*⚖سوال و جواب⚖*


*💸مسئلہ نمبر 692💸*


(کتاب الاضحیہ)


 *قربانی کے جانور کو بیچ دیا تو رقم کیا کریں؟* 

قربانی کے جانور کو بیچ دیا تو رقم کیا کریں؟


 *سوال:* ایک شخص نے بکرا قربانی کی نیت سے پال رکھا تھا، اچانک کسی بیماری کی وجہ سے اس کے مرنے کا اندیشہ ہوا تو انہوں نے بیچ دیا. اب اس رقم کو کیا کرے. صدقہ کرے یا اپنی ذاتی کام میں استعمال کرے؟ (المستفتی محمد ساجد ندوی جالون یو پی)


 *بسم اللہ الرحمٰن الرحیم* 


 *الجواب بعون اللہ الوہاب* 


قربانی کے لیے جو جانور پال گیا تھا اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں: ایک صورت تو یہ ہے کہ اس نے قربانی کے لیے جانور کو خریدا تھا اور خریدتے وقت ہی قربانی کی نیت کرلی تھی، اس صورت میں اگر پالنے والا فقیر و محتاج ہے تو اس کے لیے وہ جانور متعین ہوگیا بلا ضرورت اس کو بیچنا جائز نہیں ہے؛ البتہ اس قدر بیمار ہو کہ اس کی زندگی کی امید نہ رہی تو بیچنے کی اجازت ہوگی اور اس کو اختیار ہوگا چاہے تو رقم کو صدقہ کر دے یا دوسرا جانور اسی رقم کا خرید لے۔ اور اگر مالدار یعنی صاحب نصاب ہے تو اس کو اختیار ہے؛ چاہے تو اپنے پاس رقم رکھ لے اور چاہے تو دوسرا جانور خرید لے، اس رقم کو صدقہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ کیونکہ صاحب نصاب کے حق میں وہ جانور نیت کرنے سے متعین نہیں ہوا ہے اس کو بہر صورت قربانی کے ایام میں جانور ذبح کرنا ہوگا۔


اس کی دوسری صورت یہ ہے کہ اس جانور کو خریدا نہیں تھا بلکہ گھر کا تھا یا کسی نے دیا تھا اور بعد میں قربانی کی نیت کرلی تھی، نیز اگر فقیر تھا خریدتے وقت قربانی کی نیت نہیں کی تھی تو ان صورتوں میں بھی وہ جانور متعین نہیں ہوگا، فقیر اور مالدار دونوں اس صورت میں چاہیں تو اس کو بیچ کر اپنے استعمال میں لے لیں اور چاہیں تو دوسرا جانور خرید لیں صدقہ کرنا ضروری نہیں ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


 *📚والدليل على ما قلنا📚* 


(١) و أما الذي يجب على الفقير دون الغني فالمشترى للاضحية إذا كان المشتري فقيرا بأن اشترى فقير شاة ينوي أن يضحي بها، و إن كان غنيا لا تجب عليه بشراء شيء. و لو ملك إنسان فنوى أن يضحي بها، أو اشترى شاة و لم ينو الأضحية وقت الشراء، ثم نوى بعد ذلك أن يضحي بها لا تجب عليه سواء كان غنيا أو فقيرا. (الفتاوى الهندية ٣٣٦/٥: كتاب الاضحيه الباب الاول، زكريا جديد)


أن الفقير إذا شراها له يلزمه التصدق بعينها بلا نذر بخلاف الغني (رد المحتار على الدر المختار ٥٣٢/٩ كتاب الاضحيه، زكريا، ٣٢١/٦ ايج ايم سعيد)


و لو اشتراها الغني بنيتها لم تتعين باتفاق الروايات كما في الخلاصة. تقريرات الرافعي على رد المحتار على الدر المختار ٥٣٢/٩ كتاب الاضحيه، زكريا، ٣٢١/٦ ايج ايم سعيد)


 *كتبه العبد محمد زبير الندوي* 


تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی