قیامت کی چھوٹی علامتوں میں سے ایک علامت (11) ترکوں  سے جنگ.*

 

علامات قیامت

*ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ* سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : *لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تُقَاتِلُوا التُّرْكَ صِغَارَ الْأَعْيُنِ حُمْرَ الْوُجُوهِ ذُلْفَ الْأُنُوفِ ، كَأَنَّ وُجُوهَهُمُ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ ، وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تُقَاتِلُوا قَوْمًا نِعَالُهُمُ الشَّعَرُ*"قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک تم ترکوں سے جنگ نہ کر لو گے، جن کی آنکھیں چھوٹی ہوں گی، چہرے سرخ ہوں گے، ناک موٹی پھیلی ہوئی ہوگی، ان کے چہرے گویا ایسی ڈھالیں ہوں گی جن پر چمڑا لگایا ہوتا ہے اور قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک تم ایک ایسی قوم سے جنگ نہ کر لو گے جن کے جوتے بال کے بنے ہوئے ہوں گے“ *(صحیح بخاری۔٢٩٢٨، صحیح مسلم:٢٩١٢).*

 مزید پڑھیں 

قیامت کی نشانیاں - سر زمینِ حجاز سے آگ کا ظہور نواں حصہ

*عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ* سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: *إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ تُقَاتِلُوا قَوْمًا يَنْتَعِلُونَ نِعَالَ الشَّعَرِ ، وَإِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ تُقَاتِلُوا قَوْمًا عِرَاضَ الْوُجُوهِ ، كَأَنَّ وُجُوهَهُمُ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ* "قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ تم ایسی قوم سے جنگ کروگے جن کے جوتے بالوں کے ہوتے ہیں اور قیامت کی ایک نشانی یہ ہے کہ تم ان لوگوں سے لڑوگے جن کے منہ چوڑے چوڑے ہوں گے گویا وہ ڈھالیں ہیں چمڑا جمی ہوئی (یعنی وہ بہت موٹے منہ والے ہوں گے)" *(صحيح بخاری :2827).* 

*قارئین کرام!* ان احادیث سے معلوم ہوا کہ قیامت کی ایک نشانی یہ ہے کہ مسلمانوں کی ترکوں سے جنگ ہوگی اور آپ ﷺ نے ان ترکوں کی چند صفات یہاں بیان کی ہیں کہ وہ چھوٹی آنکھوں ، چپٹی ناک، سرخ، چپٹے اور موٹے چہروں والے ہوں گے .

حدیث میں یہ بھی ذکر ہے کہ پھراس کے بعد دوبارہ ایک قوم کے ساتھ جنگ ہوگی جن کے جوتے بالوں کے بنے ہوں گے.

*علامہ عینی رحمہ اللہ* کی توضیح کے مطابق یہ بھی ترکوں میں سے ہی ہیں *(عمدة القاري شرح صحيح بخاري (٤٣١/١٢).* 

تاہم *حافظ ابن حجر رحمہ اللہ* کے بیان کے مطابق یہ قوم ترکوں کے علاوہ ہےاور اسماعیلی کی روایت کے مطابق اصحاب بابک کی جوتیاں بالوں کی ہوا کرتی تھیں - بابک کو خرمی بھی کہا جاتا تھا جو کہ زنادقہ کا ایک گروہ تھا، انھوں نے بہت سی حرام اشیاء کو مباح بنا لیا تھا، مامون الرشید کے دورے حکومت میں ان کے پاس بہت سی طاقت اور قوت تھی، اسی وجہ سے انھوں نے بہت سے عجمی علاقوں ( جیسے طبرستان اور رے وغیرہ) پر غلبہ پا لیا تھا، پھر معتصم کے زمانے میں انھیں قتل کر دیا گیا، انکا خروج ٢٠١ ہجری کے قریب ہوا اور ٢٢٠ ہجری میں انھیں قتل کر دیا گیا- *(فتح الباری (١٠٤/٦)*

 *اب آئیے جانتے ہیں کہ ترکوں سے کون لوگ مراد ہیں؟ :امام خطابی رحمہ اللہ* فرماتے ہیں کہ ترکوں سے مراد بنو قنطورا ہیں اور قنطورا ابراہیم علیہ السلام کی لونڈی تھی، پھر اسی کی نسل بنو قنطورا کہلائی. 

*وھب بن منبہ رحمہ الله* کا بیان ہے کہ ترک یاجوج ماجوج کے چچیرے بھائی ہیں، جب دیوار ذوالقرنین بنائی گئی تو یہ لوگ غائب تھے لہٰذا وہ لوگ دیوار کے اسی طرف رہ گئے تھے اس لئے انکا نام ترک یعنی متروک (چھوڑ دئے گئے) ہو گیا    *(فتح الباری)* 

*مولانا داود راز رحمہ الله* نقل فرماتے ہیں کہ یہاں ترکوں سے مراد وہ قوم ہے جو یافث بن نوح کی اولاد میں سے ہے انہی کو قوم تاتار کہا گیا ہے، یہ لوگ خلفاء کے عہد تک کافر تھے یہاں تک کہ ہلاکو خان ترک نے عربوں پر چڑھائی کی اور خلافت بنو عباسیہ کا کام تمام کر دیا، اسکے کچھ عرصہ بعد ترک مشرف باسلام ہو گئے *(شرح صحیح بخاری‘ از مولانا داود راز (٣٤٧/٤).*

اسی طرح حدیث میں بیان کئے گئے لوگوں سے مراد وہ تاتاری اور منگول بھی ہیں جنھوں نے 656ھ بمطابق 1258ء میں متعدد اسلامی ممالک میں تباہی پھیلا دی اور بے شمار لوگوں کو خاک و خون میں تڑپا دیا۔مگر بالآخر حکمت الہیٰ کا تقضا یہ ہوا کہ یہ لوگ اسلام قبول کر کے امت اسلامیہ کا حصہ بن گئے . 

ان ترکوں کے علاقے مشرقی خراسان سے چین کے مغرب تک اور ہند کے شمال کے درمیان واقع ہیں *(النهاية ومعجم البلدان).* 

خلاصہ کلام یہ ہے کہ قیامت کی یہ نشانی ظاہر ہو چکی ہے: سب سے پہلے یہ معرکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں خلافت بنی امیہ کے اوائل میں واقع ہو چکا ہے، اس میں فرزندان اسلام نے ترکوں کو نہ صرف شکست دی بلکہ ان سے مال غنیمت  بھی حاصل کیا. جیساکہ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اس کا ذکر کیا ہے، *امام نووی رحمہ اللہ* فرماتے ہیں کہ حدیث میں اللہ کے نبی ﷺ نے جن صفات کا تذکرہ کیا ہے ویسے لوگ ہمارے زمانے پائے گئے اور مسلمانوں نے ان سے کئ مرتبہ جنگیں بھی کیں *(شرح مسلم :١٨/٣٧).*

اسی طرح شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے دور میں بھی انہیں صفات کے حامل تاتاریوں سے مسلمانوں کی جنگ ہوئی.

 *امام قرطبی رحمہ اللہ* فرماتے ہیں کہ تین مرتبہ ترک مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لئے نکلے جب آخری مرتبہ وہ لوگ نکلے تو بغداد کو تہس نہس کردیا کئ علماء، فضلاء اور خلیفہ کا قتل کیا پھر اس کے بعد شہروں میں گھس پڑے اور ایک مدت تک شام انہیں کے قبضہ میں رہا اور اطراف اکناف میں ان کا رعب طاری ہوگیا، یہاں تک کہ عین جالوت نامی معرکہ میں ملک مظفر سے ان کا سامنا ہوا اور ترکوں کا اتحاد پارہ پارہ ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے شر سے مسلمانوں کو محفوظ فرمادیا *(التذكرة)* 

 

تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی