نفلی قربانی کے بجائے صدقات کرنے کا حکم , شرعی نقطہ نظر


 *🥀سوال وجواب🥀*


🌻مسئلہ نمبر 1214🌻


(کتاب الاضحیہ نفلی قربانی کا بیان)


*نفلی قربانی کے بجائے صدقات کرنے کا حکم*


سوال: مفتی صاحب پوچھنا یہ ہے کہ اگر نفلی قربانی کا پیسہ کو صدقہ کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں یا نہیں؟ (عبداللہ بہرائچ یوپی)


*بسم اللہ الرحمن الرحیم*


*الجواب و باللہ التوفیق*


نفلی قربانی کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے ثابت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری امت کو قربانی کے ثواب میں شریک کرنے کے لئے نفلی قربانی کی ہے، اس لیے نفلی قربانی کر سکتے ہیں؛ لیکن اگر غریبوں اور حاجت مندوں کی ضروریات کے پیش نظر اگر نفلی قربانی کے بجائے صدقات و خیرات کریں اور غریبوں کی مالی امداد کریں تو یہ بھی بہترین صورت ہے، دور حاضر میں کرونا وائرس اور لوک ڈاؤن نے جو معاشی تنگی کی صورت پیدا کردی اور غریب و متوسط طبقے کے لوگ جس طرح پریشان ہیں ایسی صورت حال میں نفلی قربانی کے بجائے صدقات نافلہ کا اہتمام اور لوگوں کی مالی معاونت ہی بہتر اور افضل عمل ہوگا(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


*📚والدليل على ما قلنا📚*


(١) وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (الذاريات 19)


عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحَّى بِكَبْشٍ أَقْرَنَ، وَقَالَ : " هَذَا عَنِّي وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي ".  (مسند أحمد رقم الحديث 1105 مُسْنَدُ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ)


إنما فعل ذلك لأجل الثواب؛ وهو أنه جعل ثواب تضحيته بشاة واحدة لأمته لا للإجزاء وسقوط التعبد عنهم ولا يجوز بعير واحد ولا بقرة واحدة عن أكثر من سبعة ويجوز ذلك عن سبعة أو أقل من ذلك، وهذا قول عامة العلماء. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع 70/5 كتاب الاضحية في بيان محل اقامة الواجب)


*كتبه العبد محمد زبير الندوى*

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا


تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی