مولانا سید حمزہ حسنی ندوہ کے مدبر اور غیر معمولی منتظم تھے: محمد نصر الله  ندوی

ندوہ کا مدبر اور منتظم چل بسا

    ان دنوں ملک ہندوستان میں ہر طرف صف ماتم ہے،صیاد اجل نے کتنے لعل وگہر ہم سے چھین لیے،ایک انتقال کے بعد تعزیت سے فرصت نہیں ملتی،کہ دوسرا غم چھا جاتاہے،ابھی معتمد مالیات جناب اطہر حسین صاحب کی جدائیگی کا غم تازہ ہی تھا کہ مولانا سید محمد حمزہ حسنی( پیدائش 15 دسمبر 1950, وفات 7 مئی 2021) نائب ناظم ندوة العلماء کی ناگہانی موت نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا،ان کا انتقال ایک ایسے مدبر کی موت ہے،جس نے اپنی مدبرانہ صلاحیتوں سے ندوہ کو فیضیاب کیا،اور اس کے انتظامی ڈھانچے کو نئی توانائی بخشی،انہوں نے اپنی  زندگی کے زریں لمحات ندوہ کو سجانے،سنوارنے اور اس گلشن علم ودانش کی آبیاری میں گزار دی،ندوہ ان کا اوڑھنا بچھونا تھا،ندوة العلماء کے تعمیراتی خاکوں میں رنگ بھرنے کے لیے آپ نے بڑی جد وجہد کی،ندوہ کی مسجد کی موجودہ توسیع آپ کی فکر مندی اور ہنر مندی کا بہترین مظہر ہے،اس توسیع نے مسجد کے حسن میں چار چاند لگا دیئے،اور بندگان خدا کو اپنے رب کے سامنے سجدہ ریزی میں بڑی سہولت پیدا ہوگئی،ندوہ کے کئی ہاسٹلوں کی تعمیر میں ان کی فکرمندی اور توجہ کو خاص دخل تھا،ندوہ کے انتظامی امور کا محور آپ ہی تھے،تمام انتظامی معاملات آپ کے ذریعہ طے پاتے،دن رات آپ ندوہ کی تعمیر وترقی کے بارے میں سوچتے،پلاننگ کرتے،اور اہل خیر سے رابطہ کرتے،گویا آپ ندوة العلماء کا دماغ تھے،جس کے ہر گوشہ میں ندوہ بستا تھا ،تمام تمام چیزوں پر وہ گہری نظر رکھتے اور حتی الامکان ان کی اصلاح کی فکر کرتے،انہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو ندوہ کی اٹھان اور ترقی کیلئے استعمال کیا اور آخری دم تک ندوہ کیلئے فکرمند رہے،لیکن کبھی بھی ندوہ سے معاوضہ نہیں لیا،انہوں نے جو کچھ بھی کیا محض اخلاص اور الله  کی رضا جوئی کیلئے کیا،اب وہ اس کا اجر پانے کیلئے اپنے رب کے حضور پہونچ چکے ہیں،رب کریم انہیں اپنے شایان شان بدلہ عطا فرمائے۔۔

  مولانا محمد حمزہ حسنی کی شخصیت میں غیر معمولی سنجیدگی اور متانت تھی،ان کی ذات میں اتھاہ گہرائی تھی،نہایت کم آمیز اور کم گو تھے،ہمہ وقت تدبر اور تفکر کی کیفیت میں رہتے،بڑی سنجیدگی سے مسائل کو سنتے اور ان کا حل پیش کرتے،طبیعت میں بے پناہ تواضع اور ایسی سادگی تھی کہ اس کی مثال نہیں تھی،میں نے اپنی زندگی میں مولانا واضح رشید صاحب کے علاوہ ایسی سادگی اور تواضع کا نمونہ نہیں دیکھا،نہایت کم آمیز تھے،اخلاق میں نرمی تھی،چھوٹوں پر بہت شفیق اور مہربان تھے،ذاتی طور پر ناچیز کو آپ کی بہت شفقتیں اور عنایتیں حاصل رہیں،جب بھی میں کوئی علمی کاوش آپ کی خدمت میں پیش کرتا،بہت خوش ہوتے اور دعاؤں سے نوازتے،ایک مرتبہ شادی کی ایک تقریب میں مولانا سے ملاقات ہوئی،ان کے ساتھ ایک سینئر ندوی مولانا محمود لکھنوی بھی تھے،مولانا نے میرا ان سے ایسے بلند الفاظ میں تعارف کرایا،کہ میں پانی پانی ہو گیا،دراصل یہ مولانا کی حوصلہ افزائی کا نرالہ انداز تھا،جو اب نایاب ہوتا جارہا ہے۔۔

 مولانا کی اٹھان نہایت پاکیزہ ماحول میں ہوئی تھی،آپ کے والد مولانا محمد ثانی حسنی ولی صفت انسان تھے،آپ کی والدہ ماجدہ نہایت پاکباز اور خداترس خاتون تھیں،ایسے قدسی صفات والدین کے آغوش میں آپ کی پرورش ہوئی،چناں چہ للہیت اور تقوی وطہارت آپ کی گھٹی میں رچ بس گئی،پھر مفکر مولانا علی میاں کی صحبت آپ کو نصیب ہوئی،جس نے آپ نے آپ مزید نکھار دیا،عم محترم مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کی نظر عنایت نے آپ کو انتظامی امور کے اسرار ورموز سکھائے،مولانا واضح رشید صاحب سے آپ نے خاموشی کے ساتھ کام کرنے کا ہنر سیکھا اور مولانا سعید الرحمان اعظمی مد ظلہ سے یکسوئی اور پوری تندہی سے اپنی ذمہ داری کو انجام دینے کا سلیقہ سیکھا،آپ نے ہمیشہ خود کو بڑوں کے تابع رکھا اور ان کی خواہش کے مطابق انتظامی امور کو نافذ کیا،آپ نے ہمیشہ اصول کی پاسداری کی اور ضابطہ کے تحت کام کیا،ممکن ہے اس سے کچھ لوگوں کو شکایت ہو،لیکن جب اصول وضابطہ کی بات ہوگی تو،ایسا ہونا فطری بات ہے،آپ کی انتظامی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے مولانا علی میاں کے دور میں آپ کو ناظر عام بنایا گیا،اور پھر دوسال پہلے مجلس منتظمہ نے آپ کو نائب ناظم کے عہدہ پر فائز کیا،اس عظیم الشان ذمہ داری کو آپ نے اخیر عمر تک بحسن وخوبی انجام دیا اور پھر اپنے مالک حقیقی کے پاس پہونچ گئے۔۔

 انتظامی امور کے علاوہ قلم وقرطاس سے بھی آپ کا رشتہ مضبوط تھا،چالیس سال تک آپ ماہنامہ رضوان کے ایڈیٹر رہے اور اپنے قلمی نگارشات سے قارئین کو مستفید کرتے رہے،اس کے علاوہ تعمیر حیات کے نگراں بھی تھے،جس میں وقتا فوقتا آپ کے مضامین شایع ہوتے تھے،آپ کی تحریروں میں بڑی سادگی اور روانی ہوتی تھی،آپ کے قلم گہر بار سے سیرت امہات المؤمنیں اور تذکرہ صحابیات جیسی کتابیں بھی منظر عام پر آئیں،ان کے علاوہ سینکڑوں مضامین ہیں جو منتشر اوراق کی تہوں میں پوشیدہ ہیں،اگر ان کو جمع کردیا جائے تو بہت مفید کام ہوگا،مفکر اسلام مولانا علی میاں رح کے خطوط ورسائل کی ترتیب کا کام بھی آپ کر رہے تھے ،اب تک تین جلدیں منظر عام پر آچکی ہیں اور دو جلدیں زیر طبع ہہیں،خدا کرے کہ یہ کام بھی جلد تکمیل کو پہونچے۔۔

 آپ کی ملی اور سماجی خدمات کا دائرہ بھی بہت وسیع ہے،دس سالوں تک آپ وقف بورڈ کے ممبر رہے،اور اپنی صلاحیت سے فائدہ پہونچاتے رہے،متعدد مسلم سیاسی رہنماؤں سے آپ کے تعلقات تھے،جن کے ذریعہ ملی امور میں مدد حاصل کرتے اور ملت کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے،لکھنؤ شہر کی اہم شخصیات سے آپ کے روابط تھے،ان سب کو ندوہ سے جوڑنے میں آپ نے اہم کردار ادا کیا۔۔

  آپ کی ایک بہت بڑی خوبی جو اخیر میں دیکھنے میں آئی،وہ یہ کہ آپ نوجوانوں کو آگے بڑھاتے اور ان کی صلاحیت کا صحیح استعمال کرنے کی کوشش کرتے،اور ان کی بھر پور حوصلہ افزائی کرتے،اخیر کے ایک سال میں یہ محسوس ہوا کہ آپ ندوہ کے مختلف شعبوں میں نئی روح پھونکنا چاہتے ہیں،اس کے تحت مجلس تحقیقات شرعیہ کی آپ نے نشاة ثانیہ کی اور مولانا عتیق احمد بستوی مد ظلہ کو اس کا سکریٹری مقرر کیا،کلیة الدعوة والاعلام کو فعال بنانے پر زور دیا ،اس کے تحت کچھ پروگرام بھی ہوئے،افتتاحی پروگرام میں مولانا بہ نفس نفیس شریک ہوئے اور پروگرام سے بہت خوش ہوئے،اس کے علاوہ مجلس تحقیقات ونشریات کے اسسٹنٹ سکریٹری بننے کے بعد اس کو بھی متحرک کیا،الغرض آپ کی پوری زندگی ،علمی،ملی،سماجی اور انتظامی خدمات کیلئے وقف تھی،آپ کے انتقال سے ندوہ میں ایسا خلا پیدا ہو گیا کہ بیاں نہیں کیا جاسکتا،رب کریم آپ کی خدمات کو قبول کرے اور بہترین بدلہ عطا کرے۔۔فقط۔۔

مزید جانیں 

مشہور شاعر مولانا رئیس الشاکری ندوی : یادوں کے جھروکے سے

1 تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی