بحری جانور اور بری جانور میں کون کون سے جانور حلال ہیں, ذبح کرنے کا شرعی طریقہ

بحری جانور سب حلال ہیں 

اپنے مسکن ومستقر کے لحاظ سے جانوروں کی دوقسمیں ہیں۔ بحری اور بری۔ بحری جانور جو پانی کے اندر رہتے ہیں اور پانی ہی میں زندہ رہ سکتے ہیں سب حلال ہیں۔ جس حالت میں بھی پاۓ جائیں ۔ خواہ وہ پانی سے زندہ نکالے گئے ہوں یا مردہ سطح آب پر تیرتے ہوئے پائے جائیں یا اس کے بغیر ۔ مچھلی ہو یا سمندری کتا سمندری خنزیر ہو یا کوئی اور جانور، یکساں طور پر جائز ہیں اور اس سلسلے میں اس بات کا بھی اعتبار نہیں کہ ان کو پکڑنے والا مسلمان ہے یا غیر مسلم سمندر اور دریا کے تمام جانوروں کو مباح کر کے اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر بڑی وسعت فرمائی ہے، چنانچہ فرمایا: وهوالذي سخر البحر لتأكلوا منه لحما طريا (نحل14:16) اس نے دریا کو مسخر کیا تاکہ تم اس میں سے تازہ گوشت کھاؤ۔

نیز فرمایا: أحل لكم صيد البحر وطعامه متاعالكم وللسيارة المائده98:5

تمھارے لیے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال کر دیا گیا۔ یہ تمھارے فائدے کے لیے ہے اور قافلہ والوں کے لیے (زادراہ ) بھی۔

حرام بری جانور 

جہاں تک بری جانوروں کا تعلق ہے قرآن نے صراحت کے ساتھ مگر اجمالاً چار چیزوں کو اور تفصیل کے ساتھ دس چیزوں کو حرام ٹھیرایا ہے جن کا بیان اس سے پہلے گزر چکا ہے لیکن قرآن کریم نے رسول اللہ سلام کی یہ شان بھی بیان فرمائی ہے: ويحل لهم الطیبت ویحرم عليهم الخبيت الاعراف (157:7) رسول ان کے لیے پاکیزہ چیزیں حلال ٹھیراتا ہے اور خبیث چیزیں حرام کرتا ہے۔ خبیث وہ چیزیں ہیں جن کو بحیثیت مجموعی لوگ عام ذوق کے لحاظ سے گندہ خیال کرتے ہیں قطع نظر اس سے کہ کچھ افراد ان کو پسند کرتے ہوں ۔ اس قبیل کی ایک چیز بالتو گدھے کا گوشت ہے۔ حدیث میں آتا ہے: نھى عليه السلام عن أكل لحوم الحمر الأهلية يوم خيبر  نبی علیہ السلام نے خیبر کے دن پالتو گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔ 

اور اسی سے متعلق صحیحین کی یہ حدیث ہے: نھي عن أكل كل ذي ناب من السباع وكل ذي مخلب من الطير ) نبی علیہ السلام نے کچلی والے درندوں اور پنجہ سے کھانے والے پرندوں کو کھانے کی ممانعت فرمائی ہے ۔

 سباع ( درندہ) سے مراد زبردستی بھاڑ کھانے والا جانور ہے، جیسے شیر، چیتا، بھیٹریا وغیرہ اور پنجہ والے پرندوں سے مراد وہ پرندے ہیں جو ناخن سے شکار کرتے ہوں جیسے

گدھ، باز شکرہ ،چیل وغیرہ۔ ابن عباس کا مسلک یہ ہے کہ قرآن میں جو چار چیزیں مذکور ہیں ان کے علاوہ کوئی چیز حرام نہیں ہے۔ غالباً ان کے نزدیک درندوں وغیرہ کی ممانعت والی احادیث سے کراہت کا حکم نکلتا ہے نہ کہ حرمت کا ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان تک یہ حدیثیں نہ پہنچی ہوں ۔  بہر حال ابن عباس کی رائے میں سورۃ الانعام کی آیت قل لا أجد کے پیش نظر پالتو گدھے کا گوشت حلال ہے، امام مالک کا رجحان بھی ابن عباس ہی کے مسلک کی طرف ہے۔

مانوس جانوروں کی اباحت کے لیے ذبح کرنے کی شرط

 خشکی کے جن جانوروں کا کھانا جائز ہے ان کی دوقسمیں ہیں: ایک قسم تو ان جانوروں کی ہے جو انسان کے قابو میں ہوں ۔مثلاً اونٹ ، گائے ، بکری جیسے چوپاۓ اور وہ پرندے جو پالے جاتے ہیں۔ دوسری قسم ان جانوروں کی ہے جو انسان کے قابو میں نہ ہوں ۔ پہلی قسم کے جانوروں کے جواز کے لیے اسلام نے یہ شرط عائد کیا ہے کہ انھیں شرعی طریقے پر ذبح کر دیا جاۓ ۔ اور دوسری قسم کے جانوروں کے لئے یہ شرط ہے کہ انہیں کسی نوک دار چیز سے ذبح کر دیا جائے کہ خون بہہ جائے,

 

تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی