قربانی کےلئے  نصاب زکاة کا مالک ہونا 

شرط نہیں

Mosque

سوال :   کیا قربانی کرنے کے لئے زکاة کے نصاب کا مالک ہونا شرط ہے؟ 

جواب:       کتاب وسنت میں کہیں بھی قربانی کے لئے نصاب زکاة کے مالک ہونے کی شرط وارد نہیں ہے، بلکہ جس کے پاس قربانی کرنے کی استطاعت ہو اس کو تاکیدی حکم دیا گیا ہے۔  
 چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ  ﷺنے فرمایا: 
 ”مَنْ کَانَ لَهُ سَعَة وَلَمْ يُضَحِّ فَلَا يَقْرُبَنَّ مُصَلَّانَا“ رواه ابن ماجه(1) 
  جس کے پاس وسعت واستطاعت ہو اورقربانی نہ کرے تو وہ ہمارے مصلیٰ (عید گاہ) کے قریب نہ آئے۔ 
  اس واسطے نصاب کی شرط لگانادرست نہیں۔ 


ایک بیل کی قربانی سات افراد یا ایک گھر والوں کی طرف سے

 سوال :   عید الاضحیٰ کے موقع پر ایک بیل کے جس طرح سات حصے کئے جاتے ہیں اور سات اہل خانہ کے نام لئے جاتے ہیں اس طرح کا عمل کیا جائے یا نہیں؟ نیز کیا ایک گھر کے تمام افراد کے لئے ایک بیل کا فی ہے؟ اگرچہ گھر میں زیادہ افراد ہوں ،مثلاً چودہ ہوں تو کیا دو بیل کی قربانی کریں گے؟ 
جواب :   ایک بیل کی قربانی میں سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں، خواہ وہ ایک گھر کے ہوں یا الگ الگ گھر کے، حضرت ابن عباس   فرماتے ہیں : 
 ”كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ فِي سَفَرٍ فَحَضَرَ الأَضْحَى فَاشْتَرَكْنَا فِي البَقَرَةِ سَبْعَةً، وَفِي البَعِيرِ عَشَرَةً“ رواه الخمسة(1) إلا أبا داود۔ 
 ہم لوگ نبی ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ قربانی آگئی تو ہم نے گائے کو سات کی جانب سے اور اونٹ کو دس کی جانب سے ذبح کیا۔ 
 اس میں ایک گائے کو سات افراد کی جانب سے قربانی کرنے کا ثبوت اورذکر ہے، اور سب کے ایک ہی گھر کے افراد ہو نے کی شرط نہیں ہے، بلکہ سفر میں ہو نے کی وجہ سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ساتوں الگ الگ گھر کے رہے ہوں گے، اس واسطے ایک گھر کے سات افراد کی جانب سے بھی ایک بیل کی قربانی کر سکتے ہیں اور مختلف گھر کے سات افراد کی جانب سے بھی۔ 
 الروضۃ الندیۃ:(2/ 219) میں ہے: 
 ”ويصح اشتراك سبعة في بدنة أو بقرة، وإن كانوا أهل بيوت شتى، وهو قول العلماء“ 
 یعنی ایک اونٹ یا گائے میں سات آدمیوں کا اشتراک صحیح ہے اگر چہ وہ مختلف گھروں کے ہوں، یہی علماء کا قول ہے۔ 
  اور اگر ساتوں افراد مختلف گھر کے ہوں تو ذبح کرتے وقت ساتوں آدمیوں کا نام لینا چاہئے۔ 
 اور اگر ساتوں ایک ہی گھر کے ہوں تو گھر کے ذمہ دار کا نام لےکر اور اس کے اہل و عیال اور اہل خانہ کی جانب سے کہہ دینا کافی ہے، نبی ﷺ نے قربانی کی تو فر مایا: 
 ”بِاسْمِ اللَّهِ عز و جل، اللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ“(2) 
 اللہ کے نام سے ذبح کرتا ہوں، اے اللہ تو محمد اور آل محمد کی جانب سے اور امت محمد کی جانب سے قبول فرما ،اور پھر ذبح کیا۔  
 اور ایک مرتبہ یہ فرمایا: 
 ”اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ، وَعَنْ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم وَأُمَّتِهِ بِاسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ“(3) 
 اے اللہ یہ تیری جانب سے ہے اور تیرے ہی لئے ہے محمد اور ان کی امت کی طرف سے ، بسم اللہ واللہ اکبر. 
 اور ایک روایت میں ہے: 
 ”بِسْمِ اللَّهِ عز وجل ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، هَذَا عَنِّي وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي“(4) 
 اللہ کے نام سے ذبح کرتا ہوں اور اللہ سب سے بڑا ہے، اے اللہ یہ میری جانب سے ہے اور میری امت میں سے جس نے قربانی نہیں کی ہے اس کی جانب سے ہے۔ 
 رہا یہ سوال کہ ایک گھر کے تمام افراد کی جانب سے ایک بیل کافی ہے یا گھر میں اگر زیادہ افراد ہوں، مثلاً چودہ تو دو بیل کی قربانی کریں؟  
 تو اس کا جواب یہ ہے کہ گھر کے تمام افراد کی جانب سے ایک بکرا بھی کا فی ہے اور ایک بیل اور اونٹ بھی، خواہ گھر کے افراد کتنے بھی ہوں، حضرت عطاء بن یسار سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ایوب انصاری  سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں آپ لوگوں میں قربانی کیسے ہو تی تھی؟ انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے عہد میں آدمی ایک بکری کی قربانی اپنی جانب سے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے کیا کر تا تھا،اور اسی میں سے وہ کھاتے اور کھلاتے تھے یہاں تک کہ لوگوں نے فخر کر نا شروع کردیا تو اس طرح ہو گیا جیسا تم دیکھ رہے ہو۔(أخرجه ابن ماجه(5) والترمذي(6) وصححه، وأخرج نحوه ابن ماجه من حديث أبي شريحة بإسناد صحيح، انظر:نيل الأوطار: 5/ 120، الروضة الندية: 2/ 218) 
 اور صحیح بخاری (10/ 5) مع الفتح میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: 
 ”فَلَمَّا كُنَّا بِمِنًى، أُتِيتُ بِلَحْمِ بَقَرٍ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا؟ قَالُوا: ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ أَزْوَاجِهِ بِالْبَقَرِ“(7) 
 جب ہم منیٰ میں تھے تو گائے کا گوشت لایا گیا، میں نے کہا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات کی جانب سے گائے کی قربانی کی ہے۔ 
 اور معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی سات ہی نہیں بلکہ نو بیویاں تھیں، اس سے معلوم ہوا کہ گھر کے ہر فرد کی طرف سے ایک حصہ کر نا ضروری نہیں ہے۔ 
 المغنی لابن قدامۃ (9/ 347 [7855])  میں ہے: 
 ”وَلَا بَأْسَ أَنْ يَذْبَحَ الرَّجُلُ عَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ شَاةً وَاحِدَةً، أَوْ بَقَرَةً أَوْ بَدَنَةً. نَصَّ عَلَيْهِ أَحْمَدُ. وَبِهِ قَالَ مَالِكٌ وَاللَّيْثُ وَالْأَوْزَاعِيُّ وَإِسْحَاقُ، وَرُوِيَ ذَلِكَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ“  
 اس میں کوئی حرج نہیں کہ آدمی اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری یا گائے یا اونٹ ذبح کرے ، اس کی صراحت امام احمد نے کی ہے اور اسی کے قائل امام مالک، لیث، اوزاعی اور اسحاق ہیں اور یہی حضرت ابن عمر  اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے۔ 
 اور چونکہ  بیل یا اونٹ کا ایک حصہ ایک بکری کے قائم مقام ہو تا ہے اس واسطے جیسے ایک بکری پورے گھر والوں کی طرف سے کافی ہوتی ہے اسی طرح اونٹ یا بیل کا ایک حصہ بھی پورے گھر والوں کی طرف سے ان شاء اللہ کا فی ہو جائے گا۔ 
 الروضۃ الندیۃ (2/ 219)میں ہے: 
 ”وقال المحلي: البعير والبقرة تجزئ عن سبعة، والشاة تجزئ عن الواحد، وإن كان له أهل بيت حصلت بجميعهم، وكذا يقال في كل واحد من السبعة؛ يعني: المشتركين في البدنة والبقرة، فالتضحية سنة كفاية لكل أهل بيت، وسنة عين لمن ليس له بيت“

قربانی کی اہمیت رفاہی کاموں سے کم نہیں


سوال :   یہاں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قربانی کی فضیلت میں کوئی حدیث وارد نہیں ہے، اس واسطے مسلمانوں کا اس کا اس قدر اہتمام کرنا درست نہیں، یہ پیسے رفاہی کاموں میں صرف کرنا چاہئے، اور یہ لوگ خود بھی قربانی نہیں کرتے۔ براہ کرم بتائے کہ ہم ان کو کس طرح سمجھائیں؟

جواب:    آپ لوگ انھیں بتائیے کہ رفاہی کاموں کی اہمیت ضرور ہے، مگر یہ کام دیگر عبادتوں کو ترک کر کے انجام دینا درست نہیں، کوئی رفاہی کاموں میں مشغولیت کا بہانہ کر کے نماز ترک کر دے، یا فرض حج کرنے نہ جائے، اسی طرح قربانی نہ کرے تو اس سے بڑا نادان کوئی نہیں، کیونکہ وہ ایک نیک کام کو اس کی حیثیت سے زیادہ مقام دے رہا ہے، اور دوسری اہم عبادتوں کی حیثیت و اہمیت نہ صرف کم کر رہا ہے بلکہ اس سے بے اعتنائی برت رہا ہے، جو یقینا غلط اور بہت بڑا گناہ ہے۔ 
 اب قربانی کے بارے میں دیکھئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
 ﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾(1) 
  اپنے رب کے لئے نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے۔ 
  یہاں اللہ تعالیٰ نے قربانی کرنے کا حکم دیا ہے جس سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہر مسلمان کر سکتا ہے، یوں تو ﴿وَانْحَرْ﴾ کے کئی معنی بیان کئے گئے ہیں، لیکن امام ابن کثیر نے اسی کو ترجیح دی ہے کہ اس سے مراد قربانی کے جانور کو ذبح کرنا ہے۔ 
 یہ بات اہل علم سے مخفی نہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ میں تو قیام کی حالت میں ہر سال قربانی کرتے ہی تھے آپ اور آپ کے صحابہ کرام   سفر میں بھی اس کا اہتمام فرماتے تھے، حضرت ابن عباس   فرماتے ہیں: 
 ”كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ فِي سَفَرٍ فَحَضَرَ الأَضْحَى فَاشْتَرَكْنَا فِي البَقَرَةِ سَبْعَةً، وَفِي البَعِيرِ عَشَرَةً“(رواه الترمذي(2) والنسائي(3) وابن ماجه(4)وسنده صحيح) 
  ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ عید الاضحیٰ آگئی تو ہم لوگ ایک گائے میں سات آدمی اور ایک اونٹ میں دس آدمی شریک ہوئے۔ 
 اور یہ حدیث بھی صحیح سند سے وارد ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
 جو شخص استطاعت رکھتا ہو پھر بھی قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ پھٹکے۔  
 کیا اس کے بعد بھی کسی مسلمان کے لئے یہ کہنے کی گنجائش ہے کہ مسلمانوں کا قربانی کا اس قدر اہتمام کرنا درست نہیں؟ 
  پھر غور کیجئے کہ کیا قربانی میں عبادت کے ساتھ سماجی خدمت اور رفاہی کام نہیں ہے؟ کیا عید کے دن قربانی کرکے اس کا گوشت غریبوں، مسکینوں، بیواؤں اور یتیموں کے گھر پہونچانا اور ان کے لئے اچھے کھانے کا انتظام کرکے ان کو خوش کرنا، سماجی خدمت اور رفاہی کام نہیں ہے؟ 
 کیا قربانی کر کے اس کے چمڑے سے دینی مدارس وجامعات اور اسلامی تحریکوں اور جماعتوں کا تعاون کرنا، غریبوں اور بیواؤں کی مدد کرنا، نادار طلبہ و طالبات کی فیس اور کتاب و کاپی وغیرہ کا انتظام کرنا رفاہی خدمت نہیں ہے؟ اگر عقل سلیم اور صحیح غور و فکر سے کام لیں تو بآسانی اس کا سماجی خدمت ورفاہی کام ہونا سمجھ میں آجائے گا۔
 

قربانی کے بدلے اس کی قیمت کا صدقہ کرنا درست نہیں



سوال :  یہاں بعض حضرات کہتے ہیں کہ قربانی سے بہتر اس کی قیمت کا صدقہ کردینا ہے، کیونکہ قربانی کی صورت میں جانوروں کو اذیت ہوتی ہے اور اپنے کام و دہن کی لذت کے لئے ان کی جان لینا اور ان کو تکلیف پہنچانا ظلم ہے، اس سے ہمارے برادران وطن کو بھی تکلیف ہوتی ہے، اور آج مسلمانوں کو گوشت کھانے سے زیادہ دوسری چیزوں کی ضرورت ہے، اس واسطے مسلمانوں کو قربانی کرنے کے بجائے اس کی قیمت غرباء و مساکین کو دیدینا یا رفاہی کاموں میں لگانا چاہئے۔ 

جواب:     صدقہ و خیرات ایک بہت ہی اچھا عمل ہے، اور اللہ تعالیٰ جس کو مال و ولت سے نوازے اسے خوب صدقہ و خیرات کرنا چاہئے، لیکن اس کو قربانی کا بدل قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ قربانی ایک مستقل عبادت ہے اور صدقہ و خیرات دوسری عبادت ہے، جیسے حج کے بدلے صدقہ و خیرات کرنا، یا نماز پڑھنا، یا روزہ رکھنا کافی نہیں، یا نماز کے بدلے روزے رکھنا، یا روزے کے بدلے زکاة دینا، یا زکاة کے بدلے نماز پڑھنا یا روزہ رکھنا جائز اور کافی نہیں اسی طرح قربانی کے بدلے اس کی قیمت کا صدقہ کرنا بھی جائز اور کافی نہیں، کیونکہ یہ دونوں الگ الگ عبادتیں ہیں اور دونوں کے الگ الگ فوائد و حکمتیں ہیں، اگر اس کی گنجائش ہوتی تو کتاب و سنت میں اس کا ضرور بیان ہوتا۔  
 رہا کچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ اس سے جانوروں کو تکلیف ہوتی ہے تو ان سے عرض ہے کہ مصلحت راجحہ کو نہ دیکھ کر صرف تکلیف کو دیکھیں گے تو جانوروں کو ہل جوتنے ،بیل گاڑی میں استعمال کرنے ، ان پر سواری کرنے، اور یکہ وبگھی میں استعمال کرنے سے بھی منع کرنا پڑے گا، کیونکہ ان کاموں سے بھی جانوروں کوتکلیف ہوتی ہے، تو کیا یہ حضرات ان سارے کاموں کو ممنوع  قرار دیں گے؟ 
 گائے، بھینس، بکری کا دودھ نکالنے سے ان کے بچوں کو تکلیف ہوتی ہے تو کیا ان کے دودھ نکالنے اور اس سے استفادہ کرنے کو بھی یہ منع کردیں گے؟ انھیں قربانی میں جانوروں کو ذبح کرنے سے جو تکلیف چند سکنڈوں تک کے لئے ہوتی ہے وہ نظر آتی ہے مگراس سے ان کے گوشت، چمڑے، چربی، ہڈی اور سینگ وغیرہ سے حاصل ہونے والے بے شمار فوائد کیوں نظر نہیں آتے؟ 
 انھیں قربانی، عقیقہ وغیرہ کے لئے ذبح کرنے سے جانوروں کو ہونے والی تکلیف کا بڑا شدید احساس ہوتا ہے، مگر گجرات وغیرہ میں ہزاروں انسانوں کے نہایت بے دردی سے ذبح اور قتل کردینے، عورتوں ، بچوں، بوڑھوں کو زندہ جلادینے، عورتوں کی اجتماعی عصمت دری اور ان کے پیٹ کو چاک کر کے بچوں کو نکال کر ذبح کرنے اور مسلمانوں اور اقلیتوں کی کروڑوں روپئے کی جائداد اور گھر بار کو پھونک دینے اور مساجد و مقابر کو تباہ و بربا د کردینے سے آخر تکلیف کیوں نہیں ہوتی؟

قربانی کے لئے گھر کے پالے ہوئے بکرے کا بھی دانتا ہونا ضروری

سوال :    لوگوں میں مشہور ہے کہ بکرا اگر گھر کا پالا ہوا ہو اور ایک سال کا یا اس سے زیادہ کا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے خواہ دانتا ہو یا نہ دانتا ہو، کیا یہ صحیح ہے؟ 

جواب :   یہ صحیح نہیں ہے، بلکہ بکری اور بکرے کا دانتا ہونا ضروری ہے، جیسا کہ حدیث: 
 سے معلوم ہوتا ہے،البتہ اگر بھیڑ ہو تو اس کا جذعہ(ایک سال کابچہ) بھی جائز ہے۔

تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی