*🥀سوال وجواب🥀*
🌻مسئلہ نمبر 1228🌻
(کتاب الاضحیہ باب ما یجوز ذبحہ)
*وزن کرنے کے بعد جانور کا وزن بڑھ گیا تو کیا کریں*
*سوال؛* کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں مشتری نے بائع سے قربانی کے لئے بکرا (جس کی بیع اب وزن سے ہورہی ہے، پر کلو 340 روپے) خریدتے وقت بائع کے پاس ترازو نہ ہونے کی وجہ سے کہا :کہ کسی ایماندار شخص کے یہاں بکرے کا وزن کرائیں، لیکن بائع نے اس شخص سے وزن کروایا جس کے بارے میں عاقدین کو ناپ تول میں کمی وزیادتی کرنے کا علم تھا، اور بکرے کا وزن 47 کلو آیا جس کی قیمت مشتری نے باہمی رضا مندی سے عقد کی تکمیل کے بعد 15,980 روپے ادا کردی، لیکن جب مشتری نے گھر آکر بکرے کا وزن کیا تو 5 کلو زیادہ یعنی بکرا (52) کلو نکلا، تو اب مشتری کے لیے کیا حکم ہے، آیا مشتری بائع کو 5 کلو کی رقم اور ادا کرے گا یا نہیں؟
نیز اگر نہ ادا کرے اور قربانی کر لے تو کیا قربانی ہوجائے گی یا نہیں؟
برائے مہربانی مدلل جواب عنایت فرمائیں!
(المستفتی : عبد الرحمن ممبئی)
*بسم اللہ الرحمن الرحیم*
*الجواب و باللہ التوفیق*
پہلی بات تو یہی ہے کہ جانور کی خرید وفروخت وزن کرکے درست ہے یا نہیں، بعض محققین کہتے ہیں کہ یہ درست نہیں ہے کیونکہ جانور بسااوقات کچھ ایسی کیفیت اختیار کر لیتا ہے کہ وزن گھٹ بڑھ جاتا ہے، اس لیے اس میں غرر و ضرر پایا جاتا ہے جب کہ بعض اہل علم کی تحقیق ہے کہ یہ معاملہ درست ہے، دور حاضر کے بہت سے اکابر مفتیان کرام نے یہی فتویٰ دیا ہے، اور بہت سے شہروں میں اسی پر عمل پایا جاتا ہے۔
اب اگر کسی نے فی کلو قیمت کے حساب سے جانور خرید لیا اور بعد میں وہ زیادہ نکلا تو جتنے کلو زیادہ نکلا ہے اتنی قیمت دینا پڑے گی(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔
*📚والدليل على ما قلنا 📚*
ﻭﺍﻟﺄﺻﻞ: ﺃﻥ ﻣﺎ ﻳﺜﺒﺖ ﻛﻴﻠﻪ ﺑﺎﻟﻨﺺ ﻟﺎ ﻳﺠﻮﺯ ﺑﻴﻌﻪ ﺑﺠﻨﺴﻪ ﻭﺯﻧﺎ, ﻛﺎﻟﺤﻨﻄﺔ ﺑﺎﻟﺤﻨﻄﺔ, ﻭﻣﺎ ﺛﺒﺖ ﻭﺯﻧﻪ ﺑﺎﻟﻨﺺ ﻟﺎ ﻳﺠﻮﺯ ﺑﻴﻌﻪ ﺑﺠﻨﺴﻪ ﻭﻛﻴﻠﺎ ﻛﺎﻟﺪﺭﺍﻫﻢ (٥٢ﺏ٣) ﺑﺎﻟﺪﺭﺍﻫﻢ ﻛﻴﻠﺎ, ﻭﻛﺎﻟﺪﻧﺎﻧﻴﺮ ﺑﺎﻟﺪﻧﺎﻧﻴﺮ ﻛﻴﻠﺎ, ﻭﻣﺎ ﻟﺎ ﻧﺺ ﻓﻴﻪ, ﻭﻟﻜﻦ ﻋﺮﻑ ﻛﻮﻧﻪ ﻛﻴﻠﺎ ﻋﻠﻰ ﻋﻬﺪ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ, ﻓﻬﻮ ﻣﻜﻴﻞ ﺃﺑﺪﺍ, ﻭﺇﻥ ﺍﻋﺘﺎﺩ ﺍﻟﻨﺎﺱ ﺑﻴﻌﻪ ﻭﺯﻧﺎ ﻓﻲ ﺯﻣﺎﻧﻨﺎ, ﻭﻣﺎ ﻋﺮﻑ ﻛﻮﻧﻪ ﻣﻮﺯﻭﻧﺎ ﻓﻲ ﺫﻟﻚ ﺍﻟﻮﻗﺖ, ﻓﻬﻮ ﻣﻮﺯﻭﻥ ﺃﺑﺪﺍ, ﻭﻣﺎ ﻟﺎ ﻳﻌﺮﻑ ﺣﺎﻟﻪ ﻋﻠﻰ ﻋﻬﺪ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻳﻌﺘﺒﺮ ﻓﻴﻪ ﻋﺮﻑ ﺍﻟﻨﺎﺱ, ﻓﺈﻥ ﺗﻌﺎﺭﻓﻮﺍ ﻛﻴﻠﻪ ﻓﻬﻮ ﻣﻜﻴﻞ, ﻭﺇﻥ ﺗﻌﺎﺭﻓﻮﺍ ﻭﺯﻧﻪ ﻓﻬﻮ ﻭﺯﻧﻲ, ﻭﺇﻥ ﺗﻌﺎﺭﻓﻮﺍ ﻛﻴﻠﻪ ﻭﻭﺯﻧﻪ, ﻓﻬﻮ ﻛﻴﻠﻲ ﻭﻭﺯﻧﻲ, ﻭﻫﺬﺍ ﻛﻠﻪ ﻗﻮﻝ ﺃﺑﻲ ﺣﻨﻴﻔﺔ ﻭﻣﺤﻤﺪ. (المحيط البرهاني ٣٥٤/٦ دار الكتب العلميه بيروت)
و قال محمد: إن كان بغير جنسه كلحم البقر بالشاة الحية جاز كيفما كان. (رد المحتار على الدر المختار ٤١٥/٧ كتاب البيوع باب الربا زكريا)
دیکھئے فتاویٰ دار العلوم دیوبند آن لائن: فتویٰ نمبر ١٤٤٨. فتاویٰ عثمانی ٩٨/٣ کتاب البیوع۔ فتاوی قاسمیہ ٣٩٢/١٩ کتاب البیوع۔
لو بیعت عرصة علی أنہا مائة ذراع کل ذراع بعشرة قروش فظہرت خمسة وتسعین ذراعا ومائة وخمسة أذرع خیر المشتری إن شاء ترکہا وإن شاء أخذہا إذا کانت خمسة وتسعین ذراعا بتسعمائة وخمسین , وإذا کان مائة وخمسة أذرع بألف وخمسین قرشا. وکذا إذا بیع ثوب قماش علی أنہ یکفی لعمل قباء وأنہ ثمانیة أذرع کل ذراع بخمسین قرشا فإذا ظہر تسعة أذرع أو سبعة أذرع کان المشتری مخیرا إن شاء ترک الثوب وإن شاء أخذہ إذا کان تسعة أذرع بأربعمائة وخمسین وإن کان سبعة أذرع بثلاثمائة وخمسین قرشا.(مجلة الأحکام العدلیة ص:45-46،الناشر: نور محمد، کارخانہ تجارتِ کتب، آرام باغ، کراتشی)
وكذا إذا كيل الطعام في المجلس وعرف مبلغه فالمشتري بالخيار إن شاء أخذه بحساب ذلك وإن شاء تركه لأنه إنما علم بذلك الآن فله الخيار۔ (الجوهرة النيرة على المختصر للقدوري ١٨٦/١ كتاب البيوع)
*كتبه العبد محمد زبير الندوى*
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا
ایک تبصرہ شائع کریں
تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں