*🥀سوال وجواب🥀*
🌻مسئلہ نمبر 1217🌻
*اجتماعی قربانی سے متعلق چند مسائل*
سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام درج ذیل مسئلہ میں کہ زید نے قربانی کے سلسلہ میں یہ اعلان کیا کہ اجتماعی قربانی کا سال (2020ء) میں 1500/ پندرہ سو روپے کے حساب سے انتظام کیا گیا ہے۔خواہش مند حضرات رابطہ کریں۔
ضروری وضاحت:
(1)قربانی کے بعد گوشت غریبوں کے درمیان تقسیم کر دیا جائے گا۔
(2) چمڑہ یا اس کی قیمت کسی غریب یا کسی مستحق مدرسہ میں جمع کرادیا جائے گا۔
(3) اگر قربانی کے حصہ پر 1500/پندرہ سو سے کم کا خرچ آیا تو بقیہ پیسہ قربانی کرانے والے کو واپس کر دیا جائے گا، یا اس کی اجازت سے خرچ کیا جائے گا۔
(5) قربانی کے جانور پر خرچ ہونے والے چارہ کی قیمت، قصاب کی اجرت سب اسی پندرہ سو روپے میں ہے۔
اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا اجتماعی قربانی کا نظم کرنے والوں کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ پندرہ سو روپے کے حصے کی قربانی کا اعلان کریں جس میں قربانی کے ایک جانور کی قیمت 10500(دس ہزار پانچ سو روپے) یا چارہ اور قصاب کی اجرت کو کم کر کے دس ہزار روپے ہوتی ہے، پھر کوئی جانور نو ہزار، ساڑھے آٹھ ہزار کا خرید کر اس کو اپنی خرید کرنے کی محنت یا تجارت کی نیت کر کے اس جانور کی قیمت ساڑھے دس ہزار یا دس ہزارمانیں اور پھر قربانی کر دیں۔
تواصل خریدکی ہوئی قیمت اور بعد میں فرض کی ہوئی قیمت کے درمیان کی رقم قربانی کا انتظام واعلان کرنے والوں کے لیے حلال ہے یا نہیں بینوا وتوجروا۔
(المستفتی:ابو معاذ ساکن محمد پور کوآری سمستی پور، بہار، ہندوستان)
*بسم اللہ الرحمن الرحیم*
*الجواب و باللہ التوفیق*
جو حضرات اجتماعی قربانی کا نظم و نسق کرتے ہیں ان کا کافی وقت بھی صرف ہوتا ہے اور محنت و مشقت بھی برداشت کرتے ہیں، نیز جانور کی دیکھ ریکھ اور قربانی کے جمیع معاملات کی پوری ضمانت اور ذمہ داری انہیں کی ہوتی ہے؛ ظاہر ہے کہ یہ سب باتیں بغیر اجرت کے انجام دینا مشکل ہوگا اور ہندوستان کے عرف میں ذمہ داران باقاعدہ اس کی اجرت لیتے ہیں؛ اس لیے اس کی اجرت لینا درست ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔
*📚والدليل على ما قلنا📚*
{قال إني أريد أن أنكحك إحدى ابنتي هاتين على أن تأجرني ثماني حجج} [القصص: ٢٧]
أي على أن تكون أجيرا لي أو على أن تجعل عوضي من إنكاحي ابنتي إياك رعي غنمي ثماني حجج. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع 173/4 كتاب الاجارة)
ثم الأجرة تستحق بإحدى معاني ثلاثة اما بشرط التعجيل أو بالتعجيل من غير شرط أو باستيفاء المعقود عليه (الهداية ٢٩٣/٣ كتاب الإجارة باب الأجر متى يستحق)
للمالك أن يتصرف في ملكه أي تصرف شاء. (الفقه الإسلامي و أدلته ٥٥٢/٦)
*كتبه العبد محمد زبير الندوى*
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا
ایک تبصرہ شائع کریں
تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں