اسلامی مسجد

قربانی کے گم شدہ جانور کے بدلے دوسرا خرید لیں اور پھر مل جائے تو؟

سوال :  اگر کسی پر شرعاً قربانی واجب نہیں ہے، مگر اس نے ہمت کر کے قربانی کی نیت سے ایک جانور خریدا تو اب اس جانور کی قربانی واجب ہوگئی، اگر قربانی کا یہ جانور گم ہو گیا اور دوسرا خریدا پھر گمشدہ جانور بھی مل گیا تو اگر وہ صاحب نصاب ہے تو اس پر ایک ہی جانور کی قربانی واجب ہے اور اگر وہ غریب آدمی ہے تو اس پر دونوں جانوروں کی قربانی کرنا واجب ہے۔ 
 مہربانی فرما کر اس مسئلہ کا ثبوت قرآن وحدیث کی روشنی میں تحریر فرمائیں، ہماری سمجھ کے مطابق یہ مسئلہ قرآن کی اس آیت سے ٹکراتا ہے:﴿لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾(1) 
جواب:       مذکورہ بالا مسئلہ احناف کا ہے، چنانچہ حاشیہ ابن عابدین(6/ 326)میں ہے: 
 ”وَلَوْ ضَلَّتْ أَوْ سُرِقَتْ فَشَرَى أُخْرَى فَظَهَرَتْ فَعَلَى الْغَنِيِّ إحْدَاهُمَا وَعَلَى الْفَقِيرِ كِلَاهُمَا“. 
 اور بہشتی زیور حصہ سوم ص١٤٦ میں ہے: 
 ”مسئلہ١٦: اگر قربانی کا جانور کہیں گم ہوگیا، اس لئے دوسرا خریدا پھر وہ پہلا بھی مل گیا، اگر امیر آدمی کو ایسا اتفاق ہوا تو ایک ہی جانور کی قربانی اس پر واجب ہے اور اگر غریب آدمی کو ایسا اتفاق ہوا تو دونوں جانوروں کی قربانی اس پر واجب ہے“۔ 

 اوربدائع الصنائع:(5/ 66 )میں اس کی توجیہہ یہ کی گئی ہے کہ چونکہ امیر آدمی پر پہلے سے قربانی واجب ہے اس واسطے اس کے قربانی کی نیت سے ان جانوروں کے خریدنے سے اس پر ان کی قربانی واجب نہیں ہوئی اور اس کے لئے دونوں میں سے کسی ایک کی قربانی ہی کافی ہو جائے گی۔ 
 
 اور غریب آدمی پر چونکہ پہلے سے قربانی واجب نہیں تھی، اس واسطے جب اس نے قربانی کی نیت سے جانور خریدا تو نذر کے مثل اس پر اس کی قربانی واجب ہوگئی اور جب اس کے گم ہونے کے بعد دوسرا جانور قربانی کی نیت سے خریدا تو اس پر اس کی قربانی بھی واجب ہوگئی، اس واسطے اس پر ان دونوں جانوروں کی قربانی واجب ہے۔ 

 یاد رہے کہ غریب آدمی پر پہلے جانور کے گم ہونے کے بعد دوسرا جانور خریدنا نہ احناف کے نزدیک واجب ہے نہ دوسرے ائمہ کے نزدیک، اور اکثر ائمہ کرام کے نزدیک دوسرا جانور خریدنے کے بعد اگر پہلا جانور بھی مل جائے تو امیر وغریب کی تفریق کے بغیر اگر دونوں کی قربانی کر دے تو بہتر ہے، کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ہدی کے لئے دو اونٹ خریدے پھر یہ دونوں اونٹ گم ہوگئے تو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ان کی جگہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس دوسرے دو اونٹ بھیجے اور انہوں نے دونوں کا نحر کیا پھر پہلے والے دونوں اونٹ بھی مل گئے تو انھوں نے ان دونوں کا بھی نحر کیا 

اور فرمایا: 
 ”هَكَذَا السُّنَّةُ فِي الْبُدْنِ“رواه الدار قطني في السنن(2)۔ 
 یعنی قربانی میں اسی طرح سنت ہے۔ 
 اور اگر صرف پہلے جانور کی قربانی کرے تو یہ بھی کافی ہے، اس لئے کہ دوسرے جانور کو اس کے بدلے میں خریدا تھا اور جب اصل مل گیا تو بدل کا ذبح کرنا واجب نہیں رہا۔ 

علامہ ابن حزم کی تحقيق 

  علامہ ابن حزم کے نزدیک اگر دونوں میں سے کسی کی بھی قربانی نہ کرے تو بھی کوئی حرج نہیں، کیونکہ قربانی واجب نہیں ہے، اور جب پہلے جانور کی قربانی واجب نہیں ہوئی تو جو اس کے بدلے میں خریدا ہے اس کی بھی قربانی واجب نہیں ہوگی، اس طرح دونوں میں سے کسی کی بھی قربانی واجب نہیں ہوگی۔ 
 
رہا آپ کا یہ کہنا کہ میری سمجھ میں تویہ مسئلہ قرآن کی آیت: ﴿لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾(3)سے ٹکراتا ہے تو آپ کا یہ کہنا اس صورت میں درست ہوتا جب ائمہ کرام پہلے جانور کے گم ہونے کے بعد اس پر دوسرے جانور کا خریدنا اور پھر پہلے جانور کے ملنے پر دونوں کو ذبح کرنا واجب قرار دیتے، مگر پہلے جانور کے گم ہوجانے کے بعد غریب آدمی پر کسی امام نے دوسرا جانور خریدنا واجب قرار نہیں دیا ہے، بلکہ ائمہ کرام نے یہ کہا ہے کہ یہ جانور اس کے پاس بطور امانت تھا اور کوئی امانت جب صاحب امانت کی کوتاہی اور تفریط کے بغیر تلف ہو جائے تو وہ اس کا ضامن نہیں ہوتا، اس واسطے یہ شخص اس جانور کا ضامن نہیں ہوگا اور اس کے بدلے دوسرا جانور خریدنا اس پر واجب نہیں ہوگا، مگر جب اس نے پھر دوسرا جانور خرید لیا تو اس نے خود اپنے اوپر اس کے ذبح کو واجب یا مسنون (حسب اقوال العلماء) کر لیا اور جس کا وہ مکلف نہیں تھا اس کا بوجھ اٹھا لیا۔ 

 معلوم رہے کہ مالکیہ کے یہاں جانور کو قربانی کی نیت سے خریدنے سے ہی اس کی قربانی واجب ہو جاتی ہے، اور شافعیہ اور حنابلہ کے یہاں خریدنے کے بعد جب تک زبان سے یہ نہیں کہے گا کہ یہ قربانی کے لئے ہے اس پر اس کی قربانی واجب نہیں ہوگی، جیسے کسی غلام کو آزاد کرنے کی نیت سے خریدنے سے ہی وہ آزاد نہیں ہو جائے گا بلکہ خریدنے کے بعد جب زبان سے یہ کہے گا کہ یہ آزاد ہے تب آزاد ہو گا، اسی طرح کسی چیز کو وقف کی نیت سے خریدنے سے ہی وہ وقف نہیں ہو جائے گی، بلکہ جب زبان سے کہے گا کہ یہ چیز فلاں کام کے لئے وقف ہے تب وہ وقف ہوگی،

اسی طرح قربانی کی نیت سے کسی جانور کو صرف خریدنے سے وہ قربانی کا جانور نہیں ہو جائے گا، بلکہ جب زبان سے کہے گا کہ یہ قربانی کا جانور ہے یا یہ قربانی کے لئے ہے تب قربانی کا جانور ہوگا۔ 
 اور امام ابن حزم کے نزدیک جب تک جانور کو ذبح یا نحر نہیں کرتے اس وقت تک وہ قربانی کا جانور نہیں ہوگا۔ 
  اور حنفیہ نے امیر اور غریب میں فرق کیا ہے ،چنانچہ ان کے نزدیک غریب پر جانور کو قربانی کی نیت سے خریدنے سے ہی اس کی قربانی واجب ہو جاتی ہے اور امیر پر قربانی کی نیت سے خریدنے سے اس جانور کی قربانی واجب نہیں ہوتی بلکہ کسی بھی جانور کی وہ قربانی کر سکتا ہے۔ انظر بدائع الصنائع:5/ 66، المحلی:8/ 41، المجموع:8/ 278- 279، المغني:3/ 534، 8/630، ٦٣٩.
نعمة المنان
 
اس سائٹ کی دوسری مشہور تحریریں 
کلک کرکے ضرور پڑھیں 

تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی