قربانی رب باری تعالیٰ کی بارگاہ میں پسندیدہ ایک عبادت کا نام ہے جس کا ثواب بےشمار جس کا اجر لاتعداد ہے اگر کوئی شخص اس اجر و ثواب کو کسی اور کو نفلی قربانی کر کے بھیجنا چاہے تو ایسا کر سکتا ہے شریعت اس کی گنجائش دیتی ہے
مسئلہ
کسی دوسرے مسلمان کے ایصالِ ثواب کے لیے قربانی کرنا یا اپنی قربانی کا ثواب دوسرے مسلمان تک پہنچانا درست ہے چاہے وہ زندہ ہو یا فوت شدہ۔
🌺 *فائدہ:*
واضح رہے کہ ایصالِ ثواب کی غرض سے کی جانے والی قربانی درحقیقت اسی قربانی کرنے والے ہی کی نفلی قربانی ہوتی ہے جس کا ثواب وہ دوسروں تک پہنچاتا ہے البتہ اس کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہیں آتی۔
*مسئلہ 2️⃣:*
واضح رہے کہ اپنی نفلی یا واجب قربانی کا ایصالِ ثواب کرنا درست ہے، البتہ بعض اہلِ علم کے نزدیک واجب قربانی کا ایصالِ ثواب درست نہیں، اس لیے اگر وسعت ہو تو احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اپنی واجب قربانی کے علاوہ نفلی قربانی کرکے اس کا ایصالِ ثواب کیا جائے، لیکن اگر الگ سے نفلی قربانی کی وسعت نہ ہو تو بعض دیگر اہلِ علم کے قول کے مطابق اپنی واجب قربانی کے ایصالِ ثواب کی بھی گنجائش ہے، اسی کی دوسری صورت یہ ہے کہ اپنی واجب قربانی کرنے کے بعد اس کے گوشت کو ایصالِ ثواب کی نیت سے صدقہ کردیا جائے، اس طرح بھی دوسرے مسلمان کو ثواب پہنچایا جاسکتا ہے۔
مزید پڑھیے
قربانی کے احکام:فتنہ کے ڈر سے گائے کی قربانی ترک کرنا کیسا ہے؟
*مسئلہ 3⃣:*
جس طرح کسی ایک مسلمان شخص کو قربانی کا ثواب پہنچانا درست ہے اسی طرح ایک سے زائد مسلمان افراد کو ثواب پہنچانا بھی درست ہے۔ ایسی صورت میں اس کا ثواب ہر مسلمان کو پورا پورا پہنچتا ہے اور قربانی کرنے والے کے ثواب میں کوئی بھی کمی نہیں آتی۔
🌺 *فائدہ:*
ایک امتی کے لیے بڑی سعادت اور خوش نصیبی کی بات ہے کہ وہ اپنے آقا سرکارِ دو عالم حبیبِ خدا ﷺ کی طرف سے یعنی ان کے ایصالِ ثواب کے لیے بھی قربانی کا اہتمام کرے، اسی طرح دیگر انبیاء کرام علیہم السلام، حضرات صحابہ کرام، تابعین وتبع تابعین کرام، ائمہ مجتہدین، علمائے امت، بزرگانِ دین، حضرات اکابر، مشایخ عظام، اساتذہ کرام اور والدین اور دیگر عزیز واقارب کی طرف سے بھی قربانی کا اہتمام کرنا چاہیے، اس کی بڑی برکتیں اور فوائد ہیں۔
☀ ہدایہ میں ہے:
الْأَصْلُ فِي هَذَا الْبَابِ أَنَّ الْإِنْسَانَ لَهُ أَنْ يَجْعَلَ ثَوَابَ عَمَلِهِ لِغَيْرِهِ صَلَاةً أَوْ صَوْمًا أَوْ صَدَقَةً أَوْ غَيْرَهَا عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ؛ لِمَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ أَنَّهُ ضَحَّى بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ أَحَدَهُمَا عَنْ نَفْسِهِ وَالْآخَرَ عَنْ أُمَّتِهِ مِمَّنْ أَقَرَّ بِوَحْدَانِيَّةِ اللهِ تَعَالَى وَشَهِدَ لَهُ بِالْبَلَاغِ، جَعَلَ تَضْحِيَةَ إحْدَى الشَّاتَيْنِ لِأُمَّتِهِ. (باب الحج عن الغير)
☀ رد المحتار میں ہے:
صَرَّحَ عُلَمَاؤُنَا فِي «بَابِ الْحَجِّ عَنِ الْغَيْرِ» بِأَنَّ لِلْإِنْسَانِ أَنْ يَجْعَلَ ثَوَابَ عَمَلِهِ لِغَيْرِهِ صَلَاةً أَوْ صَوْمًا أَوْ صَدَقَةً أَوْ غَيْرَهَا، كَذَا فِي «الْهِدَايَةِ»، بَلْ فِي زَكَاةِ «التَّتَارْخَانِيَّة» عَن «الْمُحِيطِ»: الْأَفْضَلُ لِمَنْ يَتَصَدَّقُ نَفْلًا أَنْ يَنْوِيَ لِجَمِيعِ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ؛ لِأَنَّهَا تَصِلُ إلَيْهِمْ وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ اهـ هُوَ مَذْهَبُ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ ..... وَأَمَّا عِنْدَنَا فَالْوَاصِلُ إلَيْهِ نَفْسُ الثَّوَابِ. وَفِي «الْبَحْرِ»: مَنْ صَامَ أَوْ صَلَّى أَوْ تَصَدَّقَ وَجَعَلَ ثَوَابَهُ لِغَيْرِهِ مِن الْأَمْوَاتِ وَالْأَحْيَاءِ جَازَ، وَيَصِلُ ثَوَابُهَا إلَيْهِمْ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ، كَذَا فِي «الْبَدَائِعِ»، ثُمَّ قَالَ: وَبِهَذَا عُلِمَ أَنَّهُ لَا فَرْقَ بَيْنَ أَنْ يَكُونَ الْمَجْعُولُ لَهُ مَيِّتًا أَوْ حَيًّا. وَالظَّاهِرُ أَنَّهُ لَا فَرْقَ بَيْنَ أَنْ يَنْوِيَ بِهِ عِنْدَ الْفِعْلِ لِلْغَيْرِ أَوْ يَفْعَلَهُ لِنَفْسِهِ ثُمَّ بَعْدَ ذَلِكَ يَجْعَلُ ثَوَابَهُ لِغَيْرِهِ؛ لِإِطْلَاقِ كَلَامِهِمْ، وَأَنَّهُ لَا فَرْقَ بَيْنَ الْفَرْضِ وَالنَّفَلِ. اهـ. وَفِي «جَامِعِ الْفَتَاوَى»: وَقِيلَ: لَا يَجُوزُ فِي الْفَرَائِضِ اهـ. ..... قُلْت: لَكِنْ سُئِلَ ابْنُ حَجَرٍ الْمَكِّيُّ عَمَّا لَوْ قَرَأَ لِأَهْلِ الْمَقْبَرَةِ الْفَاتِحَةَ هَلْ يُقْسَمُ الثَّوَابُ بَيْنَهُمْ أَوْ يَصِلُ لِكُلٍّ مِنْهُمْ مِثْلُ ثَوَابِ ذَلِكَ كَامِلًا؟ فَأَجَابَ بِأَنَّهُ أَفْتَى جَمْعٌ بِالثَّانِي، وَهُوَ اللَّائِقُ بِسَعَةِ الْفَضْلِ. (مَطْلَبٌ فِي الْقِرَاءَةِ لِلْمَيِّتِ وَإِهْدَاءُ ثَوَابِهَا لَهُ)
☀ رد المحتار میں ہے:
قُلْت: وَقَوْلُ عُلَمَائِنَا لَهُ أَنْ يَجْعَلَ ثَوَابَ عَمَلِهِ لِغَيْرِهِ يَدْخُلُ فِيهِ النَّبِيُّ ﷺ فَإِنَّهُ أَحَقُّ بِذَلِكَ حَيْثُ
أَنْقَذَنَا مِنَ الضَّلَالَةِ، فَفِي ذَلِكَ نَوْعُ شُكْرٍ وَإِسْدَاءُ جَمِيلٍ لَهُ، وَالْكَامِلُ قَابِلٌ لِزِيَادَةِ الْكَمَالِ. وَمَا اسْتَدَلَّ بِهِ بَعْضُ الْمَانِعِينَ مِنْ أَنَّهُ تَحْصِيلُ الْحَاصِلِ؛ لِأَنَّ جَمِيعَ أَعْمَالِ أُمَّتِهِ فِي مِيزَانِهِ. يُجَابُ عَنْهُ بِأَنَّهُ لَا مَانِعَ مِنْ ذَلِكَ، فَإِنَّ اللهَ تَعَالَى أَخْبَرَنَا بِأَنَّهُ صَلَّى عَلَيْهِ ثُمَّ أَمَرَنَا بِالصَّلَاةِ عَلَيْهِ، بِأَنْ نَقُولَ: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَاللهُ أَعْلَمُ. (مطلب في زيارة القبور)
☀ المحیط البرہانی (کتاب الأضحية) میں ہے:
في «فتاوى أبي الليث»: وسئل أبو نصر عمن ضحى وتصدق بلحمه عن أبويه فيجوز.
☀ البحر الرائق میں ہے:
وَظَاهِرُ إطْلَاقِهِمْ يَقْتَضِي أَنَّهُ لَا فَرْقَ بين الْفَرْضِ وَالنَّفَلِ فإذا صلى فَرِيضَةً وَجَعَلَ ثَوَابَهَا لِغَيْرِهِ فإنه يَصِحُّ لَكِنْ لَا يَعُودُ الْفَرْضُ في ذِمَّتِهِ؛ لِأَنَّ عَدَمَ الثَّوَابِ لَا يَسْتَلْزِمُ عَدَمَ السُّقُوطِ عن ذِمَّتِهِ، ولم أره مَنْقُولًا. (باب الحج عن الغير)
*مسئلہ 4️⃣:*
قربانی کے بڑے جانور میں ایصالِ ثواب کی نیت کرتے وقت یہ بھی درست ہے کہ اس میں بعض حصے واجب قربانی کے ہوں اور بعض حصے نفلی قربانی کے طور پر ایصالِ ثواب کی نیت سے رکھے جائیں۔
*مسئلہ 5️⃣:*
قربانی کے ایک چھوٹے جانور میں ایک سے زائد افراد شریک ہوکر ایصالِ ثواب کی نیت کریں تو یہ جائز نہیں، اسی طرح یہ بھی جائز نہیں کہ قربانی کے بڑے جانور کے ایک حصے میں متعدد افراد ایصالِ ثواب کی نیت سے شریک ہوجائیں۔ اس کی ایک وضاحت طلب صورت درج ذیل ہے۔
*مسئلہ 6️⃣:*
اگر بڑے جانور میں سات سے کم افراد قربانی کی نیت سے شریک ہوں اور کسی بھی شریک کا حصہ ساتویں حصے سے کم نہ ہو تو باقی ماندہ ساتویں حصے میں سب یا بعض شرکاء کا ایصالِ ثواب کی نیت سے شریک ہونا متعدد اہلِ علم کے نزدیک جائز نہیں، اس لیے اس سے پرہیز کرنا چاہیے، جیسے ایک بڑے جانور میں قربانی کی نیت سے چھ افراد اس طرح شریک ہوں کہ ہر ایک نے اپنے لیے ایک ایک مکمل حصہ رکھا، پھر ساتویں حصے میں سب نے مل کر مشترکہ طور پر ایصالِ ثواب کی نیت کی تو ان کی اصل قربانی تو درست ہوگی لیکن یہ ساتویں حصے میں ایصالِ ثواب کی مشترکہ نیت احتیاط کے خلاف ہے، کیوں کہ جب ساتویں حصے میں سب یا بعض افراد شریک ہوں گے تو ہر ایک کا حصہ کسر میں آئے گا اور یہ کسر حصہ بھی مستقل طور پر ہے کہ ہر شریک نے صرف اسی کسر حصے میں ایصالِ ثواب کی نیت کر رکھی ہے، اور کسر حصے کی قربانی مستقل طور پر مشروع نہیں، البتہ یہ کسی پورے حصے کے تابع بن سکتا ہے لیکن یہاں تابع اس لیے نہیں کہ ایصالِ ثواب کی نیت سے ہر شریک کا صرف یہی کسر والا حصہ ہے، بطورِ مثال سمجھیے کہ ایک بڑے جانور میں چھ افراد اس طرح شریک ہوجائیں کہ چار افراد کا ایک ایک حصہ قربانی کا ہو اور باقی دو افراد کا ایک ایک حصہ ایصالِ ثواب کا ہو اور باقی ماندہ ساتویں حصے میں یہی دو افراد مشترکہ طور پر ایصالِ ثواب کی نیت کرلیں، اس طرح ان دونوں کے ڈیڑھ ڈیڑھ حصے ایصالِ ثواب کے ہوجائیں تو یہ جائز ہے کیوں کہ ان دونوں کا یہ آدھا آدھا حصہ درحقیقت ان کے ایک ایک مکمل حصے کے تابع ہے جو کہ جائز ہے۔
اور جب ایصالِ ثواب کی نیت سے کسر حصے کی قربانی مستقل طور پر مشروع نہیں تو اس میں ایصال ثواب کی نیت کرنا متعدد اہل علم کے نزدیک درست نہیں، کیوں کہ ایصالِ ثواب کے لیے مستقل قربت پر مبنی حصہ ہونا چاہیے۔ اس لیے اس کا حل یہ ہے کہ اس حصے میں کوئی ایک شریک ہی ایصالِ ثواب کی نیت کرے۔
*مسئلہ 7️⃣:*
جس بڑے جانور میں سات افراد قربانی کی نیت سے شریک ہوں اور اس جانور کے ساتویں حصے میں ایک سے زائد افراد مل کر ایصالِ ثواب کی نیت کریں تو یہ جائز نہیں، کیوں کہ اس صورت میں باقی چھ حصوں میں سات افراد شریک ہوں گے جس کی وجہ سے شریک ہونے والے افراد میں سے ہر ایک کا حصہ ساتویں حصے سے کم ہوجاتا ہے جو کہ جائز نہیں۔ (فتاویٰ عثمانی، غیر کی طرف سے قربانی کی تحقیق از مفتی محمد رضوان صاحب دام ظلہم)
❄️ *فائدہ:* قربانی کے بڑے جانور میں کسی بھی شریک کا حصہ ساتویں حصے سے کم نہ ہو، اس مسئلے کی تفصیل کے لیے اس سلسلہ اصلاحِ اغلاط کا سلسلہ نمبر 294: ’’قربانی کے جانوروں میں کتنے افراد شریک ہوسکتے ہیں؟‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔
*حضور اقدس ﷺ کا اپنی امت کی طرف سے قربانی کرنا:*
حضور اقدس ﷺ نے اپنی امت کے ایصالِ ثواب کے لیے قربانی فرمائی، ذیل میں اس حوالے سے چند روایات ذکر کی جاتی ہیں:
1- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو بڑے موٹے تازے سینگوں والے سیاہ وسفید رنگت والے دو خصی مینڈھے خریدتے، اُن میں سے ایک مینڈھا اپنے اُن امتیوں کی طرف سے قربان کرتے جنھوں نے اللہ کی توحید اور آپ کی تبلیغ کی گواہی دی، اور دوسرا مینڈھا اپنی اور اپنے اہل وعیال کی طرف سے قربان کرتے۔
☀ مسند احمد میں ہے:
25843- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا ضَحَّى اشْتَرَى كَبْشَيْنِ عَظِيمَيْنِ سَمِينَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مَوْجُوأَيْنِ قَالَ: فَيَذْبَحُ أَحَدَهُمَا عَنْ أُمَّتِهِ مِمَّنْ أَقَرَّ بِالتَّوْحِيدِ وَشَهِدَ لَهُ بِالْبَلَاغِ، وَيَذْبَحُ الْآخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ.
2️⃣ حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ذبح (یعنی قربانی) کے دن دو سینگوں والے خصی دنبے ذبح کرنے چاہے تو ان کو قبلہ رخ کیا اور پھریہ کلمات کہے:
إِنِّىْ وَجَّهْتُ وَجْهِىَ لِلَّذِىْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضَ عَلٰى مِلَّةِ إِبْرَاهِيْمَ حَنِيْفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ، إِنَّ صَلَاتِىْ وَنُسُكِىْ وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِىْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، لَا شَرِيْكَ لَهُ، وَبِذٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ.
پھر فرمایا کہ: ’’اے اللہ! یہ قربانی تیری طرف سے ہے اور خالص تیری ہی رضا کے لیے ہے، تو اس کو محمد اور اس کی امت کی جانب سے قبول فرما۔‘‘ اس کے بعد آپ ﷺ نے انھیں ذبح فرمایا۔
☀ سنن ابی داود میں ہے:
2797- عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ: ذَبَحَ النَّبِىُّ ﷺ يَوْمَ الذَّبْحِ كَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مُوجَأَيْنِ، فَلَمَّا وَجَّهَهُمَا قَالَ: «إِنِّى وَجَّهْتُ وَجْهِىَ لِلَّذِى فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالأَرْضَ عَلَى مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلاتِى وَنُسُكِى وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِى لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا شَرِيكَ لَهُ، وَبِذَلِكَ
أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، اَللّٰهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ، بِاسْمِ اللهِ وَاللهُ أَكْبَرُ»، ثُمَّ ذَبَحَ.
3- حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے دنبہ ذبح کیا اور یوں فرمایا کہ: ’’بِسْمِ اللهِ، وَاللهُ أَكْبَرُ، اے اللہ! یہ قربانی میری جانب سے ہے اور میرى امت کے ہر اس فرد کی طرف سے ہے جس نے قربانی نہیں کی۔‘‘
☀ مسند احمد میں ہے:
14837- عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو: أَخْبَرَنِي مَوْلَايَ الْمُطَّلِبُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ حَنْطَبٍ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ عِيدَ الْأَضْحَى، فَلَمَّا انْصَرَفَ أَتَى بِكَبْشٍ فَذَبَحَهُ فَقَالَ: «بِسْمِ اللهِ، وَاللهُ أَكْبَرُ، اَللّٰهُمَّ إِنَّ هَذَا عَنِّي وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي».
▪ان احادیث سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:
1- حضور اقدس ﷺ نے اپنی امت کے ایصالِ ثواب کے لیے قربانی فرمائی، اور بعض روایات میں امت کے اُن افراد کی صراحت کرکے قربانی فرمائی جو وسعت نہ ہونے کی وجہ سے قربانی کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ کس قدر خوش نصیب ہے یہ امتِ محمدیہ کہ سرکارِ دو عالَم حضور اقدس ﷺ ان کی طرف سے بھی قربانی کا اہتمام فرماتے تھے!!
2️⃣ مذکورہ حدیث میں حضور اقدس ﷺ کا اپنے اہل وعیال کی طرف سے قربانی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کو قربانی کے ثواب میں شریک فرمالیتے یعنی ان کے لیے بھی ایصالِ ثواب فرماتے۔
3- ان احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کرکے کسی زندہ یا فوت شدہ مسلمان کو اس کا ثواب پہنچانا یا کسی زندہ یا فوت شدہ مسلمان کے ایصالِ ثواب کے لیے قربانی کرنا بھی درست ہے۔
☀ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں ہے:
قَالَ ابْن بطال فِي «الْمَغَازِي» للْبُخَارِيّ: عَن بُرَيْدَة: أَن النَّبِي ﷺ كَانَ بعث عليًّا إِلَى الْيمن قبل حجَّة الْوَدَاع ليقْبض الْخمس، فَقدم من سعايته، فَقَالَ النَّبِي ﷺ: «بِمَا أَهلَلْت يَا عَليّ؟» قَالَ: بِمَا أهل بِهِ رَسُول الله ﷺ. قَالَ: «فاهدِ وامكث حَرَامًا كَمَا كنت»، قَالَ: فأهدى لَهُ عَليّ هَديا، قَالَ: فَهَذَا تَفْسِير قَوْله: «وأشركه فِي الْهَدْي» أَن الْهَدْي الَّذِي أهداه عَليّ عَن النَّبِي ﷺ وَجعل لَهُ ثَوَابه فَيحْتَمل أَن يفرده بِثَوَاب ذَلِك الْهَدْي، كُله فَهُوَ شريك لَهُ فِي هَدْيه؛ لِأَنَّهُ أهداه عَنهُ تَطَوّعا من مَاله، وَيحْتَمل أَن يشركهُ فِي ثَوَاب هدي وَاحِد يكون بَينهمَا، كَمَا ضحى ﷺ عَنهُ وَعَن أهل بَيته بكبش، وَعَمن لم يضح من أمته وأشركهم فِي ثَوَابه، وَيجوز الِاشْتِرَاك فِي هدي التَّطَوُّع. (بابُ الاشْتِرَاكِ فِي الْهَدْيِ والْبُدْنِ)
*حضور اقدس ﷺ کی طرف سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قربانی:*
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دو مینڈھوں کی قربانی کی، ایک نبی کریم ﷺ کی طرف سے اور ایک اپنی طرف سے، اور فرمایا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہے کہ میں ان کی طرف سے قربانی کیا کروں، اس لیے میں اس معمول کو کبھی ترک نہیں کروں گا۔
☀ مستدرک حاکم میں ہے:
7556- فَمِنْهَا مَا حَدَّثَنَا الشَّيْخُ أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ: أَنْبَأَ بِشْرُ بْنُ مُوسَى الْأَسَدِيُّ وَعَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْبَغَوِيُّ قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ الْأَصْبَهَانِيِّ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ أَبِي الْحَسْنَاءِ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ حَنَشٍ قَالَ: ضَحَّى عَلِيٌّ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ بِكَبْشَيْنِ: كَبْشٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وكبشٍ عَنْ نَفْسِهِ، وَقَالَ: أَمَرَنِي رَسُولُ اللهِ ﷺ أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ، فَأَنَا أُضَحِّي أَبَدًا.
هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ.
التعليق من تلخيص الذهبي: صحيح.
☀ سنن الترمذی میں ہے:
1495- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ المُحَارِبِيُّ الكُوفِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ أَبِي الحَسْنَاءِ، عَنْ الحَكَمِ، عَنْ حَنَشٍ، عَنْ عَلِيٍّ أَنَّهُ كَانَ يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ أَحَدُهُمَا عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، وَالآخَرُ عَنْ نَفْسِهِ، فَقِيلَ لَهُ: فَقَالَ: أَمَرَنِي بِهِ -يَعْنِي النَّبِيَّ ﷺ- فَلَا أَدَعُهُ أَبَدًا.
اس حدیث سے بھی فوت شدہ مسلمان کے ایصالِ ثواب کے لیے قربانی کرنا ثابت ہوتا ہے۔
📿 *ایصالِ ثواب کے لیے کی گئی قربانی کے گوشت کا حکم:*
واضح رہے کہ کسی زندہ یا فوت شدہ مسلمان کے ایصالِ ثواب کے لیے جو قربانی کی جاتی ہے وہ نفلی قربانی کہلاتی ہے، اس کا حکم عام قربانی کے گوشت کی طرح ہے کہ اس کا سارا کا سارا گوشت خود رکھنا بھی جائز ہے، البتہ بہتر یہ ہے کہ اس کے تین حصے کیے جائیں: ایک حصہ اپنے لیے، ایک حصہ اپنے رشتہ داروں کے لیے جبکہ ایک حصہ غریبوں کے لیے۔
البتہ اگر میت نے اپنے مال یعنی ترکہ میں سے قربانی کرنے کی وصیت کی ہو تو اس کا گوشت سارا کا سارا صدقہ کرنا ضروری ہے۔
☀ رد المحتار میں ہے:
مَنْ ضَحَّى عَنِ الْمَيِّتِ يَصْنَعُ كَمَا يَصْنَعُ فِي أُضْحِيَّةِ نَفْسِهِ مِنَ التَّصَدُّقِ وَالْأَكْلِ وَالْأَجْرُ لِلْمَيِّتِ وَالْمِلْكُ لِلذَّابِحِ. قَالَ الصَّدْرُ: وَالْمُخْتَارُ أَنَّهُ إنْ بِأَمْرِ الْمَيِّتِ لَا يَأْكُلْ مِنْهَا وَإِلَّا يَأْكُلُ، «بَزَّازِيَّةٌ».
(کتاب الأضحية)
⬅️ ذیل میں ایصالِ ثواب سے متعلق چند اصولی اور عمومی باتیں ذکر کی جاتی ہیں تاکہ مزید راہنمائی ہوسکے۔
*ایصالِ ثواب سے متعلق ایک اہم شرعی اصول:*
ایصالِ ثواب کے لیے نہ تو کوئی عمل خاص ہے، نہ کوئی چیز خاص ہے، نہ کوئی دن خاص ہے اور نہ ہی کوئی مہینہ خاص ہے، بلکہ سال بھر میں کسی بھی دن کسی بھی نیک عمل کا ایصال ِثواب کیا جاسکتا ہے۔ البتہ فرائض وواجبات کے ایصالِ ثواب کے بارے میں دو آرا ہیں، بعض اہلِ علم منع فرماتے ہیں جبکہ بعض درست قرار دیتے ہیں، حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ یہ اختلاف ذکر کرکے فرماتے ہیں کہ: ’’میرے نزدیک احتیاط اسی میں ہے کہ فرض کا ثواب کسی کو نہ بخشے۔‘‘ (امداد الفتاویٰ)
*ہر ایک کو پورا پورا ثواب ملتا ہے!*
*اگر کسی نیکی کا ایصالِ ثواب ایک سے زائد یا تمام زندہ اور فوت شدہ مسلمانوں کو کیا جائے تو ایسی صورت میں اس نیکی کا ثواب ہر مسلمان کو پورا پورا پہنچتا ہے اور ایصالِ ثواب کرنے والے کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہیں آتی۔*
*ایصالِ ثواب کی قبولیت کے لیے دو اہم اصول:*
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایصالِ ثواب کی قبولیت کے لیے دو بنیادی اصول درج ذیل ہیں:
1️⃣ ایصالِ ثواب اخلاص کے ساتھ ہو کہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کیا جائے، اس میں ریاکاری اور نام ونمود کا جذبہ نہ ہو۔
*2️⃣ ایصالِ ثواب شریعت کی تعلیمات کے مطابق کیا جائے، اس کے لیے خود ساختہ طریقے ایجاد نہ کیے جائیں۔*
ان دو باتوں میں سے کوئی ایک بات بھی نہ پائی گئی تو وہ ایصالِ ثواب اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت نہیں پاسکتا، جس کے نتیجے میں نہ تو اس عمل کرنے والے کو ثواب مل سکتا ہے اور نہ ہی یہ کسی دوسرے کو بھیجا جاسکتا ہے، بلکہ ایسا کرنے والا گناہ گار ٹھہرتا ہے
ایک تبصرہ شائع کریں
تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں