مقروض آدمی کے قربانی کرنے کا حکم

اسلامی تصویر

سوال :    مقروض آدمی قربانی کرسکتا ہے یا نہیں؟
جواب:    اگر مقروض کے پاس اتنی رقم ہے کہ وہ قربانی کرسکتا ہے اور قرض کے سلسلہ میں اس کو کوئی پریشانی نہ ہو، یعنی قرض دینے والا بر وقت اس سے مطالبہ نہ کر رہا ہو، اور امید ہو کہ بعد میں اسے ان شاء اللہ بآسانی ادا کرلے گا تو وہ قربانی کر سکتا ہے، اور اگر قرض دینے والا اس سے قرض کی ادائیگی کا مطالبہ کر رہا ہو یا خطرہ ہو کہ قربانی کرنے کی صورت میں وہ اس سے اپنے قرض کا مطالبہ کرے گا اور پریشان کرے گا تو اسے 
قربانی کرنے کے بجائے قرض ادا کرنا چاہئے۔ 

قرض لے کر قربانی کرنے کا حکم 

سوال :  اگر کسی کے پاس بروقت قربانی کا جانور خرید نے کے لئے پیسے نہ ہوں توکیا وہ قرض لے کر قربانی کر سکتا ہے؟ 
جواب:  اگر بروقت اس کے پاس پیسے نہ ہوں لیکن کچھ ہی دنوں میں پیسوں کے ملنے اور قرض کو بآسانی ادا کر دینے کی اسے امید ہو تو قرض لےکر قربانی کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، جیسے ایک شخص کی تنخواہ دس ہزار روپئے ہے اور پندرہ بیس روز میں تنخواہ ملنے والی ہے اور قربانی کا وقت آگیا اب وہ چاہتا ہے کہ کسی سے تین چار ہزار روپئے ادھار لےکر قربانی کرلے اور تنخواہ ملنے پر قرض ادا کرد ے گا تو ایسی صورت میں قرض لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، بوقت ضرورت رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام سے قرض لینا ثابت ہے۔ 

لیکن جس کے پاس قرض کی ادائیگی کا کوئی ذریعہ نہیں اور قرض کا بوجھ اٹھالینے کی صورت میں اسے پریشانی اور رسوائی کا خطرہ ہو تو اسے قرض لینے سے احتراز کرنا چاہئے، کیونکہ قرض لینا کوئی مستحسن امر نہیں ہے، صرف بوقت ضرورت جائز ہے، اور قرض دینے والے کے حق میں تو یہ مستحسن اور افضل عمل ہے، کیونکہ اس سے ایک محتاج شخص کے ساتھ تعاون ہوتا ہے ،لیکن قرض لینے والے کے حق میں صرف مباح ہے اور وہ بھی بوقت ضرورت۔ 
 
اس وقت جو بعض لوگ عید، بقر عید اور دیگر تقریبات کے مواقع پر بے تحاشہ قرض لیتے جاتے ہیں اور اپنے بال بچوں کے لئے کئی کئی جوڑے نئے کپڑے، جوتے اور کھانے پینے کے سا مان وغیرہ وافر مقدار میں اور اسی طرح قربانی کے جانور وغیرہ بلا تکلف خریدتے اور خوب کھاتے کھلاتے اور بڑے ٹھاٹ باٹ سے رہتے ہیں اور انھیں قرض کے بوجھ اور اس سلسلے کی ذمہ داریوں کا ذرا بھی احساس نہیں ہوتا ان کا یہ عمل درست نہیں، کیونکہ بعدمیں انھیں ذلت ورسوائی اور بے عزتی وبدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے،اور مقروض ہی مرجائیں توبہت بڑا بوجھ اپنے سر پر لادلے جاتے ہیں۔ 
اسلامی تصویر اللہ

قرض لےکر قربانی کرنا ضروری نہیں

سوال :   حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث: ”قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَسْتَدِينُ وَأُضَحِّي؟ قَالَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: نَعَمْ فَإِنَّهُ دَيْنٌ مَقْضِيُّ“ 

 یعنی میں نے کہا:اے اللہ کے رسول میں قرض لےکر قربانی کروں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، اس واسطے کہ یہ قرض(اللہ کی مدد سے) ادا کردیا جائے گا۔ سند کے اعتبار سے کیسی ہے؟ اور کیا قرض لےکر قربانی کرنا ضروری ہے؟ 

جواب:  اس حدیث کی روایت امام دار قطنی اور بیہقی نے کی ہے اور دونوں نے اس کی تضعیف کی ہے۔(1) 
 اس واسطے جن لوگوں نے اس سے قربانی کے وجوب کے لئے استدلال کیا ہے ان کا استدلال صحیح نہیں ہے، اور قرض لےکر قربانی کرنے کو ضروری اور واجب کہنا تو اور غلط ہے۔

نبی کریم ﷺ کی جانب سے قربانی کا حکم 

سوال :      نبی کریم ﷺ کی طرف سے قربانی کر نا درست ہے یا نہیں؟ صحابہ کرام  کے عمل سے مسئلہ کی وضاحت کریں۔ 
جواب:      حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا کسی صحابی نے رسول اللہ ﷺ کی طرف سے قربانی کی ہو اس کا ذکر مجھے روایتوں میں نہیں ملا، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کچھ رو ایتیں ہیں جن کا تذکرہ گذر چکا ہے، اگر کوئی ان روایتوں اور میت کی جانب سے قربانی کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی طرف سے قربانی کر نا چاہتاہے تو میں اس کو منع نہیں کرتا، لیکن بہتر یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے قربانی کرنے کی بجائے اپنی جانب سے یا اپنے کسی عزیز کی جانب سے قربانی یا صدقہ وخیرات کر یں.
 
اس واسطے کہ کسی کی جانب سے قربانی یا صدقہ وخیرات کرنے کا مقصد ایصال ثواب ہوتاہے، اور رسول اللہ ﷺ کو کسی کے ایصال ثواب کی ضرورت نہیں، کیونکہ آپ کے ماتقدم وما تاخر گناہوں کی بخشش اللہ نے پہلے ہی فر ما دی ہے، اور بلا ریب آپ جنتی ہیں، بلکہ جنت کے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام اور نعمتوں کے مستحق ہیں، اس لئے آپ کی بجائے اپنی جانب سے یا اپنے کسی عزیز کی جانب سے جس کو ثواب اور نیکیوں کی زیادہ ضرورت ہے صدقہ و خیرات یا قربانی کرنا افضل ہے، نیز اگر رسول اللہ ﷺ کی طرف سے قربانی کرنا افضل ہوتا تو صحابہ کرام   اس کا ضرور اہتمام فرماتے، اور کتب احادیث وآثار میں اس کا تذکرہ ہوتا۔
چاند

حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نبی ﷺ کی طرف سے قربانی کرنے کی وصیت پر عمل کا حکم 

سوال :   حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نبی ﷺ کی طرف سے وصیت تھی کہ ایک جانور اپنی طرف سے اور دوسرا میری طرف سے قربانی کرنا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تاحیات اس وصیت پر عمل کیا، اب سوال یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ والی وصیت امت کے ہر فرد پر واجب ہے، یا اس پر عمل کرنا مسنون ہے یا غیر مسنون؟ 

جواب:     حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا روایت جس میں وصیت رسول کا تذکرہ ہے اس وصیت پر عمل کرنا امت کے ہر فرد پر واجب نہیں، کیونکہ: 
 (١)یہ روایت ضعیف ہے، کیونکہ اس کی سند میں تین راوی متکلم فیہ ہیں، شریک القاضی، ابو الحسناء اور حنش۔ 
 (٢) خود اپنی طرف سے بھی قربانی کرنی واجب نہیں ہے، تو رسول اللہ ﷺ اور دوسرے لوگوں کی طرف سے کیسے واجب ہو سکتی ہے۔ 
 (٣) حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ وصیت خاص حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے کی تھی، سارے صحابہ رضی اللہ عنہم اور امت کے لئے نہیں، اس لئے اسے سب کے لئے عام نہیں کیا جاسکتا ہے، اور اگر یہ وصیت رسول اللہ ﷺ کی امت کے ہر فرد پر واجب ہو تی تو صحابہ کرا م رضی اللہ عنہم اس کی تنفیذ میں ہرگز پیچھے نہ رہتے۔ 
 لہٰذا کوئی رسول اللہ ﷺ کی جانب سے یا میت کی جانب سے قربانی کرنا چاہے تو زیادہ سے زیادہ اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔ اور بس!


اگر قربانی کا جانور مر جائے تو کیا اس کے بدلے دوسرے جانور کی قربانی واجب ہے؟ 


سوال :   زید نے ایک بکرا قربانی کے لئے خریدا، مگر اللہ کی مرضی کہ قربانی سے پہلے وہ بکرا مر گیا تو کیا زید اس کا ضامن ہوگا اور اس کے بدلے دوسرے بکرے کی قربانی اس پر واجب ہے ؟ 

جواب:   اگر بکرا جو قربانی کے لئے متعین تھا زید کی کسی کوتاہی یا تعدی کی وجہ سے نہیں مرا ہے تو وہ اس کا ضامن نہیں ہوگا، کیونکہ یہ اس کے پاس بطور امانت تھا اور امانت اگر بلا تفریط کے ضائع ہو جائے تو امین اس کا ضامن نہیں ہوتا ہے، اور اگر اس کی کوتاہی یا تعدی کی وجہ سے ہلاک ہوا ہے تو وہ ضامن ہوگا۔ 
 
اسی طرح اگر اس میں کوئی عیب پیدا ہوگیا تو دیکھا جائے گا، اگر یہ عیب اس کی کوتاہی اور تعدی کی وجہ سے نہیں پیدا ہوا ہے تو اس کی قربانی صحیح ہوگی اور اگر یہ عیب خرید نے سے پہلے ہی موجود تھا اور اس نے خریدتے وقت کوتاہی کی اور عیب دار جانور کو خرید لیا یا اس کی کوتاہی یا تعدی کی وجہ سے اس میں عیب پیدا ہوگیا تو وہ ضامن ہوگا اور اسے دوسرا غیر عیب دار جانور خرید کر قربانی کرنی پڑے گی۔ 


پیدائشی بے سینگ والے جانور کی قربانی 

سوال :   جس بکرے کو بچپن سے ہی سینگ نہ ہو اس کی قربانی کا کیا حکم ہے؟میرے پاس اسی طرح کا ایک دانتا ہوا اور تندرست بکرا ہے کیا میں اس کی قربانی کر سکتا ہوں؟ 

جواب:  اگر پیدائشی طور سے بکرے کو سینگ نہیں تو اس کی قربانی کرنے میں کوئی حرج نہیں، یہ کوئی عیب نہیں ہے،البتہ رسول اللہ ﷺ سینگ والے دنبے کی قربانی کرتے تھے، اس واسطے علماء نے سینگ والے بکرے کی قربانی کو افضل قرار دیا ہے، مگر کسی نے ایسے بغیر سینگ والے بکرے کی قربانی کو ناجائز یا مکروہ نہیں کہا ہے۔ 

*قربانی کے بعض اہم مسائل*

1 قربانی دس ذی الحجہ کو عید الاضحٰی کی نماز کے بعد سے لے کر 13 ذی الحجہ کا سورج غروب ہونے سے پہلے تک کسی بھی وقت کی جاسکتی ہے.
2- پہلے دن کی قربانی زیادہ افضل ہے.
3- رات کے وقت بھی قربانی کی جاسکتی ہے.
4- عورت بھی قربانی کا جانور ذبح کر سکتی ہے.
5- اگر ذبح کے وقت جانور کا رخ قبلے کی طرف نہیں ہے تو بھی قربانی ہو جائے گی.
6- قربانی کی پوری دعا نہ پڑھ سکیں تو کم سے کم ذبح کرتے وقت *بسم اللہ* ضرور پڑھیں.
7- قربانی کا گوشت غیر مسلم کو بھی دیا جا سکتا ہے.
8- قصاب وغیرہ کو ان کی محنت کے معاوضے کے طور پر قربانی کا گوشت دینا درست نہیں. انھیں الگ سے اجرت دی جائے.
9- قربانی کا چمڑا خود بیچ کر مستفید ہونا جائز نہیں. البتہ اسے بیچ کر اس کی قیمت صدقہ کردے تو اس کی  رخصت ہے.
10- ذبح سے پہلے جانور کو غسل دینا، وضوء کرانا یا کچھ کھلانا پلانا مشروع عمل نہیں ہے.

نعمة المنان
  ••• ═༻✿༺═ •••
اس سائٹ کی دوسری مشہور تحریریں 
کلک کرکے ضرور پڑھیں 


تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی