علامہ رئیس الشاکری مرحوم پر ایک معیاری تحریر

مشہور شاعر مولانا رئیس الشاکری ندوی : یادوں کے جھروکے سے


ایک ایک کر کے اصحاب علم و فن اٹھتے جا رہے ہیں، اور آج خبر ملی کہ مولانا رئیس الشاکری صاحب بھی نہ رہے، یہ خبر سن کر دل بہت رنجور ہوا، مولانا بڑی طرح دار اور جاندار شخصیت کے مالک تھے، آواز با وقار تھی، لہجہ دلکش تھا، ندوہ میں شعر و سخن کی مجلسوں میں اکثر صدر نشیں ہوتے، اردو زبان و ادب پر بڑی دستگاہ تھی، ان کی گفتگو صحت زبان کا استعارہ ہوتی، اس زمانہ میں کم از کم ندوہ کے اندر وہ اردو زبان کی آبرو تھے۔


آپ کو گفتگو میں کمال درجہ کا دسترس حاصل تھا، بولتے تو گویا موتی رولتے، لفظوں کے پرند آپ کے ہونٹوں پر چہک اٹھتے، لہجہ میں آبشار کی روانی اور پہاڑوں کا وزن تھا، شعر ہو یا نثر، لہجہ کا زیر و بم ،بیان کا انداز اور جذبات کا تموج اس درجہ ہوتا کہ سننے والا معانی کی تہوں میں اترنے کے بجائے الفاظ کی لہروں سے محظوظ ہونے لگتا۔


مولانا بڑے نستعلیقی بزرگ تھے، سفید خوبرو چہرے پر سفید داڑھی خوب سجتی تھی، مزاج میں سادگی و نفاست کے ساتھ تمکنت بھی تھی، جو اگلے لکھنو کی یاد دلاتی تھی، مجال ہے آپ کی مجلس میں کوئی غلط جملہ ہونٹوں سے پھسل جائے اور اس پر گرفت نہ ہو۔


مولانا کے اندر خورد نوازی بہت تھی، اپنے چھوٹوں پر شفقت فرماتے، حوصلہ افزائی کرتے، میرے بارے میں ایک صاحب نے یونہی کہہ دیا کہ معصوم بھی اشعار کہتا ہے، مولانا نے سنانے کا حکم دیا، میں نے کترانا چاہا، کہاں میری خاموش شاموں کے بے ربط خیالات (جو میں تسکین خاطر کے لئے کہہ لیا کرتا تھا) اور کہاں جذبات کا پیمبر، کہاں وہ اقلیم سخن کا رئیس اور کہاں میں کوچہ اردو کا گدائے بے نوا۔۔۔۔

مولانا کا اصرار بڑھتا گیا، میں نے سپر ڈال دئے، اور جھجھک جھجھک کر اپنی دو ایک غزلیں سنائیں، جن پر آپ کے ستائشی کلمات نے بڑا حوصلہ دیا، دو تین جگہوں پر اصلاح بھی فرمائی۔


دار الافتاء کے زمانہ قیام میں مولانا سے مزید تعلق بڑھا، چونکہ مولانا اسی بلڈنگ میں رہتے تھے، اس لئے آتے جاتے دعا سلام ہو جاتی ، کبھی اگلے وقتوں کے تذکرے چھڑ جاتے، کبھی تازہ کلام سامعہ نواز ہوتا، کبھی گزشتہ لکھنو کے مشاعروں کے واقعے۔۔۔۔۔۔۔  اس دوران آپ کی ابولکلامی چائے ضیافت کا فریضہ انجام دیتی، لیکن اس چائے سے زیادہ ضیافت ذوق کا سامان آپ کی گفتگو میں ہوتا۔


انہیں دنوں میں نے ارادہ کیا کہ مولانا کے نام کا ایک فیس بک پیج بناؤں جس پر آپ کا تازہ کلام شائع ہوکر محفوظ ہوتا رہے، میں نے اجازت لے کر شروع بھی کر دیا، ایک عرصہ تک یہ سلسلہ چلا، پھر یوں ہوا کہ مجھ سے فیس بک کی شان میں کچھ گستاخی ہو گئی، میری فیس بک آئی ڈی ضبط کر لی گئی اور اسی کے ساتھ یہ صفحہ بھی صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔


مولانا کے کلام کی خاطر خواہ قدر نہ ہوئی، اس کا شکوہ بھی کئی موقعوں پر آپ نے کیا ہے:

شہر میں لعل و جواہر کی بھی قیمت نہ رہی

میرا کیا ذکر ہے میں راہ کا پتھر ٹھرا

آپ کی دلی خواہش تھی کہ ان کے شعری مجموعے خوبصورت کاغزی پیکر میں شائع ہوں، ان کے کلام کے شایان شان زیور طباعت سے آراستہ کیا جائے، ان کی یہ خواہش زندگی میں پوری نہ ہو سکی لیکن امید ہے ان کی وفات کے بعد ادب نواز حضرات اس جانب پیش رفت کریں گے۔


مولانا کا کلام کلاسیکل روایات کے ساتھ جدید دور کی خصوصیات سے ہم آہنگ ہے، جہاں الفاظ کے حسن انتخاب، جذبات کی سچی تعبیر کے ساتھ زندگی بھر کے مشاہدات و تجربات کا عکس واضح طور پر نظر آتا ہے، مولانا کے غزلیہ کلام کا عرفانی پہلو قابل توجہ ہے، پاکیزگی کے آب زمزم سے دھلا ہوا، جیسے وہ کسی ما ورائی شے کے پیچھے وارفتہ ہوں، زلف و رخ کی بات بھی کرتے ہیں لیکن نظر بے اختیار حسن ازل کی جانب اٹھ جاتی ہے۔

چند اشعار ملاحظہ ہوں:

بتکدوں کو شوخیاں دیں، مسجدوں کو حوصلے

اور پیشانی پہ میری اپنا سجدہ لکھ دیا

حسن کی آنکھوں میں بھر دیں وادیاں کشمیر کی

عشق کی شوریدگی کے نام صحرا لکھ دیا

عشق کی تشریح میں دوںوں جہاں جب کھو گئے

میں نے اپنا نام کاٹا اور اس کا لکھ دیا

وہ سراپا میرے لفظوں میں سماتا ہی نہیں

اس کو میں کیسے لکھوں لوح و قلم چھوٹے لگے


ایسا نہیں کہ قد و گیسو کی انجمن میں پیشانی کی سلوٹوں، اور عارض و لب کے گلشن میں خارزار زندگی کا تذکرہ نہ ہو، بلکہ غم دوراں بھی غم جاناں کے ہم رکاب ہے:

کسی بچے کا بہلنا کوئی مشکل بھی نہیں

اسی امید پہ گھر آگئے بازار سے ہم

افلاس کے وہ نقش تھے مٹی کے جسم پر

منھ دیکھتی ہی رہ گئیں زردار انگلیاں

مصحف غم کا اقتباس لگے

زندگی کس قدر اداس لگے

جب بھی چاہا بدل لیا ہم نے

چہرہ اب جسم کا لباس لگے


آپ کا نعتیہ کلام پاس ادب اور حد ادب کا امین، اور رباعیات معانی کا خزینہ ہیں:

آخر شب دل پہ اتری درد کی سچی کتاب

اور بیاض صبح پہ اشکوں نے طیبہ لکھ دیا

کچھ بھی نہیں لفظوں میں صداقت کے بغیر

تلوار سے کیا ہوگا شجاعت کے بغیر

ایمان کی تکمیل کا امکان نہیں 

سرکار مدینہ سے محبت کے بغیر

مشکل ہو تو جینے کا مزہ ملتا ہے 

ہر سانس میں پیغام بقا ملتا ہے

دشوار سہی کوئے ملامت لیکن

اک سلسلہ اہل وفا ملتا ہے


مولانا کے اس شعر کی خوبصورتی دیکھئے الفاظ کا کتنا مناسب استعمال ہے یہ شعر ہر خاص و عام زبان زد رہا 


مختلف رنگ کے پھولوں سے چمن بنتا ہے 

درودیوار مہکتے ہیں وطن بنتا ہے 

لفظ بکھرنگے تو مفہوم بکھر جائے گا 

حرف سے حرف ملتے ہیں تو سخن بنتا ہے.. 

( واضح رہے کہ مولانا کی پیدائش ردولی اترپردیش میں یکم جنوری 1943 میں ہوئی 


اور وفات 4 مئی 2021 میں لکھنؤ میں ہوئی. 

تدفین اپنے آبائی وطن ردولی میں عمل میں آئی 

آپ نے اپنی زندگی کی کل 80 بہاریں دیکھیں 

18 سال آپ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں لائبریرین رہے 


آپ رباعیات کے ایک کہنہ مشق شاعر تھے 

آپ کے پانچ شعری مجموعے جو طبع ہو چکے ہیں ان میں پایاب، القاء، کوثر، حرا، خیر الامم کی بارگاہ میں ، محمد جب آئے ، شعری مجموعے خاص طور پر قابل ذکر ہیں)


اللہ آپ کی مغفرت فرمائے، آپ کے درجات بلند فرمائے، اور ندوہ اور جہان اردو ادب کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے

گوشہ قبر میں تسکین کا ساماں ہوگا

کچھ نہ دے پائیں گے دنیا کے اجالے مجھ کو. معصوم سیفی

مزید پڑھیے 

مسلمانوں کے ذریعے غیر مسلم میتوں کا انتم سسنکار! کیا ہے اسلامی نقطہ نظر



تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی