قربانی کے مسائل: پراویڈنٹ فنڈ کی وجہ سے قربانی کا وجوب

*🥀سوال وجواب🥀*


🌻مسئلہ نمبر 1225🌻


(کتاب الاضحیہ، باب وجوب الاضحية)


پراویڈنٹ فنڈ کی وجہ سے قربانی کا وجوب


سوال: ایک شخص ہے جو صاحب نصاب نہیں ہے لیکن اس کے پراویڈنٹ فنڈ میں اتنی رقم موجود ہے جتنے میں نصاب پورا ہوجاتا ہے، تو کیا اس پر قربانی واجب ہوگی۔ (محمد عبداللہ بہرائچ یوپی)


*بسم اللہ الرحمن الرحیم*


*الجواب بعون الوہاب*


پراویڈنٹ فنڈ کی دو صورتیں ہوتی ہیں ایک جبری دوسری اختیاری، جبری چونکہ مالک خود کاٹتا ہے اور وہ خدمت کا معاوضہ ہوتا ہے، اس لیے اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی، لیکن جو اختیاری ہوتا ہے اس کو لینے کا آدمی کو مکمل اختیار ہوتا ہے اور آدمی مزید اضافہ کی خاطر اپنی رقم کٹاتا ہے اس لیے ایسی رقم اگر نصاب کو پہنچ جاتی ہے تو اس پر جس طرح زکوٰۃ فرض ہوتی ہے اسی طرح قربانی بھی واجب ہوگی(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


*📚والدليل على ما قلنا📚*


(١) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ وَجَدَ سَعَةً فَلَمْ يُضَحِّ، فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا ".

حكم الحديث: إسناده ضعيف. (مسند أحمد رقم الحديث ٨٢٧٣ مُسْنَدُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ)


الأضحية واجبة على كل حر مسلم مقيم موسر في يوم الأضحى (المختصر للقدوري ص ٢٠٨ كتاب الاضحية)


وأما شرائط الوجوب فمنها اليسار وهو اليسار الذي تعلق به وجوب صدقة الفطر دون اليسار الذي تعلق به وجوب الزكاة على ما ذكرنا في كتاب الزكاة. (تحفة الفقهاء جزء ٣ ص ٨٢ كتاب الاضحية)


قربانی میں غبن فاحش کیا ہے


*سوال:* کیا فرماتے ہیں علمائے کرام کہ اگر کسی شخص نے 7000 کا جانور خریدا اور فی حصہ 1000 بنتا ہے؛ لیکن اُس نے 4 حصے اپنے لئے رکھا اور بقیہ حصہ 1500 کے حساب سے بیچ دیا تو ایسا کرنا صحیح ہے یا پھر 1000 کے حساب سے حصہ بیچے۔ (فیاض احمد محمود برمارے، ضیاء العلوم کنڈلور، کرناٹک)


*بسم اللہ الرحمن الرحیم*


*الجواب و باللہ التوفیق*


ایک بڑے جانور میں زیادہ سے زیادہ سات حصے ہوسکتے ہیں اور سات لوگ شریک ہوسکتے ہیں، اب اگر کوئی شخص جانور خرید کر کچھ حصّے اپنے لیے کرلے باقی میں کسی کو مناسب قیمت پر شریک کرلے تو یہ درست ہے مناسب قیمت سے مراد یہ ہے کہ وہ غبن فاحش کے دائرہ میں نہیں آتی ہو، چنانچہ مذکورہ بالا صورت میں وہ جانور اس لائق ہے کہ پندرہ سو کا حصہ بن سکتا ہے تو یہ درست ہے، لیکن اگر غبن فاحش ہے تو گناہ کا کام ہوگا تاہم قربانی بہر دو صورت درست ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


*📚والدليل على ما قلنا📚*


(١) عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : نَحَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحُدَيْبِيَةِ، الْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ، وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ. هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ. (سنن الترمذي رقم الحديث 1502 أَبْوَابُ الْأَضَاحِيِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.  | بَابٌ : مَا جَاءَ فِي الِاشْتِرَاكِ فِي الْأُضْحِيَّةِ)


ولو اشترى بقرة للأضحية ثم أشرك فيها ستة أجزأه، ويقتسمون لحمها بالوزن، وتختص بالإبل والبقر والغنم، ويجزئ فيها ما يجزئ في الهدي. (الاختيار لتعليل المختار 18/5 كتاب الاضحية)


للمالك أن يتصرف في ملكه أي تصرف شاء. (الفقه الإسلامي و أدلته ٥٥٢/٦)


الغبن الفاحش ما لم يدخل تحت تقويم المتقومين. (رد المحتار على الدر المختار ٣٦٣/٧)


*كتبه العبد محمد زبير الندوى*

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا


تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی