الیکٹرک شاک یا جھٹکے کا ذبیحہ اور بند ڈبوں کے گوشت کا حکم

 مسئلہ یہ ہے کہ کیا یہ ضروری ہے کہ اہل کتاب کے ذبح کرنے کا طریقہ ہمارے طریقہ کے مطابق ہو، یعنی حلق کو کسی تیز چیز سے کاٹ دیا جاۓ؟ اکثر علماء اسے ضروری سمجھتے ہیں، لیکن مالکیہ کے ایک گروہ کا فتوی ہے کہ یہ ضروری نہیں ۔ قاضی ابن العربی سورہ المائدہ کی آیت کی تفسیر کرتے ہوۓ فرماتے ہیں: یہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ اہل کتاب کا شکار اور کھانا ان پاک چیزوں میں سے ہے جن کو اللہ نے جائز ٹھیرایا ہے۔ یہ مطلقا حلال ہے اور اس کا ذکر خصوصیت کے ساتھ کیا گیا ہے تا کہ شکوک رفع ہوں اور غلط خیالات کا ازالہ ہو جاۓ ۔

 میرے سامنے یہ سوال پیش کیا گیا کہ نصاری مرغی کی گردن مروڑ دیتے ہیں اور پھر اسے پکا لیتے ہیں ۔ ایسی صورت میں کیا ہم ان کے ساتھ کھا سکتے ہیں یا ان کا کھانا کھایا جا سکتا ہے؟ میں نے کہا کھایا جا سکتا ہے کیونکہ یہ نصاری اور ان کے احبار و رہبان کا کھانا ہے۔ اگر چہ کہ ہمارے نزدیک ذبح کرنے کا یہ طریقہ درست نہیں ہے ،لیکن اللہ تعالی نے ان کا کھانا ہمارے لیے مطلقاً جائز کر دیا ہے(1) اور ہر وہ کھانا جس کو وہ اپنے دین میں جائز سمجھتے ہوں وہ ہمارے لیے حلال ہے سوائے ان کھانوں کے جن کے بارے میں اللہ نے انھیں جھوٹا قرار دیا ہے۔

 ہمارے علما کا کہنا ہے کہ یہ اہل کتاب اپنی عورتیں ہماری زوجیت میں دے دیتے ہیں جن کے ساتھ مباشرت جائز ہے پھر ہم ان کا ذبیحہ کیوں نہ کھائیں؟ حلت و حرمت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو کھانا مباشرت سے کم درجہ کی چیز ہے۔ 

 موصوف دوسری جگہ فرماتے ہیں: یہ لوگ ذبح نہیں کرتے بلکہ گلا گھونٹ کر یا سر کچل کر ہلاک کر دیتے ہیں اور پھر اسے کھاتے ہیں، اس لیے یہ حرام مردار ہے لیکن ( یہ عدم جواز کی صورت اور اوپر جواز کی جو صورت مذکور ہوئی )ان دو باتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے، کیونکہ اہل کتاب جس کے بارے میں یہ سمجھتے ہوں کہ یہ درست ذبیجہ ہے اس کا کھانا ہمارے لیے حلال ہے۔ اگر چہ کہ ہمارے نزدیک ان کے ذبح کرنے کا طریقہ درست نہ ہو لیکن جس کے بارے میں وہ خود بھی یہ بجھتے ہوں کہ یہ ذبیحہ درست نہیں ہے ........ وہ ہمارے لیے بھی حلال نہیں ہے۔ ذبح کا مشترک مفہوم یہ ہے کہ جانور کی جان نکالنے کا قصد اس کا کھانا حلال کرنے کی نیت سے کیا گیا ہو۔

یہ مسلک مالکیہ کے ایک گروہ کا ہے۔ 

ان باتوں کی روشنی میں ہم محفوظ کیے ہوۓ ( بند ڈبوں کے گوشت کا حکم سمجھ سکتے ہیں جسے اہل کتاب کے یہاں سے درآمد کیا جا تا ہے ۔ مثلاً مرغی کا محفوظ کیا ہوا گوشت جو بعض اوقات الیکٹرک شاک کے ذبیحہ کا ہوتا ہے لیکن جب تک وہ اسے حلال ذبیچہ سمجھتے ہیں

آیت کے عموم کے مطابق ہمارے لیے حلال ہے۔ رہا وہ گوشت جو کمیونسٹ ممالک سے درآمد کیا جاتا ہے تو ان کا کھانا ہمارے لیے کسی طرح جائز نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ تمام ادیان نیز خدا اور رسالت سب کے منکر ہیں اس لیے ان کا شمار اہل کتاب میں ہر گز نہیں ہے۔(2)

حواشی 

(1) یہ بات کہ اہل کتاب کا ذبیحہ ہمارے لیے مطلقاً جائز ہے ایک شاذ قول ہے جو محتاج دلیل ہے ۔ قرآن نے ان کے جس ذبیحہ کو جائز قرار دیا ہے وہ مشروع ذبیچہ ہے نہ کہ غیر مشروع ۔جس سیاق میں اہل کتاب کے ذبیحہ کو جائز قرار دیا گیا ہے، اس سے یہ اچھی طرح واضح ہے کہ جس جانور کو شرعی طریقہ پر ذبح کیا گیا ہو اس کا کھانا جائز ہے، البتہ ذبح کرنے والا اہل کتاب میں سے ہوتو کوئی حرج نہیں۔ مشروع طریقہ پر ذبح کی شرط معہود ہے، اس لیے اس کو نظر انداز کر کے اہل کتاب کے ہر ذبیحہ کو جائز سمجھنا درست نہیں ہے۔ اس بنا پر گردن مروڑی ہوئی مرغی ہمارے لیے حلال نہیں ہے ( حاشیہ )

(2) جب یہ معلوم ہے کہ عام طور سے بند ڈبہ کا گوشت غیر شرعی طریقہ پر ذبح کیے جانور کا ہوتا ہے ۔ مثلاً جھٹکا کیا ہوا یا جس کو ذبح کرتے وقت دانستہ اللہ کا نام نہیں لیا گیا تو ایسا گوشت محض اہل کتاب کی طرف منسوب ہو جانے سے ہمارے لیے کس طرح جائز ہوگا ؟ کسی چیز کا حکم عام طریقہ کو دیکھ کر ہی لگایا جاتا ہے۔ اور جو جانور غیر مشروع طریقہ پر ذبح کیا گیا ہو اس کا کھانا جائز نہیں، خواہ ذبح کرنے والا مسلمان ہو یا عیسائی ۔ ( حاشیہ) 

تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی