عشرہ ذوالحجہ کی فضیلت مسجد کے ساتھ

یقینا اللہ رب العالمین نے اس امت مسلمہ کے لئے کچھ ایسے مواقع فراہم کیئے ہیں جنہیں پا کر ایک مومن حسنات کی بلندیوں کو چھو سکتا ہے اور اور دائمی کامرانی سے مالا مال ہو سکتا ہے انہیں مواقع کی ایک کڑی ماہ ذوالحجہ کی پہلا  عشرہ ہے جو فضائل و برکات سے لبریز ہے جس کی اہمیت کا اندازہ قرآن سے لگایا جاسکتا ہے.


 عشرہ ذوالحجہ کی فضیلت قرآن سے


قسم ہے فجر کی ۔ اور دس راتوں کی ۔ (سورہ فجر)  
دس راتوں سے کونسی راتیں مراد ہیں؟؟

اس  بارے میں اکثر مفسرین کی راۓ یہ ہے کہ اس سے مراد ذی الحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں ابن عباس اورابن زبیر رضي اللہ تعالی عنہما اورمجاھد ، اورکئی ایک سلف رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ یہ عشرہ ذی الحجہ ہے ، اور ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : اوریہی صحیح ہے ۔ ( تفسیر ابن کثیر  8 / 413 ) 
 

ذی الحجہ کے دس دنوں کی فضیلت احادیث صحیحہ سے۔

 
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ رسول اللہ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ : " مَا الْعَمَلُ فِي أَيَّامِ الْعَشْرِ أَفْضَلَ مِنَ الْعَمَلِ فِي هَذِهِ ". قَالُوا : وَلَا الْجِهَادُ ؟ قَالَ : " وَلَا الْجِهَادُ، إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ يُخَاطِرُ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ بِشَيْءٍ ".(رواہ البخاری  | بَابُ فَضْلِ الْعَمَلِ فِي أَيَّامِ التَّشْرِيقِ

 عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ   نبی کریم  ﷺ  نے فرمایا ان دنوں(اس سے مراد عشرہ ذی الحجہ کے دس دن ہیں یہی بات حافظ ابن حجر نے لکھی ہے اس حدیث کی شرح میں  *وفي حديث جابر في صحيحي أبي عوانة وابن حبان " ما من أيام أفضل عند الله من أيام عشر ذي الحجة " فظهر أن المراد بالأيام في حديث الباب أيام عشر ذي الحجة*  )کے عمل سے زیادہ کسی دن کے عمل میں فضیلت نہیں۔ لوگوں نے پوچھا اور جہاد میں بھی نہیں۔ آپ  ﷺ  نے فرمایا کہ ہاں جہاد میں بھی نہیں سوا اس شخص کے جو اپنی جان و مال  کے ساتھ اللہ کی راہ میں  نکلا اور واپس آیا تو ساتھ کچھ بھی نہ لایا  
(سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کردیا) ۔


ان ایام میں نیک عمل دیگرایام کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہیں۔
 ان ایام میں تکبیرات تھلیلات اور تسبیحات کاحکم دیاگیا ہے۔ مسندا حمد کی روایت ہے نبی ﷺ کافرمان ہے:
(فاکثروافیھن من التکبیر والتھلیل والتحمید)
ترجمہ: ان ایام میں کثرت کےساتھ تکبیرات،تھلیلات اور تحمیدات بیان کرو۔


علامہ ابن کثیر کی تحقیق 


🔴 علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ نے ان دنوں کو عظیم بنایا ہے اور نبیﷺ نے اسکی جو فضیلت احادیث مبارکہ میں بیان کی ہے اسکی ایک بہت بڑی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس عشرہ میں بہت ساری عبادتیں یکجا اور اکٹھا کر دی گئی ہیں جو کہ کسی اور عشرے یا مہینے میں نہیں کی گئی ہیں ۔۔۔۔۔"
چنانچہ آپﷺ اس عشرہ میں کثرت سے روزہ رکھتے ، نوافل کا اہتمام کرتے ، صدقات و خیرات میں سبقت ، تلاوت قرآن میں دلچسپی، تکبیرات و تسبیحات سے زبان مبارک کو ہمیشہ تر رکھتے تھے۔
نیز اس عشرہ میں وقوف عرفہ ہوتا ہے جس کے بارے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ۔۔الْحَجُّ عَرَفَةُ....اس حدیث کی شرح میں صاحب تحفہ علامہ عبد الرحمن مبارکپوری نے تحفۃ الاحوذی میں لکھا "( الحج عرفة ) أي الحج الصحيح حج من أدرك يوم عرفة قاله الشوكاني .)
صحیح حج اسی کا ہوگا جس نے 
عرفہ کے دن کا  قیام  کیا  ۔

مزید پڑھیے 



اس عشرہ کی فضیلت کے بارے میں بعض لوگوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ذی الحجہ کے دس دن رمضان کے آخری عشرہ سے بھی زیادہ افضل ہیں کیونکہ اس میں روزہ کے ساتھ ساتھ تمام عبادتیں یکجا ہوگئی ہیں ۔۔
لیکن بعض لوگوں نے کہا کہ نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ رمضان کا آخری عشرہ ہی  زیادہ افضل کیونکہ اس میں لیلۃ القدر ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔۔۔۔جیسا کہ قرآن کی آیت سے واضح ہے ۔۔"
لَیۡلَةُ ٱلۡقَدۡرِ خَیۡرࣱ مِّنۡ أَلۡفِ شَهۡرࣲ...(سورة القدر آیت نمبر 3 ) 

اس مسئلہ میں تیسرا قول یہ ہے کہ  ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن سال کے تمام دنوں سے افضل ہیں۔  رمضان کی آخری دس راتیں سال کی تمام راتوں سے  افضل ہیں۔(تفسیر ابن کثیر  سورۃ الحج آیت نمبر *۲۸* )

قارئین کرام! اس عشرہ کی اتنی فضیلت ہے کہ ہمارے اسلاف اس میں خاص طور پر اعمال صالحہ کی طرف سبقت کرتے  تھے ۔۔۔انکے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ تین عشروں میں وہ کافی محنت کیا کرتے تھے *ذی الحجہ  اور محرم کے ابتدائی دس دنوں میں اور رمضان کے آخری عشرہ میں 

اس عشرہ میں ہم کیا کریں ؟


 اس عشرہ میں ہم کثرت سے روزہ رکھیں کیونکہ نبی کریم ﷺ  اس میں کثرت سے روزہ رکھتے تھے چنانچہ نسائی کی ایک روایت دیکھیں : 
 
   أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَصُومُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَتِسْعًا مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، وَثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنَ الشَّهْرِ : أَوَّلَ اثْنَيْنِ مِنَ الشَّهْرِ، وَخَمِيسَيْنِ.
 *حكم الحديث: صحيح* 

رواه  النسائي في سننه | كِتَابُ الصِّيَامِ  | صَوْمُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَبِي هُوَ وَأُمِّي وَذِكْرُ اخْتِلَافِ النَّاقِلِينَ لِلْخَبَرِ فِي ذَلِكَ ... برقم 2372  
 و أبو داؤد 2437)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی سے مروی ہے  وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذی الحجہ کے  ( شروع )  کے نو(٩) دنوں کا روزہ رکھتے، اور یوم عاشورہ  ( دسویں محرم )  کا روزہ رکھتے نیز ہر ماہ تین دن یعنی مہینے کے پہلے پیر  ( سوموار، دوشنبہ )  اور جمعرات کا روزہ رکھتے .
روزہ کے تعلق سے حدیث قدسی ہے :
 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النبی صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلّ : الصَّوْمُ لِي، وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، ۔۔(صحيح البخاري للامام البخاری| كِتَاب التَّوْحِيدِ| بَابُ قَوْلِ رب العالمین  : يُرِيدُونَ أَنْ يُبَدِّلُوا كَلَام اللَّهِ. رقم الحدیث : 7492)
اللہ تعالیٰ کہتا کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اسکا بدلہ دوں گا ۔۔۔۔۔
آپ اندازہ لگائیں کہ وہ  اللہ جسکے خزانے میں کسی چیز کی کمی نہیں وہ جب روزہ کا بدلہ دیگا تو کس قدر دے گا ۔۔۔۔
ایک حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص اللہ کی رضا کے لیے ایک دن روزہ رکھتا ہے اللہ اسے جہنم سے ستر ہزار سال کی مسافت جتنا دور کر دیتے ہیں ۔۔۔۔

عرفہ کا روزہ

اس  تعلق سے اللہ  کے نبیﷺ کی ایک حدیث جسکا ٹکڑا یہ ہے 

۔وسُئلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ ؟ فَقَالَ : " يُكَفِّرُ السّنَةَ الْمَاضِيَةَ، وَالْبَاقِيَةَ ".(صحيح مسلم | بَابٌ : اسْتِحْبَابُ صِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ. ۔۔۔۔۔رقم الحدیث 1162)
آپ ﷺ سے یوم عرفہ کے روزہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ روزہ ایک سال گزشتہ اور ایک سال آئندہ کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے ۔۔۔۔

🟡 اس عشرہ میں تکبیرات و تسبیحات کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے کیونکہ یہ عمل آپﷺ اور صحابہ سے ثابت ہے چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب العیدین میں ایک باب باندھا ہے ۔۔۔" بَابُ فَضْلِ الْعَمَلِ فِي أَيَّامِ التَّشْرِيقِ،.....
اور باب کے تحت عبداللہ بن عمر اور ابو ھریرہ رضی اللہ عنھما کا اثر نقل کیا ہے کہ وہ عشرہ ذی الحجہ میں بازار میں چلے جاتے اور  بلند آواز سے تکبیرات کہتے جسے سن کر دوسرے لوگ بھی تکبیرات کہنے لگتے"

 لیکن بڑا افسوس اور ملال ہمیں اس بات پر کہ آج ملت اسلامیہ نے بلند آواز سے تکبیرے تشریق کہنے کا مبارک اسوہ ترک کردیا ہے حالانکہ اس طرح کی سنت کو ترجیح نہ دینا خلاف شرع ہے اس طرف خواص دھیان دینا ہوگا کیونکہ وہی اس امت کے لیڈر ہیں. 
تکبیر  کے کلمات وہی ہوں گے جو نبی کریم ﷺ نے ہمیں سکھلاۓ ہیں ۔۔جیسے:
*الله اكبر الله اكبر لا اله الا الله والله اكبر الله اكبر ولله الحمد...*
 *سبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم...*
*سبحان والحمد لله والله اكبر.... وغيرہ*

لہٰذا عشرہ ذی الحجہ میں ہمیں زیادہ سے زیادہ تکبیرات کا بھی اہتمام کرنا چاہئے۔


 کثرت سےاعمال صالحہ کرنا


کیونکہ اللہ تعالی کواعمال صالحہ محبوب ہیں ، اوراس وجہ سے یہ لازم ہے کہ اس کا اجروثواب بھی اللہ تعالی سے بہت زيادہ ملے گا ، لہذا امسال  حالات کے پیش نظر حج کرنا ممکن نہيں اسے لیے خصوصاً ان حضرات کو جنہوں نے حج کا ارادہ کیا تھا  چاہیے کہ وہ ان افضل ایام و اوقات کو اللہ تعالی کی اطاعت وفرمانبرداری میں گزارتے ہوئے نماز ، تلاوت قرآن کریم ،ذکر واذکار ،دعا، صدقہ وخیرات  والدین سے حسن سلوک ، نیکی کاحکم اوربرائي سے روکنے اوراسی طرح دوسرے خیر و بھلائی کے کاموں کا خاص اہتمام کریں ۔اور ایک اہم عبادت جس کے فضائل و مناقب سے ہمارے سماج کے اکثر لوگ ناواقف ہیں ایک ایسا افضل عمل جسکا ثواب حج کے برابر ہے ۔۔۔۔۔فجر کی نماز کے بعد اپنے مصلے پر بیٹھ کر ذکر و اذکار اور تسبیحات میں لگے رہیں اور جب سورج طلوع ہو جائے یہانتک کے اشراق کا وقت ہو جاۓ تو اٹھ کر دو رکعت نماز پڑھ لیں اللہ انہیں ایک  حج  اور ایک عمرہ کے برابر ثواب دے گا۔

عنْ أَنَس قَالَ : قَالَ النبی صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ صَلَّى الْغَدَاةَ فِي جَمَاعَةٍ، ثُمَّ قَعَدَ يَذْكُرُ اللَّهَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلّی رَكْعَتَيْنِ كَانَتْ لَهُ كَأَجْرِ حَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ ". قَالَ : قَالَ النب صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " تَامَّةٍ تَامَّةٍ تَامَّةٍ "
رواہ الامام الترمذی سنن الترمذي | بَابٌ : ذِكْرُ مَا يُسْتَحَبُّ مِنَ الْجُلُوسِ فِي الْمَسْجِدِ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ ۔۔۔۔برقم 586... 

 حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:* ”جس شخص نے فجر کی نماز باجماعت پڑھی پھر بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتا رہا یہاں تک کہ آفتاب طلوع ہوگیا ، پھر دو رکعتیں  پڑھیں، تو اسے ایک حج اور ایک عمرے کا ثواب ملے گا“۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پورا، پورا، پورا۔........

  توبہ و استغفار کا اہتمام

آپ سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ مارچ کے اخیر سے اس وطن عزیز میں لاک ڈاؤن نافذ ہے کرونا جیسی وبا ہر سو اپنا پاؤں بڑی تیزی سے پسار رہی ہے اور بہتوں کو اپنے چنگل میں لے کر انہیں موت کی نیند سلا دیا ہے اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ اس کے چنگل میں اب بھی گرفتار ہیں ۔اور نہ جانے کتنے ابھی  اسکے چنگل میں جانے والے ہیں ۔۔۔ اسلیے ہمیں چاہیے کہ ہم کثرت سے  توبہ و استغفار کریں  رب  کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اپنی‌گناہو‌ں کی مغفرت کروائیں اور اس مہلک اور جان لیوا بیماری سے چھٹکارا پانے کے لیے روئیں اور گڑگڑائیں۔

آج پوری دنیا کے ڈاکٹرز حیران اور لاچار و مجبور ہیں ۔۔۔اس وبا کی کوئی دوا انکے پاس موجود نہیں اور جو دوائیں یا ویکسین تیار بھی ہو رہی  ہیں تو  ٹیسٹنگ کے پہلے ہی مرحلے میں فیل ہو جارہی ہیں اس لیے صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ راستہ توبہ و استغفار کا راستہ ہے اسی سے اس وبا کا خاتمہ ممکن ہے ۔۔۔ *اللهم ارفع عنا البلاء والوباء عاجلا غير آجل......* 
کیونکہ اگر یہی حالات کچھ مہینوں اور رہ گئے تو  اکثر گھروں میں فاقے ہونے لگیں گے۔
يا الله تو جلد از جلد اس وبا کو جڑ سے ختم کر دے اور پوری دنیا میں  امن و امان والی فضا قائم کر دے ۔۔۔آمین  

اس سائٹ کی مزید تحریریں پڑھیں





1 تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

  1. لا جواب تحریر ہے ایسی ہی تحریر کی ضرورت تھی ایک مدت سے۔ بے مثال

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی