قربانی کی تاریخ پس منظر  اور اسلامی فلسفہ مکمل حقائق و دقائق


قربانی ماہِ ذو الحجہ کی ایک اہم ترین اور عظیم الشان  عبادت ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔یوں تو اللہ کی بارگاہ میں قربانی پیش کرنے  کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے ہی سے چلا آرہا ہے، جیسا کہ حکیمُ الامّت مجدّدُ الملّت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

’’جب سے حضرت آدم علیہ السلام زمین پر تشریف لائے تب ہی سے ان جانوروں کا ذبح کرنا بحکمِ الہٰی جاری ہے، حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں ہابیل وقابیل کا قصہ قرآن شریف میں مذکور ہے کہ ہابیل نے قربانی کی تھی اور اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول ہوئی۔‘‘ (امداد الفتاویٰ)


📿 *حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں ہابیل وقابیل کا قصہ:*

اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدہ میں حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں ہابیل وقابیل کا قصہ بیان فرمایا ہے کہ دونوں نے اللہ کے حضور قربانی پیش کی، ہابیل نے ایک عمدہ دنبہ قربان کیا جبکہ قابیل نے کچھ زرعی پیداوار یعنی غلہ پیش کیا، اُس وقت قربانی قبول ہونے کی علامت یہ تھی کہ آسمان سے ایک آگ آکر قربانی کو کھالیتی، چنانچہ ہابیل کی قربانی کو آگ نے کھالیا، اس طرح اس کی قربانی قبول ہوگئی جبکہ قابیل کی قربانی وہیں پڑی رہ گئی، یوں وہ قبولیت سے محروم ہوگئی۔ 

☀ *مذکورہ واقعہ سے متعلق سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 27 ملاحظہ فرمائیں:*

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ ابْنَىْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ‌ۘ  اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِؕ قَالَ لَاَقْتُلَـنَّكَ‌ؕ  قَالَ اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ ۞ 

▪ *ترجمہ:*

’’اور (اے پیغمبر!) ان کے سامنے آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ ٹھیک ٹھیک پڑھ کر سناؤ۔ جب دونوں نے ایک ایک قربانی پیش کی تھی، اور ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوگئی، اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی۔ اس (دوسرے نے پہلے سے) کہا کہ: میں تجھے قتل کر ڈالوں گا۔ پہلے نے کہا کہ اللہ تو ان لوگوں سے (قربانی) قبول کرتا ہے جو متقی ہوں۔‘‘


▪ *تفسیر:*

’’پیچھے بنی اسرائیل کی اس نافرمانی کا ذکر تھا کہ جہاد کا حکم آجانے کے باوجود اس سے جان چراتے رہے، اب بتانا یہ مقصود ہے کہ ایک بامقصد جہاد میں کسی کی جان لینا تو نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے ؛ لیکن ناحق کسی کو قتل کرنا بڑا زبردست گناہ ہے، بنی اسرائیل نے جہاد سے تو جان چرائی، لیکن بہت سے بےگنا ہوں کو قتل کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کیا، اس سلسلے میں وہ واقعہ بیان کیا جارہا ہے جو اس دنیا میں سب سے پہلے قتل کی واردات پر مشتمل ہے، اس واقعے میں قرآن کریم نے تو صرف اتنا بتایا ہے کہ آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں نے کچھ قربانی پیش کی تھی، ایک کی قربانی قبول ہوئی، دوسرے کی نہ ہوئی، اس پر دوسرے کو غصہ آگیا اور اس نے اپنے بھائی کو قتل کرڈالا، لیکن اس قربانی کا کیا پسِ منظر تھا، قرآن کریم نے اس کی تفصیل نہیں بتائی، البتہ مفسرین نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور کچھ دوسرے صحابہ کرام کے حوالے سے ایک واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے جن میں سے ایک کا نام قابیل تھا اور ایک کا ہابیل، اُس وقت چونکہ دنیا کی آبادی صرف حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد پر مشتمل تھی اس لیے ان کی اہلیہ کے ہر حمل میں دو جڑواں بچے پیدا ہوتے تھے، ایک لڑکا اور ایک لڑکی، ان دونوں کے درمیان تو نکاح حرام تھا، لیکن ایک حمل میں پیدا ہونے والے لڑکے کا نکاح دوسرے حمل سے پیدا ہونے والی لڑکی سے ہوسکتا تھا، قابیل کے ساتھ جو لڑکی پیدا ہوئی وہ بڑی خوبصورت تھی، لیکن جڑواں بہن ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ قابیل کا نکاح جائز نہ تھا، اس کے باوجود اس کا اصرار تھا کہ اسی سے نکاح کرے، ہابیل کے لیے وہ لڑکی حرام نہ تھی، اس لیے وہ اس کے ساتھ نکاح کرنا چاہتا تھا، جب دنوں کا یہ اختلاف بڑھا تو فیصلہ اس طرح قرار پایا کہ دونوں کچھ قربانی اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کریں، جس کی قربانی اللہ تعالیٰ نے قبول فرمالی اس کا دعویٰ برحق سمجھاجائے گا، چنانچہ دونوں نے قربانی پیش کی، روایات میں ہے کہ ہابیل نے ایک دنبہ قربان کیا اور قابیل نے کچھ زرعی پیداوار پیش کی، اس وقت قربانی کے قبول ہونے کی علامت یہ تھی کہ آسمان سے ایک آگ آکر قربانی کو کھاجاتی تھی، ہابیل کی قربانی کو آگ نے کھالیا اور اس طرح اس کی قربانی واضح طور پر قبول ہوگئی اور قابیل کی قربانی وہیں پڑی رہ گئی، جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ قبول نہیں ہوئی، اس پر بجائے اس کے کہ قابیل حق کو قبول کرلیتا، حسد میں مبتلا ہو کر اپنے بھائی کو قتل کرنے کے لیے تیار ہوگیا۔‘‘ (آسان ترجمہ قرآن)

مزید پڑھیں 

یہودی تنظیم فری میسن کلب کیا مکمل حقائق

قربانی واجب ہونے کی شرائط اور قربانی کا نصاب - مکمل بحث

❄️ *وضاحت:*

مذکورہ واقعہ سے متعلق اس بات کی وضاحت کرنا فائدے سے خالی نہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے دونوں بیٹوں کو جو قربانی پیش کرنے کی تجویز دی کہ جس کی قربانی قبول ہوجائے  تو اس کا نکاح مذکورہ لڑکی سے کردیا جائے گا، تو یہ تجویز اس لیے نہیں دی کہ اگر قابیل کی قربانی قبول ہوجاتی تو اسی سے اس لڑکی کا نکاح کردیا جاتا کیوں کہ یہ تو ان کی شریعت میں جائز ہی نہیں تھا، بلکہ یہ تجویز بظاہر صرف اس لیے دی گئی کہ معاملہ قربانی کی قبولیت پر موقوف کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حوالے کردیا جائے تاکہ قابیل کے لیے بھی یہ صورتحال قابلِ قبول ہوجائے اور قربانی قبول نہ ہونے کی صورت میں وہ اپنے مطالبے سے دستبردار ہوجائے، اور یہ بات تو واضح ہی تھی کہ اللہ تعالیٰ قابیل کی قربانی قبول نہیں کرے گا کیوں کہ وہ ایک غیر شرعی مقصد کے لیے تھی، اور اس پر مستزاد یہ بھی ہوا کہ قابیل نے کوئی عمدہ چیز بھی قربانی کے لیے پیش نہیں کی، جس کی وجہ سے قربانی کی قبولیت مزید متأثر ہوئی۔ دیکھیے: تفسیرِ روح المعانی۔

☀ تفسیر ابن کثیر میں ہے:

ثم المشهور عند الجمهور أن الذي قرب الشاة هو هابيل، وأن الذي قرب الطعام هو قابيل، وأنه تقبل من هابيل شاته حتى قال ابن عباس وغيره: إنها الكبش الذي فدي به الذبيح، وهو مناسب، والله أعلم، ولم يتقبل من قابيل.

☀️ تفسیر روح المعانی میں ہے:

(نبأ ابنى آدم) هابيل عليه الرحمة وقابيل عليه ما يستحقه، وكانا بإجماع غالب المفسرين ابنى آدم عليه السلام لصلبه، وقال الحسن: كانا رجلين من بنى إسرائيل، ويد الله تعالى مع الجماعة. وكان من قصتهما ما أخرجه ابن جرير عن ابن مسعود وناس من الصحابة رضى الله تعالى عنهم أجمعين: أنه كان لا يولد لآدم عليه السلام مولود إلا ولد معه جارية، فكان يزوج غلام هذا البطن جارية هذا البطن الآخر، ويزوج جارية هذا البطن غلام هذا البطن الآخر، جعل افتراق البطون بمنزلة افتراق النسب؛ للضرورة إذ ذاك حتى ولد له ابنان يقال لهما: هابيل وقابيل، وكان قابيل صاحب زرع، وهابيل صاحب ضرع، وكان قابيل أكبرهما، وكانت له أخت واسمها إقليما أحسن من أخت هابيل، وأن هابيل طلب أن ينكح أخت قابيل، فأبى عليه وقال: هى أختى ولدت معى، وهى أحسن من أختك، وأنا أحق أن أتزوج بها، فأمره أبوه أن يزوجها هابيل، فأبى، فقال لهما: قرّبا قربانا، فمن أيكما قبل تزوجها، وإنما أمر بذلك؛ لعلمه أنه لا يقبل من قابيل، لا أنه لو قبل جاز، ثم غاب عليه السلام عنهما آتيًا مكة ينظر إليها فقال آدم للسماء: احفظى ولدى بالأمانة، فأبت وقال للأرض فأبت، وقال للجبال فأبت، فقال لقابيل فقال: نعم، تذهب وترجع وتجد أهلك كما يسرك، فلما انطلق آدم عليه السلام قرّبا قربانا فقرب هابيل جذعة وقيل: كبشا، وقرب قابيل حزمة سنبل فوجد فيها سنبلة عظيمة ففركها وأكلها، فنزلت النار فأكلت قربان هابيل، وكان ذلك علامة القبول، وكان أكل القربان غير جائز فى الشرع القديم، وتركت قربان قابيل، فغضب وقال: لأقتلنك فأجابه بما قص الله تعالى... إلخ


📿 *حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کا عظیم الشان واقعہ:*

اسی طرح قربانی سے متعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کا عظیم الشان واقعہ بھی نہایت ہی اہمیت اور خصوصیت کا حامل ہے جو کہ مشہور ومعروف ہے۔ چنانچہ قرآن کریم سورۃ الصَّافّات میں اس کا ذکر ہے، ملاحظہ فرمائیں آیت 100 تا 111:

رَبِّ هَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ ۞ فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِيْمٍ ۞ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْىَ قَالَ يٰبُنَىَّ اِنِّىْۤ اَرٰى فِى الْمَنَامِ اَنِّىْۤ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰى‌ؕ قَالَ يٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ‌  سَتَجِدُنِىْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيْنَ ۞ فَلَمَّاۤ اَسْلَمَا وَتَلَّهٗ لِلْجَبِيْنِ‌ۚ ۞ وَنَادَيْنٰهُ اَنْ يّٰۤاِبْرٰهِيْمُۙ ۞ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْيَا‌ۚ  اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِى الْمُحْسِنِيْنَ ۞ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْبَلٰٓؤُا الْمُبِيْنُ ۞ وَفَدَيْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ ۞ وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِى الْاٰخِرِيْنَ‌ۖ ۞ سَلٰمٌ عَلٰٓى اِبْرٰهِيْمَ ۞ كَذٰلِكَ نَجْزِى الْمُحْسِنِيْنَ ۞ اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِيْنَ ۞ .

▪ *ترجمہ:*

[حضرت ابراہیم علیہ السلام نےدعا مانگی کہ:] ’’اے میرے پروردگار! مجھے ایک ایسا بیٹا دے دے جو نیک لوگوں میں سے ہو۔۞ چنانچہ ہم نے انھیں ایک بُردبار لڑکے کی خوشخبری دی۔۞(1) پھر جب وہ لڑکا ابراہیم کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا تو اُنھوں نے کہا: بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں ذبح کررہا ہوں، اب سوچ کر بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے کہا: ابا جان! آپ وہی کیجیے جس کا آپ کو حکم دیا جارہا ہے،(2) ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ ۞ چنانچہ (وہ عجیب منظر تھا) جب دونوں نے سر جھکا دیا، اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل گرایا،۞(3) اور ہم نے اُنھیں آواز دی کہ: اے ابراہیم! ۞ تم نے خواب سچ کر دکھایا۔۞ یقینًا ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح صلہ دیتے ہیں۔۞ یقینًا یہ ایک کھلا ہوا امتحان تھا،۞ اور ہم نے ایک عظیم ذبیحہ کا فدیہ دے کر اُس بچے کو بچا لیا۔۞ (4) اور جو لوگ اُن کے بعد آئے اُن میں یہ روایت قائم کی۞  (کہ وہ یہ کہا کریں کہ:) سلام ہو ابراہیم پر!۔۞ ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح صلہ دیتے ہیں،۞ یقینًا وہ ہمارے مؤمن بندوں میں سے تھے۔۞‘‘


▪ *تفسیر:*

(1) اس سے مراد حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں۔

(2) یہ اگرچہ ایک خواب تھا، لیکن انبیاء کرام علیہم السلام کا خواب بھی وحی ہوتا ہے، اس لیے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اسے اللہ تعالیٰ کا حکم قرار دیا۔

(3) باپ بیٹے دونوں نے تو اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں یہی ٹھان لی تھی کہ باپ بیٹے کو ذبح کرے گا، اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹایا، تاکہ چھری پھیرتے وقت ان کی صورت دیکھ کر ارادے میں کوئی تزلزل نہ آجائے۔

(4) چونکہ باپ بیٹے دونوں اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں اپنے اختیار کا ہر کام کرچکے تھے، اس لیے امتحان پورا 

ہوگیا تھا۔ اب اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا کرشمہ دکھایا کہ چھری حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بجائے ایک مینڈھے پر چلی جو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے وہاں بھیج دیا، اور حضرت اسماعیل علیہ السلام زندہ سلامت رہے۔ (آسان ترجمہ قرآن)


   *سیدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام ہی ذبیح اللہ ہیں*


   اہل تحقیق حضرات مفسرین کی رائے یہ ہے کہ حضرت اسماعیل علی نبینا وعلیہ السلام ہی ذبیح اللہ تھے اور انہیں کی یاد میں قربانی کا حکم امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوة والسلام کو دیا گیا ہے اور تفسیر کی بعض روایات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے صاحب زادے سیدنا حضرت اسحاق علیہ الصلاة والسلام کے ذبیح اللہ ہونے کی جو بات لکھی گئی ہے محققین علماء نے اسے قبول نہیں کیا؛ کیوں کہ نہ صرف قرآن کے اسلوب ؛ بلکہ موجودہ توریت کی عبارات سے بھی اس کی نفی ہوتی ہے، اور مفسرین نے لکھا ہے کہ دراصل یہودیوں نے روایتی تعصب کا ثبوت دیتے ہوئے ذبیح اللہ ہونے کی شرافت اپنے مورث اعلی سیدناحضرت اسحاق علیہ السلام کی طرف منسوب کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کی پھیلائی ہوئی روایتوں سے متاثر ہوکر بعض اسلامی روایتوں میں بھی حضرت اسحاق علیہ السلام کو ذبیح اللہ کہہ دیا گیا ہے جو صحیح نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ذبیح الله حضرت اسماعیل علیہ السلام ہی تھے ، اور اس کی تائید بہت سے شواہد سے ہوتی ہے۔


📿 *حضرات انبیاء کرام کا خواب بھی وحی ہوتا ہے:*

یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انبیاء کرام کا خواب بھی وحی ہوتا ہے جس کے مطابق عمل پیرا ہونا ضروری ہوتا ہے، اسی لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام محض اپنے خواب کی بنا پر اپنے صاحبزادے کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوئے، جیسا کہ امام طحاوی رحمہ اللہ کی ’’شرح مشکل الآثار‘‘ میں ہے:

عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: «إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا» [يوسف: 4] قَالَ: كَانَتْ رُؤْيَا الْأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ وَحْيًا. وَكَانَ أَحْسَنُ مَا حَضَرَنَا مِمَّا يُؤَوَّلُ عَلَيْهِ هَذَا الْحَدِيثُ: أَنَّ رُؤْيَا الْأَنْبِيَاءِ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِمْ كَانَتْ مِمَّا يُوحِيهِ اللهُ إِيَّاهَا إِلَيْهِمْ، فَيُوحِي إِلَيْهِمْ فِي مَنَامَاتِهِمْ مَا شَاءَ أَنْ يُوحِيَ إِلَيْهِمْ فِيهَا، وَيُوحِي إِلَيْهِمْ فِي يَقَظَاتِهِمْ مَا شَاءَ أَنْ يُوحِيَهُ إِلَيْهِمْ فِيهَا، وَكُلُّ ذَلِكَ وَحْيٌ مِنْهُ إِلَيْهِمْ، يَجْعَلُ مِنْهُ مَا شَاءَ فِي مَنَامَاتِهِمْ، وَيَجْعَلُ مِنْهُ مَا شَاءَ فِي يَقَظَاتِهِمْ. (بَابُ بَيَانِ مُشْكِلِ مَا رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ مِنْ قَوْلِهِ: كَانَتْ رُؤْيَا الْأَنْبِيَاءِ وَحْيًا، مِمَّا نُحِيطُ عِلْمًا أَنَّهُ لَمْ يَقُلْهُ رَأْيًا، وَإِنَّمَا قَالَهُ مِنْ أَخْذِهِ إِيَّاهُ مِنْ حَيْثُ يُؤْخَذُ مِثْلُهُ)

جبکہ انبیاء کرام کے علاوہ کسی کا بھی خواب دلیل اور حجّت نہیں بن سکتا کہ اس کے مطابق عمل پیرا ہونا ضروری ہو، اور نہ ہی اس خواب کی بنا پر کوئی حکم لاگو ہوسکتا ہے۔


📿 *قربانی کا عمل ہر دین وملت میں موجود رہا ہے:*

حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں ہابیل وقابیل اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ان واقعات سے واضح ہوجاتاہے کہ اللہ کی بارگاہ میں قربانی پیش کرنا ایسی عظیم عبادت ہے جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر امتِ محمدیہ تک ہر دین وملّت میں موجود رہی ہے،جیسا کہ قرآن کریم سورت الحج آیت 34 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّيَذْكُرُواْ اسْمَ اللّٰهِ عَلىٰ مَا رَزَقَهُمْ مِّنۢ بَهِيْمَةِ الْأَنْعٰمِ.

▪ *ترجمہ:*

’’اور ہم نے ہر امت کے لیےقربانی اس غرض کے لیے مقرر کی ہے کہ وہ مویشیوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انھیں عطا فرمائے ہیں۔‘‘ (آسان ترجمہ قرآن)

اس سے یہ حقیقت تو سامنے آجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قربانی پیش کرنے کا عمل ہر امت کے لیے مقرر کیا گیا البتہ اس کے طریقے اور صورت  میں کچھ فرق ضرور رہا ہے، انھی میں سے قربانی کی ایک عظیم الشان صورت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس امتِ محمدیہ علیٰ صَاحِبِہَا الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُکو عید الاضحیٰ کی قربانی کی صورت میں عطا فرمائی ہے جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی یاد گار ہے۔


 📚حوالہ:

☆ تفسیر ابن کثیر مکمل 1134-1131

☆ معارف القرآن 7/462 

☆ کتاب المسائل 2/292

تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی