علامہ اقبال کا پیغام نوجوانوں کے نام

محترم قارئین ! اقبال نے اپنی نظموں میں جابجا مسلم نوجوانوں سے خطاب کیا ہے ان کو جھنجھوڑنے اور بیدار کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ تاریخ شاہد ہے کہ دنیا بھر کی تمام بڑی تحریکیں اور انقلابات انہی نوجوانوں کے عزم جواں, بازو ہمت اور جذبہ قربانی کا کرشمہ ہے

علامہ اقبال نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ نوجوان طبقہ کی حیثیت جسم میں روح کی مانند ہوتی ہے اور جس قوم کے نوجوان تعیش پسندی, تن پسندی, بےاعتمادی, سست روی, کاہلی اور راحت نفس کا شکار ہو جاتے ہیں اس قوم کا ستارہ اقبال بہت جلد غروب ہو جاتا ہے اور تاریخ کے اوراق میں وہ قوم قصہ پارینہ بن کر رہ جاتی ہے اس قوم پر ظلم و ستم کا راج ہوتا ہے صداقت کے بجائے منافقت ڈیرے جما لیتی ہے جرات و دلیری کا جنازہ اٹھ جاتا ہے اور عالمی دہشت گردوں کی چاکری اس کا مقدر بن جاتی ہے اور پھر یہ پوچھنا پڑتا ہے کہ 

بدن سے روح جاتی ہے تو بچھتی  ہے صفِ ماتم 

 مگر کردار مر جائے تو کیوں ماتم نہیں ہوتا

قارئین کرام!  اس کے برعکس جس قوم کے نوجوان مسلسل محنت و لگن سے معمور ہوں, جن کے عزائم بلند ہوں اور خون جواں ہو جن کی نظر چیتے کی مانند اور نگاہ شاہین کی طرح ہو, طوفانوں سے ٹکرا جانے کا حوصلہ ہو, سمندروں کو قطرہ اور پہاڑوں کو دریا کر دینے کی صلاحیت ہو جو حوادث و مصائب کا بھرپور تحمل اور قوت سے مقابلہ کرنے کا ہنر رکھتے ہوں,حوصلہ مندی اور خود اعتمادی کا ثبوت پیش کرتے ہوں تو وہ قوم ترقی کی منزل پر گامزن  اور فلاح و بہبود سے ہمکنار ہوتی ہے,  منزل مراد اس قوم کی قدم بوسی کرنے پر مجبور ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ شاعر مشرق کی شاعری کا محور اور جستجو کا مرکز مسلم نوجوان ہیں کیونکہ وہ جانتے تھے

 اگر جواں ہوں میری قوم کے غیور جسور 

قلندری میری کچھ کم سکندری سے نہیں

عزیزان گرامی!  یہ امت مسلمہ پر کون سا دن طلوع ہوا ہے؟ دن ہے کہ رات ؟ چاروں طرف اندھیرا کیوں ہے ؟ ظلم کا اندھیرا قتل و غارت گری کا اندھیرا افلاس زدہ مایوس چہرے, دھنسی آنکھیں ,عدم تحفظ کا احساس, اجڑتے گھر, جلتے مکاں, بلکتے بچے, سسکتی زندگی ایسی کون سی آفت آ گئی؟ ایسا کون سا کفر کا دل ٹوٹا ہے کہ ہماری عزت ذلت سے اور عروج  زوال میں تبدیل ہوگیا؟

 سبب کیا ہے؟ سبب صرف ایک ہے

 گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

 ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا میرا

کیونکہ مسلم نوجوان اپنے اسلاف کو فراموش کر کے مغربی تہذیب کا دلدادہ ہو گیا اور شاہین کی پرواز کو چھوڑ کر کوے کی چال اختیار کر لی , کاش آج کی نسل غیروں کی اندھا دھند تقلید سے باز آ کر مستقبل کی ذمہ داریوں کو سمجھتی اور شاندار ماضی سے سبق سیکھتی طاؤس و رباب کو چھوڑ کر شمشیر و سنا اٹھا لیتی اپنے اندر شاہین کی خودداری اور غیرت مندی پیدا کرتی تو اس قوم کی شوکت کا ستارہ جگمگا اٹھتا اور عظمت کا سورج دوبارہ طلوع ہوتا اور عقابی روح اور خودی کے زور پر پورے عالم انسانیت پر چھا جاتی.

کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت 

وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو 

تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی