Masjid-zilhijja

  یقینا عشرۂ ذی الحجہ گوناگوں خصوصیات و برکات اور مختلف النوع مسائل کا حامل ہے جہاں ایک طرف حج جیسی اہم عبادت انہیی ایام میں ادا کی جاتی ہے تو وہیں دوسری طرف عید الاضحی جیسا خوشیوں سے لبریز اسلامی تہوار بھی انہیں ایام کی زینت بنا ہے , اسی وجہ سے بہت سے احکام و مسائل ان ایام سے وابستہ ہیں, ہم رفتہ رفتہ ان تمام احکام و مسائل کو بیان کرنے کا سلسلہ شروع کر رہے ہیں آپ قارئین سے ملتمس ہیں کہ یہ مسائل سوالات و جوابات کی شکل میں ہوں گے لہذا انہیں ضرور پڑھیے اور شریعت اسلامی سے روشناس ہویے 

یہ تحریر ناخن اور بال ترشوانے کے سلسلے میں ہے 

سوال :    ہمارے یہاں یہ مشہور ہے کہ بقر عید کا چاند نظر آنے کے وقت سے قربانی تک اگر وہ لوگ جن کے یہاں قربانی نہیں ہو رہی ہے، اپنے بال اور ناخن نہ ترشوائیں تو انھیں قربانی کا ثواب ملے گا، جب کہ بعض علماء کی تقریروں میں ہم نے سناہے کہ یہ حکم ان کے لئے ہے جن کے یہاں قربانی ہونے والی ہے، براہ کرم دلائل سے صحیح بات کی وضاحت فرمائیں۔  

جواب:   جو لوگ قربانی کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں، ان کے لئے ذی الحجہ کا چاند نظر آنے سے لے کر قربانی کرنے تک بال اور ناخن تراشنے کی ممانعت ہے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

  جب  ذی الحجہ کا پہلا عشرہ داخل ہو، اور تم میں سے کسی کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو تو اپنے بال اور کھال میں سے کسی کو ہاتھ نہ لگائے۔ 
  ایک روایت میں ہے: 
 ”فَلاَ يَأْخُذَنَّ شَعْرًا وَلاَ يَقْلِمَنَّ ظُفُرًا“(2) 
 تو وہ نہ بال کاٹے نہ ناخن تراشے۔ 
 اور ایک روایت میں ہے: 
 جس شخص نے ذی الحجہ کا چاند دیکھا اور اس کی نیت قربانی کرنے کی ہو تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔ 
 اس حدیث کی بناء پر امام احمد، اسحاق، سعید بن المسیب، ربیعہ، اور بعض شافعیہ وحنابلہ وغیرہ اس بات کی جانب گئے ہیں کہ جس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو اس کے لئے ذی الحجہ کے پہلے عشرہ میں اپنے ناخن اور بال کاٹنا اور کٹوانا جائز نہیں، کیونکہ بظاہر نہی تحریم کے لئے ہے، یہی فتویٰ علماء اہل حدیث کا بھی ہے(5)۔ 
 بعض ائمہ نے یہاں نہی کو تنزیہی مانا ہے، اور اس کی بنیاد پر اس عشرہ میں بال کاٹنے کو صرف مکروہ قرار دیا ہے، مگر راجح پہلا قول ہی معلوم ہوتا ہے۔  
 البتہ اگر کسی نے ناخن اور بال کٹوا لئے تو اس کے اوپر کوئی کفارہ نہیں ہے، اس کے لئے صرف توبہ واستغفار کرنا ہی کافی ہے۔ 

علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں 

Zilhijja -mosque

 ”فَإِنَّهُ يَتْرُكُ قَطْعَ الشَّعْرِ وَتَقْلِيمَ الْأَظْفَارِ، فَإِنْ فَعَلَ اسْتَغْفَرَ اللَّهَ تبارک و تَعَالَى، وَلَا فِدْيَةَ فِيهِ إجْمَاعًا، سَوَاءٌ فَعَلَهُ عَمْدًا أَوْ نِسْيَانًا“(6) 
 
قربانی کا ارادہ رکھنے والا بال او ر ناخن تراشنا ترک کردے گا اور اگر اس نے تراش لیا تو اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرے گا 
اور بالاجماع اس پر فدیہ نہیں ہے، خواہ اس نے ایسا عمدا کیا ہو یا بھول چوک کر۔ 

 اور جو قربانی کا ارادہ نہیں رکھتا اس کے لئے اس عشرہ میں ناخن اور بال تراشنے سے ممانعت کے بارے میں میری نگاہ سے کوئی صریح حدیث نہیں گذری، البتہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: 
 "أُمِرْتُ بِيَوْمِ الْأَضْحَى عِيدًا جَعَلَهُ اللَّهُ حل جلالہ و عم نوالہ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ، قَالَ الرَّجُلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَجِدْ إِلَّا مَنِيحَةً أُنْثَى أَفَأُضَحِّي بِهَا؟ قَالَ: لَا وَلَكِنْ خُذْ مِنْ شَعْرِكَ وَأَظْفَارِكَ وَتَقُصُّ مِنْ شَارِبِكَ وَتَحْلِقُ عَانَتَكَ فَذَلِكَ تَمَامُ أُضْحِيَّتِكَ عِنْدَ اللَّهِ" رواه ابوداود(7)، والنسائي(8)، والحاكم(9) وصححه، ووافقه الذهبي، وضعفه الألباني، انظر المشکاة مع تعليق الألباني:1/ 466 [1479] والمشكاة مع المرعاة: 1/ 466۔ 

 مجھے قربانی کے دن عید منانے کا حکم دیا گیا ہے، اللہ تعالی نے اس امت کے لئے اسے عید قرار دیا ہے، اس پر آپﷺ سے ایک شخص نے عرض کیا: اگر میرے پاس دودھ کے لئے عاریۃً دی گئی بکری کے سوا کوئی جانور نہ ہو تو کیامیں اسی بکری کی قربانی کردوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں! لیکن (قربانی کے دن) اپنے بال اور ناخن تراش لو، اپنے مونچھ کے بال کاٹ لو اور زیر ناف بال کا حلق کرلو، یہ اللہ کے نزدیک تمہاری مکمل قربانی ہو جائے گی۔ 

 اس حدیث کی بناء پر بعض علماء نے اس شخص کے لئے بھی جس کے پاس قربانی کی استطاعت نہ ہو، اس عشرہ میں ناخن اور بال تراشوانے سے اجتناب کرنے کو کہا ہے، لیکن جیساکہ آپ دیکھ رہے ہیں اس حدیث میں ناخن اور بال تراشنے کی ممانعت نہیں ہے، بلکہ اس کے لئے قربانی کے دن سر، مونچھ، اور زیر ناف بال اور ناخن کے کاٹنے کی فضیلت اور قربانی کے برابر اجر وثواب کا بیان ہے، اسی بنا پر امام نسائی وغیرہ نے اسے ”باب مَنْ لَمْ يَجِدِ الأُضْحِيَةَ“ کے تحت ذکر کیا ہے۔ 
 اس واسطے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس کے پاس قربانی کرنے کی استطاعت نہ ہو، اگر وہ اس عشرہ میں ناخن اور بال مختصراً تراش لے، اور پھر دس تاریخ کوبھی تراش لے تو وہ اس اجر سے محروم اور کسی ممنوع چیز کا مرتکب نہیں ہوگا۔  
یاد رہے کہ اس حدیث کی تصحیح و تضعیف کے بارے میں
 اختلاف ہے، مگر راجح یہ ہے کہ یہ ضعیف ہے اس واسطے غیر مستطیع کے لئے یوم النحر کو بال اور ناخن ترشوانے پر قربانی کے ثواب کی بات محل نظر ہے۔ واللہ اعلم۔

________
(1) صحيح مسلم:13/ 138[1977]كتاب الأضاحي،باب نهي من دخل عليه عشر ذي الحجة وهو مريد التضحية أن يأخذ من شهره أو أظفاره شيئا. 
(2) سنن النسائي:7/211 [4361]كتاب الضحايا. 
(3) سنن النسائي:7/ 212 [4365] كتاب الضحايا، باب من

مزید پڑھیے 

عشرۂ ذی الحجہ میں زیر ناف اور بغل کے بال کاٹنا بھی ممنوع  

سوال.  :     عشرۂ ذی الحجہ میں جو بال کاٹنے کی ممانعت ہے اس کا تعلق صرف سر اور مونچھ کے بالوں سے ہے یا بغل اور زیر ناف بال بھی اس میں داخل ہیں؟ 

جواب:    اس میں سر، مونچھ ،بغل اور زیر ناف وغیرہ سب کے بال داخل ہیں، کیونکہ حدیث کے الفاظ: ”فَلاَ يَمَسَّ مِنْ شَعَرِهِ“ میں عموم ہے، اسی طرح بالوں کا قینچی سے کاٹنا، استرے یا بلیڈسے مونڈنا، ہاتھ وغیرہ سے اکھاڑنا، کسی چیز سے جلانا، یا بال صفا صابن وغیرہ سے صاف کرنا سب داخل ہیں، امام نووی رحمه الله شرح المہذب: (8/ 291) میں فرماتے ہیں:  
 ”وَالْمَنْعُ مِنْ إزَالَةِ الشَّعْرِ بِحَلْقٍ أَوْ تَقْصِيرٍ أَوْ نَتْفٍ أَوْ إحْرَاقٍ أَوْ بِنَوْرَةٍ وَغَيْرِ ذَلِكَ وَسَوَاءٌ شَعْرُ الْعَانَةِ وَالْإِبِطِ وَالشَّارِبِ وَغَيْرِ ذلك“ 
 اورممانعت بال کے حلق یا تقصیر یا اکھاڑنے یا جلانے یا چونا وغیرہ کے ذریعے زائل کرنے سے ہے، اور اس میں زیر ناف اور بغل اور مونچھ وغیرہ کے بال برابر ہیں۔ 
 اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ داڑھی کے بالوں کا مونڈنا ہر حالت میں ممنوع ہے۔ 
🌴🕋🌴

قربانی کے بعد بال اور ناخن کٹوانا ضروری نہیں 

سوال.   :     کیا جس کے پاس قربانی ہے دس ذی الحجہ کو اسے قربانی کرنے کے بعد اپنے بال کٹوانا ضروری ہے؟ 

جواب:   جس کے پاس قربانی ہے اس کے لئے ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد بال اور ناخن کاٹنے کی ممانعت ہے، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
 ذی الحجہ کا پہلا عشرہ داخل ہو تو تم میں سے جو قربانی کرنا چاہے وہ اپنے بال اور چمڑے کو نہ چھوئے، اور ایک روایت میں ہے کہ وہ نہ بال چھوئے اور نہ ناخن کاٹے۔رواه مسلم(1) 
 لیکن دس ذی الحجہ کو قربانی کے بعد بال کٹوانا ضروری نہیں ہے، کیونکہ اس کا کسی حدیث میں حکم نہیں ہے، اس واسطے اس کو واجب سمجھنا درست نہیں ہے۔
 

نعمة المنان مجموع فتاوى فضيلة الدكتور فضل الرحمن

اس سائٹ کی دوسری مشہور تحریریں کلک کرکے ضرور پڑھیں 

1 تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی