baeutiful image

قربانی کا وقت کب سے شروع ہوتا ہے


سوال :    قربانی کا وقت کب سے شروع ہوتا ہے
 کیا دیہات کے لوگ طلوع فجر کے بعد سے ہی قربانی کرسکتے ہیں؟ 
جواب:   قربانی کاوقت نماز عید سے فراغت کے بعد شروع ہوتا ہے، اگر کسی نے قربانی کے جانور کو اس سے قبل ذبح کردیا تو اس کی قربانی نہیں ہوگی، اور اسے اس کے بعد دوسراجانور ذبح کرنا چاہئے، حضرت جندب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں قربانی کے دن رسول اللہ ﷺ کے ساتھ موجود تھا، آپ جب نماز سے فارغ ہوئے اور سلام پھیرا تو آپ کو قربانی کے جانوروں کے گوشت نظر آئے جنھیں آپ کی نماز سے فراغت سے قبل ہی ذبح کیا گیا تھا، آپ نے فرمایا: 

 جس نے نماز پڑھنے سے پہلے یا ہمارے نماز (عید) ادا کرنے سے پہلے ذبح کیا ہے اسے چاہئے کہ اس کی جگہ دوسری قربانی کرے۔ 
 اور ایک روایت میں ہے کہ نبی ﷺ نے یوم النحرکو نماز (عید) ادا کی، پھر خطبہ دیا اور فرمایا:جس نے نماز پڑھنے سے پہلے ذبح کیا اسے اس کی جگہ دوسرا جانور ذبح کرنا چاہئے، اور جس نے ذبح نہیں کیا ہے اسے چاہئے کہ بسم اللہ کر کے ذبح کرے۔ (متفق عليه(2)) 
 اور براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا3
 ہم آج کے دن سب سے پہلے نماز سے شروع کرتے ہیں،پھر لوٹ کر قربانی کرتے ہیں،جس نے یہ کیا اس نے ہماری سنت پالی، اور جس نے پہلے ذبح کیا تو وہ صرف گوشت ہے جسے اس نے اپنے گھر والوں کے لئے پیش کیا، قربانی میں سے بالکل نہیں ہے۔ 
 اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جس نے نماز سے قبل ذبح کیا اس نے صرف اپنے نفس کے لئے ذبح کیا، اور جس نے نماز کے بعد ذبح کیا اس کی قربانی مکمل ہوگئی اور اس نے مسلمانوں کی سنت پالی۔ (رواه البخاري(4)) 
 ان تمام احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے مطلق فرمایا کہ جس نے نماز عید سے قبل ذبح کیا اس کی قربانی نہیں ہوئی، صرف کھانے کا گوشت ہے، اور شہری اور دیہاتی میں کوئی فرق نہیں کیا۔ اس واسطے دیہات اور شہر کے لوگوں میں تفریق بے دلیل اور غلط ہے۔


نماز عید سے پہلے صرف اس کا وقت گذرنے سے قربانی جائز نہیں

سوال:   بعض لوگ کہتے ہیں کہ قربانی کا اول وقت طلوع شمس اور مکروہ وقت کے گذرنے کے بعد نماز عید اور خطبہ سے فراغت کے لئے کافی وقت کا گذر جانا ہے، خواہ نماز عید ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔ 
 اور بعض علماء کا قول ہے کہ جب تک امام اپنی قربانی کے جانور کو ذبح نہ کرلے دوسروں کے لئے قربانی کرنا جائز نہیں، یعنی امام کی قربانی کے بعد لوگوں کے لئے اول وقت شروع ہوتا ہے۔ 
 اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ شہر والوں کے لئے نماز عید کے بعد اس کا وقت شروع ہوجاتا ہے خواہ امام نے ذبح کیا ہو یا نہ کیا ہو، اور دیہات والوں کے لئے طلوع صبح صادق کے بعد ہی اس کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔  
 اور بعض علماء کہتے ہیں کہ سورج نکلنے کے بعد اس کا اول وقت شروع ہوتا ہے، تو اس مسئلہ میں راجح کیا ہے؟ 

جواب:   اس مسئلہ میں دلائل کے اعتبار سے راجح یہ ہے کہ ہر جگہ وہاں کی نماز عید کے بعد قربانی کا وقت شروع ہوتا ہے، اس واسطے کہ مسند احمد میں ہے: 
 ”إِنَّمَا الذَّبْحُ بَعْدَ الصَّلاَةِ“(1) 
 قربانی کا ذبح کرنا نماز عید کے بعد ہے۔ 
  اور صحیح مسلم میں ہے: 
 ”مَنْ كَانَ ذَبَحَ أُضْحِيَّتَهُ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّىَ -أَوْ نُصَلِّىَ- فَلْيَذْبَحْ مَكَانَهَا أُخْرَى“(2) 
 جس نے اپنی قربانی نماز پڑھنے سے پہلے ذبح کیا وہ اس کی جگہ پر دوسرا جانور ذبح کرے۔ 
 چنانچہ ہر جگہ نماز کے بعد کا ہی تذکرہ ہے، خطبہ اور امام کے ذبح کا تذکرہ نہیں ہے۔ 
 اور حافظ ابن حجر ائمہ کرام کے مختلف اقوال ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: 
 ”وَقَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ إِذَا فَرَغَ الْإِمَامُ مِنَ الصَّلَاةِ جَازَتِ الْأُضْحِيَّةُ وَهُوَ وَجْهٌ لِلشَّافِعِيَّةِ قَوِيٌّ مِنْ حَيْثُ الدَّلِيلِ وَإِنْ ضَعَّفَهُ بَعْضُهُمْ وَمِثْلُهُ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ يَجُوزُ بَعْدَ صَلَاةِ الْإِمَامِ قَبْلَ خُطْبَتِهِ وَفِي أَثْنَائِهَا وَيَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ قَوْلُهُ حَتَّى يَنْصَرِفَ أَيْ مِنَ الصَّلَاةِ كَمَا فِي الرِّوَايَاتِ الْأُخَرِ وَأَصْرَحُ مِنْ ذَلِكَ مَا وَقَعَ عِنْدَ أَحْمَدَ مِنْ طَرِيقِ يَزِيدَ بْنِ الْبَرَاءِ عَنْ أَبِيهِ رَفَعَهُ إِنَّمَا الذَّبْحُ بَعْدَ الصَّلَاةِ وَوَقَعَ فِي حَدِيثِ جُنْدَبٍ عِنْدَ مُسْلِمٍ مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ فَلْيَذْبَحْ مَكَانَهَا أُخْرَى قَالَ بن دَقِيقِ الْعِيدِ هَذَا اللَّفْظُ أَظْهَرُ فِي اعْتِبَارِ فِعْلِ الصَّلَاةِ مِنْ حَدِيثِ الْبَرَاءِ“الخ.(3) 
 امام بخاری نے بھی ”بَابُ مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلَاةِ أَعَادَ“باندھا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل اعتبار نماز عید کا ہے،البتہ بہتر ہے کہ امام کی نماز اورخطبہ دونوں کے ختم ہونے کے بعد ذبح کیا جائے تاکہ خطبہ کے وقت افرا تفری اور بدنظمی نہ ہو۔ 

قربانی کے لئے کس کی نماز عید کا اعتبارہوگا؟

سوال :   علماء کرام کہتے ہیں کہ نماز عید سے قبل قربانی درست نہیں تو اس میں کس کی نمازعید کا اعتبار ہوگا؟ قربانی کرنے والے کی نماز کا یا عام مسلمانوں کی امام کے ساتھ نماز کا؟ 
جواب:   امام کے ساتھ عام مسلمانوں کی نماز عید کا اعتبار کیا جائے گا، چنانچہ اگر کسی مسلمان نے کسی عذر کی بناء پر نماز عید نہیں ادا کی مگر اس بستی میں نماز عید باجماعت ختم ہو گئی تو سب کے ساتھ وہ بھی قربانی کرسکتا ہے، اس کی دلیل حدیث: 
 ”مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلاَةِ فَلْيَذْبَحْ مَكَانَهَا أُخْرَى، وَمَنْ كَانَ لَمْ يَذْبَحْ حَتَّى صَلَّيْنَا فَلْيَذْبَحْ عَلَى اسْمِ اللهِ عز وجل “(1)  
 ہے، کیونکہ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ جس نے ذبح کیا اس سے قبل کہ ہم نماز (عید) پڑھیں تو چاہئے کہ اس کی جگہ دوسرا جانور ذبح کرے، اور جس نے ذبح نہیں کیا یہاں تک کہ ہم نے نماز پڑھ لی تو چاہئے کہ بسم اللہ کر کے ذبح کرے۔ 
 اور اگر ایک شہر میں کئی جگہ نماز عید ہوتی ہو توجس امام کے پیچھے وہ اور اس کے محلے والے نماز پڑھتے ہوں اس کی نماز کا اعتبار کرنا چاہئے، ایسا کرنا ٹھیک نہیں کہ دوسرے امام کی نماز عید کا اعتبار کر کے پہلے قربانی کر لے پھر اپنے امام کے پیچھے نماز پڑھے۔ 


قربانی کی جگہ تمام شرکاء کا موجود رہنا ضروری نہیں

سوال :   یہاں مہاراشٹر میں بڑے جانور کی قربانی کی سہولت ہے، اگر ہم یہاں ایک بیل کی قربانی کریں اور اس میں اپنے والدین جو یوپی میں رہتے ہیں کی جانب سے بھی دو حصے لے لیں اور قربانی کردیں تو اس میں کوئی حرج تو نہیں ہے؟ اور والدین کے یہاں نہ ہونے کی وجہ سے ان کی جانب سے قربانی پر کوئی اثر تو نہیں پڑے گا؟ 

جواب:    اس طرح قربانی کرنے میں کوئی حرج نہیں، اور ان شاء اللہ جو لوگ یہاں موجود ہیں ان کی طرف سے بھی اور آپ کے والدین جو یوپی میں ہیں ان کی طرف سے بھی قربانی صحیح ہو جائے گی۔ 
  کیونکہ جب ایک جانور میں کئی آدمی شریک ہوں تو جہاں قربانی کا جانور ذبح کیا جائے وہاں سب کا موجود ہونا ضروری نہیں، رسول اللہ ﷺ نے ایک دنبہ کی قربانی اپنی جانب سے اور اپنے آل وامت کی جانب سے کی اور ذبح کے وقت فرمایا : 
 ”بِسْمِ اللهِ، اللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ“(1)  
 اور ظاہر ہے کہ پوری امت محمدیہ کے لوگ اس قت وہاں موجود نہیں تھے۔ 
 اسی طرح رسول اللہ ﷺ ہدی کے جانور مکہ مکرمہ بھیجتے تھے اور انھیں وہاں ذبح کیا جاتا تھا اور آپ مدینہ منورہ میں ہوتے تھے، جس سے معلوم ہوا کہ جس جگہ یا شہر میں قربانی کی جائے وہاں اس میں حصہ لینے والے تمام لوگوں کا یا جس کی جانب سے قربانی کی جارہی ہے اس کا موجود ہونا ضروری نہیں۔
نعمة المنان 
ڈاکٹر فضل الرحمن مدنی 

تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی