاسر عرفات کے بعد پاور میں آئے تھے. 

واضح رہے کہ غزہ کا خطہ کھلی جیل کے مترادف ہے جہاں ہر طرف مفلسی اور قلاشی کا دور دورہ ہے, غزہ دنیا کی سب سے گنجان آبادی والا علاقہ بھی ہے  یہ 360 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اس کی لمبائی 40 کلو میٹر اور چوڑائی 10 کلو میٹر ہے یوں سمجھیے جیسے ہندوستان کا کوئی ضلع ہو. لیکن وہاں ہر طرح کی سہولیات سے لوگوں کو کاٹ دیا گیا ہے وہاں سکونت پذیر لوگوں کا گزر بسر فقط باہری امداد پر منحصر ہے. 

حماس اسی علاقے سے اسرائیل پر راکٹ و میزائیل سے حملے کیا کرتا ہے اور اس نے مصر سے متصل سرحدوں پر زیر زمین کئی سرنگیں بھی کھود لی ہیں جہاں سے وہ ضروریات زندگی اور اسحلے در آمد کرتا ہے . 


حماس کے حامی ملک کون ہیں 

مملکت قطر کا نام اس میں سر فہرست ہے, قطر حماس کا سب سے بڑا اتحادی اور سب سے زیادہ مدد کرنے والا ملک ہے جس نے اب تک حماس کی دو بلین ڈالر کی مدد کی ہے وہیں اس فہرست میں ایران اور ترکی بھی شامل ہیں جو نازک وقت میں حماس کی مدد کرتے رہتے ہیں. 


حماس کو اسلحے کہاں سے ملتے ہیں

گزشتہ 12 دنوں سے جاری  اسرائیلی فوجی کارروائی کے دفاع میں حماس نے اپنا پورا دم خم دکھاتے ہوئے اسرائیلی بستیوں میں سیکڑوں میزائیل داغے ہیں جس کو خود اسرائیلی میڈیا نے قبول کیا ہے, اور اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ حماس کے پاس اتنے اسلحے موجود ہیں کہ وہ 60 دنوں تک اسرائیل کا مقابلہ کر سکتا ہے, ذرائع کے مطابق اب حماس 5 ہزار سے زائد میزائل اسرائیل پر مار چکا ہے, لیکن سوال یہ ہے کہ یہ میزائل حماس کے پاس آتے کہاں سے ہیں, بات بالکل واضح ہے کہ حماس مدتوں سے ایرانی میزائیل کا استعمال کرتا رہا ہے اور مصر کی جانب بنائی گئی سرنگوں کے ذریعے ان کو حاصل کرتا ہے . خود حماس غزہ کے علاقے میں بڑے پیمانے پر راکٹس اور میزائل کی پروڈیکشن کرنے لگا ہے جو اس کی طاقت کو پروان چڑھانے میں مدد کر رہا ہے. 


حماس دہشت گرد تحریک ہے یا مدافعتی تحریک ہے ؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسرائیل کے ساتھ حماس کا موازنہ کیا جائے اور پوری دنیا میں ایک عام ریفرنڈم کیا جائے تو اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟ کیا دنیا کے لوگ یہ جواب دینگے کہ اسرائیل کے مقابلے میں حماس دہشتگرد تنظیم ہے؟ یا پھر اسرائیل کے ظلم و ستم اور اس کی جارحیت کی تاریخ جاننے کے بعد اسرائیل کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ اسرائیل ایک دہشتگرد اور غیر قانونی اور غیر انسانی ریاست ہے جسے صیہونیوں نے اپنے مفادات کی خاطر وجود میں لا کر دنیا کے وسائل پر قبضہ کرنے کی ناپاک منصوبہ بندی کی ہے۔ بہر حال جواب بہت ہی واضح ہے کہ غاصب اسرائیل کہ جو گزشتہ پینسٹھ برسو ں سے فلسطین کے مظلوم عوام بشمول معصوم بچوں، خواتین، جوانوں اور بزرگوں کو خطر ناک اور مہلک ہتھیاروں سے قتل کر رہا ہے اس کے مقابلے میں اسلام کی قوت سے سرشار مٹھی بھر یہ حماس کے جوان کس طرح دہشت گرد قرار دیے جا سکتے ہیں؟ کس نے امریکا کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اسرائیل جیسی سفاک ریاست کے جرائم کے سامنے سینہ سپر ہونے کے جرم میں کسی کو دہشت گرد قرار دے؟ آخر امریکا نے آج تک اسرائیلی مظالم کے باوجود اسرائیل کو دہشت گرد ریاست قرار کیوں نہیں دیا؟ آخر یہ پوری دنیا کیوں فلسطینیوں پر ہونے والے اسرائیلی مظالم پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے؟ اگر کسی نے اسرائیل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر لی اور مزاحمت شروع کر دی تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ دہشت گرد بن گیا؟ نہیں ایسا نہیں ہونا چاہئیے! امریکا سمیت یورپی ممالک کو چاہیے کہ غاصب اسرائیل کی پشتبانی چھوڑ دیں اور مسئلہ فلسطین پر دوہرا معیار بھی ترک کر دیں۔


دہشت گردی میں اور مزاحمت میں بہت واضح فرق موجود ہوتا ہے، دہشت گردی وہ ہے جس میں معصوم انسانوں کو بے گناہ قتل کر دیا جائے او مزاحمت کا مطلب دہشت گردی کے خلاف اپنا دفاع کرنا اور اپنی جان وما ل ، عزت و آبرو و ناموس کا تحفظ ، شعائر اللہ کا تحفظ کرنا یہ سب مزاحمت اور جہاد میں ہے نہ کہ دہشت گردی کا حصہ ہے، بلکہ دہشت گردی وہ ہے جو غاصب صیہونی اسرائیل کر رہا ہے اور دہشت گردی یہ بھی ہے کہ امریکا اور یورپ اسرائیلی دہشت گردی کی حمایت کر رہے ہیں۔ ہمارے معاشرو ں میں ہی رہنے والے چند نادان لوگ بھی امریکا اور اسرائیل کے بہکاوے میں آ کر انھی کی زبان بولنا شروع کر دیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر اپنے آقاؤں کو خوش کریں، کیونکہ امریکا اور اسرائیل سمیت ان کے ایجنٹ بھی یہی چاہتے ہیں کہ قتل و غارت ہو، مسلم ممالک کی سر زمینوں پر غاصب اسرائیل کا تسلط قائم ہو، اور اس کام کے لیے راہ ہموار کی جاتی ہے۔ ( بشکریہ ایکسپریس نیوز پی کے) 

اللہ ارض فلسطین کو اسرائیلی جارحیت سے پاک فرما دے اور بیت المقدس کی حفاظت فرما 

1 تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی