قیامت کی چھوٹی علامتوں میں سے ایک علامت ہے 

قیامت کی نشانی


(4) بیت المقدس کی فتح 

 *عوف بن مالک رضی اللہ عنہ* فرماتے ہیں کہ غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ : قیامت سے پہلے چھ علامتوں کو یاد رکھو آپ ﷺ نے ان میں سے ایک بیت المقدس کی فتح کا ذکر کیا *(صحيح بخاری :٣١٧٦).*   


شروع کے تین حصوں کی لنک ضرور پڑھیں 


قیامت کی اہم نشانیاں (صغری اور کبری) قرآن و حدیث کی روشنی میں


قرب قیامت کی علامتیں:اشراط الساعۃ,اقسام اور تفاصیل حصہ دوم


قیامت کی علامتیں. چاند کا دو ٹکڑے ہونا حصہ سوم


*قارئین کرام!* بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول رہا ہے ہجرت کے بعد تقریباً ١٦ یا ١٧ مہینوں تک آپ ﷺ اسی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے پھر تحویل قبلہ کا حکم ہوا اور آپ ﷺ کعبہ کی طرف متوجہ ہوکر نماز پڑھنے لگے *(صحيح بخاري :٣٩٩).*

بيت المقدس روئے زمین پر بنائی گئی دوسری مسجد ہے *(صحیح بخاری :٣٣٦٦)* .

  بیت المقدس مکہ اور مدینہ کے بعد مسلمانوں کے پاس وہ تیسرا مقدس مقام ہے جس کی جانب عبادت کے لئے سفر کرنا جائز ہے *(صحیح بخاری :١١٨٩)* .

اسراء ومعراج کی رات نبی کریم ﷺ نے سب سے پہلے بیت المقدس پہنچ کر انبیاء کرام علیہم السلام کی امامت کی پھر آپﷺ معراج کے لئے تشریف لے گئے *(صحیح مسلم :١٦٢).* 

رسول اکرم ﷺ نے وہاں کی ایک فرض نماز کو دوسری مسجدوں کے ٢٥٠ نمازوں کے برابر بتلایا ہے *[(مستدرک حاکم :٨٦٠٠ امام حاکم، ذھبی اور البانی رحمہم اللہ نے صحیح کہا ہے دیکھئے الثمر المستطاب :٢/٥٤٨)]* بعض روایتوں میں ٥٠٠ *(مسند البزار ،المعجم الكبير للطبراني)* اوربعض میں ١٠٠٠ *(مسند احمد )* کا بھی ذکر ہے، *امام طحاوی رحمہ اللہ* نے ١٠٠٠ *(مشكل الآثار ٢/٧٦)* اور *شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ* نے ٥٠٠ *(مجموع الفتاوى ٨/٢٧)* کو راجح قرار دیا ہے (الله اعلم).

بیت المقدس انبیاء کرام علیہم السلام کی سرزمین فلسطین میں واقع ہے جب نبی کریم ﷺ کی بعثت ہوئی تو اس وقت اس پر سلطنت روم کے عیسائیوں کا قبضہ تھا اور سلطنت روم اس وقت بہت طاقتور اور بااختیار حکومت تھی اسی وقت نبی کریم ﷺ بیت المقدس کے فتح کی خوشخبری سنائی اور اس کو قیامت کی نشانیوں میں سے قرار دیا جیساکہ مذکورہ بالا حدیث میں موجود ہے.

علماء کرام لکھتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کی یہ پیشن گوئی آپ ﷺ کی وفات کے بعد  عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں سن ١٨ ھ یعنی ٦٣٧ء میں پوری ہوئی اور مسلمانوں نے بیت المقدس کو یہود و نصاری سے آزاد کرادیا.

بیت المقدس کی یہ مقدس سرزمین تقریباً عباسی دور تک مسلمانوں کے ماتحت رہی پھر جیسے جیسے ان میں آپسی اختلاف و انتشار، خانہ جنگی، سیاسی فتنوں اور باطنی تحریکوں کی وجہ سے عباسی حکومت کمزور پڑنے لگی تو گھات میں بیٹھے ہوئے صلیبیوں کو موقع مل گیا اِدھر فاطمیوں نے بھی اپنی حکومت کی مضبوطی اور استحکام اور شام سے سلجوقیوں کے خاتمہ کے لئے ان صلیبیوں سے مدد طلب کی اور انہیں کئ طرح کی سہولتیں فراہم کردیں اور بیت المقدس میں آنے جانے کی اجازت دے دی بالآخر ان تمام باتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صلیبیوں نے بغاوت کردی اور اپنے فاطمی حلفاء کے ساتھ غدر اور دھوکہ کیا اور قدس پر قبضہ کے لئے اپنی فوجوں کو تیار کرلیا اور پھر مسلمانوں کو بری طرح ذبح کرنا شروع کیا بالآخر ٤٩٢ ھ یعنی ١٠٩٩ء کو بیت المقدس صلیبیوں نے بھر پور یلغاروں کے ساتھ مسلمانوں سے چھین لیا اس طرح یروشلم کی مسیحی حکومت قائم ہوگئ .

پھر دوسری مرتبہ ٥٣٨ ھ یعنی ١١٨٧ء کو صلاح الدین ایوبی نے پیہم معرکہ آرائیوں کے بعد بیت المقدس صلیبیوں سے آزاد کروالیا اس طرح بیت المقدس پورے ٨٨ سال بعد دوبارہ مسلمانوں کے بازیابی  میں آگیا تمام ارض مقدسہ سے عیسائی حکومت کا صفایہ ہو گیا. 

 اس طرح ارض مقدس پر تقریباً ٧٦١ برس  مسلسل مسلمانوں کی سلطنت رہی، یہاں تک کہ ١٩٤٨ء میں امریکہ، برطانیہ، فرانس کی سازش سے ارض فلسطین کے خطہ میں صیہونی سلطنت قائم کی گئی اور بیت المقدس کا نصف حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا، پھر ١٩٦٧ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بیت المقدس پر اسرائیلیوں نے قبضہ کر لیا اب پوری طرح ان کے قبضہ میں ہے .

اس طرح بیت المقدس دو بار فتح ہوا پھر  ایک بار اللہ کے حکم سے ایک مومن جماعت کے ہاتھوں قیامت کے قریب امام مہدی اور عیسی علیہ السلام کے ظہور کے بعد بزور شمشیر فتح ہوگا حتی کہ درخت اور پتھر بھی بول پڑیں گے کہ :"اے مسلمان ایک یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے آؤ اسے قتل کرو " (صحيح مسلم)


نوٹ : مزید نشانی اگلے حصہ میں 

تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی