مفتی نصر اللہ ندوی استاد دارالعلوم ندوۃ العلماء
مفتی نصر اللہ ندوی استاد دارالعلوم ندوۃ العلماء 

  ملک کی آزادی کو 75 سال مکمل ہو گئے،آزادی کی یہ داستان مسلمانوں کے لہو سے رقم کی گئی،1857کی لڑائی،جنگ آزادی کی سب سے بڑی لڑائی ہے،اس میں تقریبا ایک لاکھ مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا،ان میں 55ہزار صرف علمائے دین تھے،جن کو تختہ دار پر لٹکایا گیا،گولیوں سے بھونا گیا،اور کھولتے ہوئے گرم تیل میں ڈالا گیا،انہوں نے اس جنگ میں شجاعت وجواں مردی کے ایسے جوہر دکھائے کہ انگریزوں کے چھکے چھڑا دیئے اور جدید ترین اسلحوں اور طاقتور فوج کے باوجود،ان کو پانی پلا دیا،بظاہر اس جنگ میں مسلمانوں کو شکست ہوئی،لیکن یہ انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوئی،جس کے نتیجہ میں آزادی کی چنگاری بھڑکتی رہی،مولانا محمد علی جوہر ،مولانا محمد علی شوکت،مولانا عبد الباری فرنگی محلی،مولانا ابو الکلام آزاد،مولانا حسین احمد مدنی اور دیگر معاصر علماء نے اس چنگاری کو شعلہ بنادیا اور آخر کار فرنگیوں کو اس ملک سے راہ فرار اختیار کرنا پڑا

آزادی کے بعد،مسلمانوں کے ممتاز رہنما اور جنگ آزادی کے سورما رہے،مولانا ابو الکلام آزاد کو وزیر تعلیم بنایاگیا،انہوں نے ملت کی تعمیر وترقی میں قائدانہ  کردار ادا کیا،اس کے بعد ملت کی باگ ڈور جمعیة علماء ہند کے ہاتھوں میں آگئی،جمعیة نے مسلمانوں کی ترقی میں اپنا کردار کیا،تاہم اس کے پاس ملت اسلامیہ کے تابناک مستقبل کے حوالہ سے کوئی ویژن نہیں تھا،اس نے جو کچھ کیا،وہ وقتی ضرورت کے لحاظ سے کیا،اس نے حکومت سے اپنے مطالبات بھی منوائے،ملی مسائل کے حل کیلئے تحریک بھی چلائی،احتجاجی جلسے بھی منعقد کئے،بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ جمعیة کی کوششوں کا محور اصلا،جلسے جلوس،اور آندولن ہی تھا،اس کی افادیت کا انکار نہیں کیا جا سکتا،تاہم اس میں بھی دورائے نہیں کہ،یہ عارضی کوششیں تھیں،جن سے ملت کے درد کا مستقل مداوا نہیں ہو سکتا تھا

مزید  پڑھیں 

تاریخ جنگ آزادی ہند اور علماء کرام کا عظیم کردار - ایک تحقیقی جائزہ نئے قالب میں 

اسلامی ہـجـری سال کا آغـاز اور اس کی امتیـازی شـان

یوم آزادی کی حقیقت - کیا آج آزاد ہیں ہم؟ تلخ حقیقت

اس کے برعکس فسطائی طاقتوں نے آزادی سے قبل،سو سال پہلے ایک ویژن تیار کیا تھا،جس کا نتیجہ آج ظاہر ہو رہا ہے،آر ایس ایس کے سب سے بڑے تھنک ٹینک گرو گوالکر نے آج سے تقریبا سو سال پہلے ہندو راشٹر کا ویژن پیش کیا تھا،جس پر آر ایس ایس روز اول سے گامزن رہا،اور اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اس کا خواب شرمندہ تعبیر ہو رہا ہے،حالانکہ جمعیة کا قیام 1919 میں ہوا،اور اس کے چھ سال بعد 1925 میں آر ایس ایس کا قیام ہوا،لیکن دونوں میں بنیادی فرق ویژن کا تھا،آخر الذکر کے پاس آئندہ سو سال کا منصوبہ تھا،اس لئے آج وہ اپنے منصوبے میں کامیاب ہے

علامہ سید سلیمان ندوی رح ایک موقع پر فرمایا تھا،جس کا مفہوم یہ ہے کہ ہم اپنی جوشیلی تقریروں کے ذریعہ پانی میں آگ لگا سکتے ہیں،فلک شگاف نعروں کے ذریعہ جذبات کو بر انگیختہ کر سکتے ہیں،لیکن مستقل مزاجی،منصوبہ بندی اور خاموش حکمت عملی کے ساتھ پہاڑ کا سینہ چیر کر اس سے میٹھا پانی نہیں نکال سکتے،علامہ نے جو کچھ بہت پہلے فرمایا تھا،آزادی کے ستر سال گزرنے کے بعد،ہم نے اپنے انداز سے یہ ثابت کر دیا کہ ہمارا مزاج دراصل یہی ہے،ہم نے تحفظ جمہوریت، تحفظ آئین اور دستور کے نام پر صرف کانفرنس،جلسے اور پروگرام کرتے رہے اور اسی پر مطمئن ہو گئے،ہم نے گہری پلاننگ ،خاموش حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے ساتھ کچھ نہیں کیا،نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارا خون ارزاں ہو گیا اور پانی کی طرح بہنے لگا،ملک کے کسی گوشہ میں ہندتو کے جنونیوں کا ایک گروہ اٹھتا ہے،اور راہ چلتے ہماری لنچنگ کردیتا ہے،حال ہی میں ملک راجدھانی دلی میں پارلیمنٹ کی ناک کے نیچے،نام نہاد ہندو رکچھا دل کے کچھ آتنکی جمع ہوتے ہیں اور نہایت اشتعال انگیز نعرے لگاتے ہیں،پولیس خاموش تماشائی بنی رہتی ہے،کھلے عام قتل عام کی دھمکی جاتی ہے،اور انتظامیہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی!نوبت یہاں تک کیسے پہونچی ؟حالات اتنے ستم رسیدہ کیوں ہو ئے؟جس قوم نے آزادی کے گلشن کو اپنے خون جگر سے سینچا تھا،اس کا خون آخر کار پانی کیسے بن گیا؟ یہ وہ چھبتا ہوا سوال ہے،جو آزادی کے 74 سال گزرنے کے بعد،اس چمن کا چپہ چپہ ہم سے پوچھ رہا ہے،اور جس کا جواب تلاش کرنا ملت کی مجموعی ذمہ داری ہے،یہ وقت احتساب کا ہے،جو اس دین کی حقیقت ہے،اور جس کے بغیر زندگی،مانند موت ہے

فقط۔۔

مفتی نصر اللہ ندوی 

استاد دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ 

1 تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی