یقینا آپ کے سامنے سے سعودی عرب کا خطبہ جمعہ ضرور گزرا ہوگا جس سے یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ سعودی عرب نے نہ صرف تبلیغی جماعت پر پابندی عائد دی ہے بلکہ اسے مورد الزام ٹھہرانے کے لئے جن باتوں کو بنیاد بنایا ہے ان میں سے کچھ تو انتہائی سنگین جھوٹ ہیں, حجاز مقدس میں اس طرح کا جھوٹ بولنا بہتان اور الزام تراشی قابل تعجب افسوسناک اور سلامت طبع کے خلاف ہے, اور یہ سراسر اسلام بیزاری ہے, میں ان غلط بیانیوں پر قدر تفصیل روشنی ڈالنا چاہتا ہوں.
سعودی خطبہ جمعہ میں کہا گیا ہے کہ بانی تبلیغی جماعت مولانا الیاس کاندھلوی صاحب صوفی اور قبوری تھے,
صوفی کا مطلب آج کل خلیجی ممالک میں بدعتی ہوتا ہے مطلب یہ کہ مولانا الیاس رحمہ اللہ بدعتی تھے معاذاللہ, اور تبلیغی جماعت کی بنیاد بدعت پھیلانے ہی کے لئے ڈالی گئی تھی, اپنے اس موقف کی تائید میں خطبہ لکھنے والے نے مولانا کو قبوری بھی بتایا ہے,
قارئین! اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا رحمہ اللہ صوفی تھے مگر صوفی کا وہ مطلب نہیں ہے جو آج کل عرب میں رائج ہے, بلکہ صوفی کا مطلب ہے متبع سنت, بانی جماعت صاحب وجد و حال تھے, علم شریعت سے آراستہ تھے, معرفت ربانی سے لبریز تھے, صاف لفظوں میں کہیے تو وہ عالم با عمل تھے, عارف باللہ تھے,
تصوف و سلوک دین میں کوئی نئی چیز نہیں بلکہ وہی چیز ہے جسے پیغمبر علیہ السلام کی زبانی احسان سے تعبیر کیا گیا ہے, حدیث جبریل میں ہے کہ حضرت جبرائیل امین آپ علیہ السلام کے پاس تشریف لائے اور آپ سے پوچھا ما الاحسان آپ نے فرمایا ان تعبد اللہ کأنک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک کہ تم اللہ کی ایسی عبادت کرو کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو اگر یہ تصور نا آسکے تو اللہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے, یہ حدیث بخاری شریف میں بھی ہے اور مسلم شریف میں بھی, اور صحیح بھی ہے.
قارئین! یقینا جن لوگوں میں اتباع سنت کا غلبہ ہوتا ہے ان میں تام جھام نہیں ہوتا بلکہ سادگی اور بے نفسی ہوتی ہے وہ موٹا جھوٹا پہنتے ہیں, اور تھوڑے سے مال پر قناعت کرتے ہیں, بس معلوم ہوا کہ صوفی بدعتی نہیں ہوتا, بلکہ حضور کا حقیقی ترجمان ہوتا ہے.
جہاں تک لفظ قبوری کا تعلق ہے تو یہ بانی جماعت پر کھلا ہوا بہتان ہے انہوں نے کبھی کسی قبر کی پوجا نہیں کی اور نہ کبھی کسی درگاہ کے مجاور بنے, خطبہ لکھنے والے نے یہ بات بھی بلا تحقیق لکھ ماری ہے اور یہ بھی نہیں سوچا کہ اللہ نے اگر ثبوت مانگ لیا تو جواب کہاں سے بنے گا, اور حضور کی یہ حدیث بھی بھول گیا کہ من آذی لی ولیا فقد آذنتہ بالحرب,
قارئین! صاحب خطبہ کے بیان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس نے تبلیغی جماعت سے کسی پرانی ہزیمت کا بدلہ لیا ہے اس نے جماعت پر الزامات کی بوچھار لگاتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ یہ جماعت شرک میں مبتلا ہے معاذ اللہ, بلکہ پوری دنیا اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ تبلیغی جماعت شرک و بدعت سے میلوں دور بھاگتی ہے, وہ خالص توحید کو پھیلانے والی, اللہ اور رسول پر مر مٹنے والی جماعت ہے اس کا کوئی بھی عمل و قول شرک کے دائرہ میں نہیں آتا , دعوی وہی قابل قبول ہوتا ہے جس کی پشت پر ٹھوس دلیلیں موجود ہوں, صاحب خطبہ نے مشرک تو بتا دیا لیکن کوئی ثبوت پیش نہیں کیا ,کیا یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف نہیں ہے, میں صاف صاف اعلان کرتا ہوں کہ تبلیغی جماعت مشرک نہیں ہے,
قارئین! صاحب خطبہ نے یہ جھوٹ بھی لکھ مارا ہے کہ تبلیغی جماعت کی ہر مسجد میں ان کے رہنماؤں کی قبریں موجود ہیں, یہ بھی خالص اتہام اور سفید جھوٹ ہے, ایک آدھ مسجد میں ایسا ہو تو ہو لیکن ہر مسجد میں ایسا ہونا بد ترین جھوٹ ہے, لعنۃ اللہ علی الکاذبین, کیا ایسا جھوٹ بولتے ہوئے خطبہ لکھنے والے کو شرم نہیں آئی, اس کی روح پر کپکپی طاری نہیں ہوئی, روز محشر کا منظر یاد نہیں آیا, بات در اصل یہ ہے کہ رپورٹ دینے والے نے خیانت اور بددیانتی سے کام لیا ہے ہندوستان کی جن مسجدوں میں قبریں ہیں وہ دیوبندیوں اور تبلیغی جماعت کی نہیں بلکہ تکفیری جماعتوں اور بریلوی مکتب فکر کی ہیں ,قبروں پر سجدے وہ کرتے ہیں, مزارات پر منتیں وہ مانگتے ہیں , درگاہوں پر چراغا وہ کرتے ہیں غرض جتنی بھی خرافات قبروں سے متعلق یہاں پائی جاتی ہیں وہ بریلوی حضرات انجام دیتے ہیں نا کہ اہل تبلیغ.
مولانا الیاس کاندھلوی رحمہ اللہ حنفی تھے دیوبندی تھے, دارالعلوم دیوبند کے فرزند تھے, مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ کے شاگرد تھے, علماء اہل اسلام نے ان کی اس تحریک کو صحیح مانا اور اس کی حمایت کی, لہذا تبلیغی جماعت کو بت پرست کہنا اور مولانا الیاس کاندھلوی کو قبوری کہنا حقیقت کے سراسر خلاف ہے, ایسا لگتا ہے کہ رپورٹ دینے والے نے بھانگ پی کر رپورٹ دی ہے یا قصدا جھوٹ بولا ہے, بہرحال کچھ بھی ہو لیکن جھوٹ کی تمام حدیں پار کر دی ہیں, حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے,
قارئین! تبلیغی جماعت پر ایک بہتان یہ بھی لگایا گیا کہ وہ دہشت گردی کو فروغ دیتی ہے یہ بھی سراسر غلط بات ہے, اس جماعت کی بے خبری کا تو یہ عالم ہے کہ یہ زمین کے نیچے اور آسمان کے اوپر کے علاوہ کی باتیں جانتے بھی نہیں, سیاسی موضوعات سے اسے خدا واسطے کی دشمنی ہے, یہ سال کے ہر موسم میں اور زندگی کے ہر موڑ پر اسی منہج پر قائم رہتی ہے, دنیا میں کون آیا, تخت پر کون بیٹھا اور کون گیا , اس سے ان کو کوئی سروکار نہیں, جس جماعت کا فکری سانچہ ایسا ہو اسے دہشت گردی سے جوڑ دینا سنگین جرم ہے.
قارئین! تبلیغی جماعت کے بعض اعمال پر اہل حق علماء کرام نے قرآن و حدیث کی روشنی میں تنقید کی ہے اور کرتے رہتے ہیں اوراصلاح کی طرف بلاتے رہتے ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت والوں کے یہاں اپنے قائم کردہ اصولوں پر بڑا زور ہے, اپنے بڑوں کے خلاف تھوڑا بھی نہیں چل سکتے, لیکن انہیں قبر پجا بتانا انہیں مشرک بتانا انہیں دہشت گردی سے جوڑنا انتہائی تکلیف دہ ہے اور انسانیت کے خلاف ہے.
قارئین! صاحب خطبہ نے اپنے آپ کو اللہ اور رسول کا پروانہ بتایا ہے توحید و رسالت کا متوالا گردانا ہے لیکن اگر انکے ان دعوؤں کا جائزہ لیا جائے تو سراسر خلاف واقعہ بات ملتی ہے کیونکہ سب سے پہلے ان ظالموں نے جزیرۃ العرب کا نام بدلا اور اب آئے دن اسلام کے خلاف فیصلے کرتے ہیں , نصابی کتابوں سے قتال کی آیتیں نکال دیں, رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیثوں کو شریعت کا جز ماننے سے انکار کر دیا, عورتوں کو حجاب سے باہر نکالا, عیاشی و فحاشی کے لئے نت نئے اقدامات کئے, شیطان کے رقص و سرود کے لئے جگہ جگہ کلب اور سنیما گھر بنائے یہاں تک کہ مدینۃ الرسول کو بھی اس میں شامل کر لیا, فلم انڈسٹری قائم کیں اور امام حرم فلمی اشتہار میں نظر آئے, دنیا بھر کے بد ترین لوگوں کو بلا بلا کر ان سے ڈانس کرایا جا رہا ہے, فلمی عورتوں سے اخلاق سوزی کے مظاہرے پر انعامات کی بارشیں ہو رہی ہیں, علماء اسلام اور ان غلط کاموں پر نکیر کرنے والوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈالا جارہا ہے, یہ وہی لوگ ہیں جو گنبد خضری کو ڈھانے کی کئی بار ناپاک کوشش کر چکے ہیں, اسلام کو ان لوگوں نے اتنا نقصان پہنچایا ہےکہ سوچا نہیں جاسکتا, مگر ان ظالموں اور یہود و نصاریٰ کے ان عاشقوں نے اپنے انہیں اسلام مخالف فیصلوں کا نام معتدل اسلام رکھا ہے, یہ خالص مغرب نوازی ہے, یہ اسلام سے کھلی بیزاری ہے, یہ اللہ اور رسول سے اعلانیہ اعلان جنگ ہے,
یہ لوگ امریکہ اور اسرائیل کے غلام ہیں, یہ عبد الدرھم اور عبد الدینار ہیں, یہ خواہشات نفس کے پجاری ہیں, یہ ناجائز عورتوں اور شہوتوں پر فریفتہ ہیں, انہیں نہ حرمین شریفین سے محبت ہے اور نہ حجاز مقدس کی پرواہ ہے, یہ لوگ اسلام کے نام پر اسلام کے دامن پر بدنما داغ ہیں, انہیں تبلیغی جماعت میں ناموجود بدعت تو دیکھائی دیے گئی لیکن اپنی خرافات دکھائی نہیں دیتی,
مولانا رحمہ اللہ کا یہ جملہ یہاں بجا ہے کہ ساری دنیا کے مسلمانوں کا قبلہ مکہ ہے اور اہل مکہ کا قبلہ امریکہ اور اسرائیل ہے.
ایک تبصرہ شائع کریں
تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں