سوال :  کیا یزید کے نام کے ساتھ ”رضي الله عنه“ یا ”رحمة الله عليه“ استعمال کر سکتے ہیں؟ اگر کوئی استعمال کرتا ہے تو کیا یہ حرام ہے؟ 

جواب: غالبا سوال یزید بن معاویہ کے بارے میں ہے، کیونکہ انہیں کے بارے میں روافض اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے نام نہاد اہل سنت اس طرح کا اعتراض کرتے ہیں، یقینا یزید بن معاویہ کے ساتھ ”رحمة الله عليه“ کا استعمال کر سکتے ہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: 

  ”أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ“(1)  

 میری امت کا پہلا لشکر جو قیصر (قسطنطنیہ) کے شہر میں جہاد کرے گا وہ بخشا ہوا ہے۔ 

 

Yazid

اور اس لشکر میں نہ صرف یزید بن معاویہ قشریک تھے، بلکہ بالاتفاق وہ اس کے امیر الجیش تھے، اور جب رسول اللہ ﷺ کی اس پیشین گوئی کے مطابق یزید بن معاویہ مغفور اور بخشے ہوئے ثابت ہوئے تو ان کے لئے ”رحمة الله عليه“ کہنے میں کیا حرج ہے؟  

 Read More 

ماہ محرم : تاریخ اسلامی کا عظیم شاہکار.


ہندوستان میں تعزیہ کی ابتداء کب اور کیسے ہوئی ؟

نیز مسلمانوں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے سے پہلے مؤمنوں کے لئے مغفرت کی دعا کرتے ہیں، اور اپنے دلوں میں ان سے کینہ کپٹ نہیں رکھتے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:  

 ﴿ وَالَّذِيْنَ جَاۗءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ ﴾(2)  

 اور جو ان کے بعد آئیں گے کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے، اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں، اور ایمانداروں کی طرف ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال، اے ہمارے رب بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے۔ 

 اس واسطے یزید بن معاویہ جو ہم سے پہلے گذرے ہیں اور بلا شبہ مسلمان تھے ان کے لئے مغفرت کی دعا کرنا اور ”غفر اللہ لہ“ یا ”رحمہ اللہ“ کہنا جائز ہے۔ 

 علاوہ ازیں یزید کے بارے میں جو الزامات ہیں ان میں ایک تو شیعہ وغیرہ نے مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے، اور اکثر و بیشتر ثابت نہیں، دوسرے ان سے ان کا کفر و ارتداد لازم نہیں آتا اور ان کا شمار مسلمانوں میں سے ہوتا ہے اس لئے ان کے لئے ”رحمة الله عليه“ کہنا نہ صرف جائز ہے بلکہ مستحب ہے۔ 

 امام غزالی رحمه الله سے سوال کیا گیا کہ: ”اس شخص کے متعلق کیا حکم ہے جو یزید پر لعنت کرتا ہے، کیا اس پر فسق کا حکم لگایا جاسکتا ہے؟ کیا اس پر لعنت کا جواز ہے؟ کیا یزید فی الواقع حضرت حسین رضي الله عنه کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، یا اس کے بارے میں سکوت افضل ہے؟“  

 تو انہیں نے جواب دیا: 

 ”مسلمان پر لعنت کرنے کا قطعا جواز نہیں ہے، جو شخص کسی مسلمان پر لعنت کرتا ہے وہ خود ملعون ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے: مسلمان لعنت کرنے والا نہیں ہوتا“(3)  

 علاوہ ازیں ہمیں تو ہماری شریعت اسلامیہ نے جانوروں تک پرلعنت کرنے سے روکا ہے(4) تو پھر کسی مسلمان پر لعنت کرنا کیسے جائز ہوگا جس کی حرمت (عزت) حرمت کعبہ سے بھی زیادہ ہے، (5) جیسا کہ حدیث نبوی ﷺمیں مذکور ہے۔ 

 یزید کا اسلام صحیح طور سے ثابت ہے، جہاں تک حضرت حسین   کے قتل کے واقعہ کا تعلق ہے تو اس بارے میں کوئی صحیح ثبوت موجود نہیں کہ یزید نے انہیں قتل کیا ،یا ان کے قتل کا حکم دیا، یا اس پر رضا مندی ظاہر کی، جب یزید کے متعلق یہ باتیں پایۂ ثبوت ہی کو نہیں پہونچتیں تو پھر اس سے بدگمانی کیوں کر جائز ہوگی، جب کہ مسلمان کے متعلق بدگمانی کرنا بھی حرام ہے، اللہ تعالی نے فرمایا ہے: 

 ﴿ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ ۡ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ﴾(6)  

 اے ایمان والو! بہت سی  بد گمانیوں سے بچتے رہو، یقین مانو کہ بعض بد گمانیاں گناہ ہیں۔ 

  اور نبی ﷺ کا ارشاد ہے: ”اللہ تعالی نے مسلمانوں کے خون، مال اور عزت و آبروکو محترم، اور اس کے ساتھ بدگمانی کرنے کو حرام قرار دیا ہے“(7) 

جس شخص کا خیال ہے کہ یزید نے حضرت حسین رضي الله عنه کے قتل کا حکم دیا یا ان کے قتل کو پسند کیا وہ پرلے درجے کا احمق ہے، کیا یہ واقعہ نہیں کہ ایسا گمان کرنے والے کے دور میں کتنے ہی اکابر، وزراء اور سلاطین کو قتل کیا گیا، لیکن وہ اس بات کا پتہ چلانے سے قاصر رہا کہ کن لوگوں نے ان کو قتل کیا اور کن لوگوں نے اس قتل کو پسند یا ناپسندکیا، درآں حالانکہ ان کےقتل  اس کے بالکل قریب میں اوراس کے زمانے میں ہوئے اور اس نے ان کا خود مشاہدہ کیا، پھر اس قتل کے متعلق (یقینی اور حتمی طور پر) کیا کہا جاسکتا ہے جو دور دراز کے علاقے میں ہوا او ر جس پر چار سو سال (امام غزالی رحمه الله کے دور تک) کی مدت بھی گذر چکی ہے۔ 

 علاوہ ازیں اس سانحہ پر تعصب و گروہ بندی کی دبیز تہیں بھی چڑھ گئی ہیں اور موضوع روایتوں کے انبار لگادئیے گئے ہیں، جس کی بنا پر اصل حقیقت کا  سراغ لگانا مشکل ہے، نیز مسلمان کے ساتھ حسن ظن رکھنا ضروری ہے۔ 

 پھر اہلحق (اہل سنت) کا مذہب تو یہ ہے کہ کسی مسلمان کے متعلق یہ ثابت بھی ہوجائے کہ اس نے کسی مسلمان کو قتل کیا ہے تب بھی وہ قاتل مسلمان کافر نہیں ہوگا، اس لئے کہ جرم قتل کفر نہیں، بلکہ ایک معصیت ( گناہ ) ہے۔ 

  پھر یہ بھی واقعہ ہے کہ مسلمان قاتل کبھی مرنے سے  پہلے توبہ بھی کر لیتا ہے اور شریعت کا حکم ہے کہ اگر کوئی کافر بھی کفر سے توبہ کر لے تو اس پر بھی لعنت کی اجازت نہیں ، پھر یہ لعنت ایسے مسلمان کے لئے کیونکہ کر جائز ہوگی جس کے بارے میں قوی امید ہے کہ اس نے مرنے سے پہلے جرم قتل سے توبہ کرلی ہوگی؟ 

 آخر کسی کے پاس اس امر کی کیا دلیل ہے کہ حضرت حسین رضي الله عنه کے قاتل کو توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوئی اور وہ توبہ کے بغیر ہی مر گیا جب کہ اللہ کا در ِتوبہ ہر وقت کھلا ہے۔ 

 ﴿وَهُوَ الَّذِيْ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ﴾(8)  

 وہ وہی  ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ 

 بہر حال کسی لحاظ سے بھی ایسے مسلمان پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے جو مرچکا ہو، جو شخص کسی مرے ہوئے مسلمان پر لعنت کرے وہ خود فاسق اور اللہ کا نافرمان ہے۔ 

  اگر ( بالفرض ) لعنت کرنا جائز بھی ہو لیکن وہ لعنت کے بجائے سکوت اختیار کئے رکھے تو ایسا شخص بالاجماع گناہ گار نہ ہوگا، بلکہ اگر کوئی شخص اپنی پوری زندگی میں ایک مرتبہ بھی ابلیس پر لعنت نہیں بھیجتا تو قیامت کے روز اس سے یہ نہیں پوچھاجائے گا کہ تو نے ابلیس پر لعنت کیوں نہیں کی؟ 

 

 جہاں تک یزید کو ”رضي الله عنه“ یا ”رحمہ اللہ“کہنے کا تعلق ہے تو یہ نہ صرف جائز ہے بلکہ مستحب ( اچھا فعل ) ہے، بلکہ وہ از خود ہماری ان دعاؤں میں شامل ہے جو ہم تمام مسلمانوں کی مغفرت کے  لئے کرتے ہیں جیسے :”اللَّهُمَّ اغفِرِ للمُؤمِنِيْنَ وَالمُؤمِنَاتِ“ اے اللہ ! تمام مومن مردوں اور عورتوں کو بخش دے۔ اس لئے کہ یزید بھی یقینا مومن تھا۔ (9) 

 بہر حال یزیدکے لئے ”رحمة الله عليه“ کا دعائیہ جملہ استعمال کر سکتے ہیں، یہ حرام نہیں ہے۔  جہاں تک ان کے لئے ”رضي الله عنه“ کے استعمال کی بات ہے تو چوں کہ اکثر و بیشتر اس کا استعمال صحابۂ کرام کے لئے ہوتا ہے اس لئے اس کے استعمال سے احتراز کریں تو بہتر ہے، مگر علامہ ابن رشد اور ابن قدامہ رحمة الله عليهما وغیرہ بہت سے علماء کرام نے اس کا استعمال امام مالک رحمه الله اور امام ابو حنیفہ رحمه الله وغیرہ کے لئے بھی کیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر صحابی کے لئے بھی اس کے استعمال کی گنجائش اور جواز ہے، اور معنی کے اعتبار سے بھی اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ 

________

(1) صحيح البخاري: 6 /103 [2924] کتاب الجهاد، باب ما قيل في قتال الروم. 

(2) الحشر:10.

(3) سنن الترمذي:4 /350 [1977]كتاب البر والصلة،باب ما جاء في اللعنة، وقال الألباني: صحيح. 

نعمة المنان 

تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی