قربانی کے تین دن : حنفی شخص کا چوتھے دن قربانی کرنا


 *⚖سوال و جواب⚖* 


*📋مسئلہ نمبر 890📋*


(کتاب الاضحیہ، باب الاداء)


*حنفی شخص کا چوتھے دن قربانی کرنا*


 *سوال* اگر کوئی شخص مسلکا حنفی ہے لیکن قربانی چوتھے دن کرتا ہے تو کیا شریعت اسلامی کی رو سے یہ عمل درست ہوگا؟ (بعض احباب، فیسبوک)


 *بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم* 


 *الجواب وباللہ التوفیق*


پہلی بات تو یہ مد نظر رہے کہ فقہاء احناف کی تحقیق میں قربانی کے صرف تین ایام ہیں، اور یہ تین دن احادیث مبارکہ کی ایسی مضبوط اور اصح ترین روایات سے ثابت ہیں جس کا انکار کرنا ممکن نہیں، مثلاً امام مالک علیہ الرحمہ نے تین دن کی قربانی سے متعلق جو روایت مؤطا میں نقل کی ہے وہ اصح الاسانید میں سے ہے(١)، نیز تین دن کی قربانی پر دنیا کے تمام علماء و فقہاء اور جمیع صحابہ و تابعین کا اتفاق ہے، جبکہ چوتھے دن کی قربانی پر جمہور اہل علم کا اختلاف ہے، ائمہ مجتہدین میں سے صرف امام شافعی اور بعض دیگر اہل علم مثلاً ابن تیمیہ رحمہ اللہ وغیرہ کی رائے قربانی کرنے کی ہے۔ 


اب جو شخص امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تحقیق پر اعتماد کرتا ہے اور ان کے فہم و فراست اور اجتہاد کو درست سمجھتا ہے اور ان کے مستبنط کئے ہوئے مسائل کو اپنے لیے قابلِ عمل سمجھتا ہے یعنی انکی تقلید کرتا ہے تو اس کے لیے چوتھے دن کی قربانی جائز نہیں ہوگی؛ کیونکہ ایک تو احادیث سے تین دن کا ثبوت اس قدر پختہ اور یقینی ہے کہ اس کا انکار ممکن نہیں، دوسرے یہ کہ تین دن والی روایات میں تاویل کی نہ ضرورت ہے اور نہ اس کا احتمال ہے؛ جبکہ چار دن والی روایات ایک تو اس درجے کی نہ قوی ہیں اور نہ ہی اکثر ائمہ مجتہدین و فقہاء کے یہاں قابل عمل ہیں، نیز ان میں درایت کے اعتبار سے اشکال کی مکمل گنجائش ہے؛ اس لئے حنفی کے لیے چوتھے دن قربانی درست نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اکابر اہل علم (جن کے علم و تقویٰ اور فہم و فراست میں شک نہیں کیا جا سکتا ہے) نے نہایت صراحت سے چوتھے دن کی قربانی کو ناجائز قرار دیا ہے، چنانچہ مشہور محدث و فقیہ علامہ سراج الدین حنفی نے اپنی مشہور تصنیف "الفتاویٰ السراجیۃ" میں صراحتاً ناجائز لکھا ہے (٢) اسی طرح علامہ عالَم ابن العلاء الحنفی متوفی ٧٨٦ھ نے "المحیط البرھانی" کے حوالے سے چوتھے دن کی قربانی کو ناجائز لکھا ہے(٣) خاتمۃ المحققین علامہ شامی جن کی فقاہت پر جمیع علماء کا اتفاق ہے اور انکی کتاب مرجع علماء ہے نے لکھا ہے کہ قربانی کے دن گزر جانے کے بعد اس جانور کو صدقہ کرنا واجب ہے (٤) اس لئے جو حضرات حنفی ہیں انہیں اپنے امام پر اعتماد کرنا چاہیے اور اتنے عظیم محدثین و فقہاء کی تصریحات پر عمل کرنا چاہیے؛ واضح رہے کہ یہ تصریحات انکی اپنی من گھڑت نہیں ہیں بلکہ احادیث مبارکہ و آثار صحابہ میں طویل غور و خوض کے بعد لکھی گئی ہیں، ایسے حضرات جو صرف امت مسلمہ کو تفردات میں مبتلا کرنے یا بلاوجہ بال کی کھال نکالنے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں انکے ہفوات پر قطعاً نظر نہیں کرنا چاہیے، ایسے لوگ امام ابوحنیفہ کی فقاہت اور تقوی و دیانت کی برابری تو کجا عام اہل علم سے بھی اونچا مقام نہیں رکھتے، اس لئے اکابر فقہاء و محدثین نے جو چیزیں اپنے اجتہادات سے پیش کردی ہیں اپنے مسلک کی پابندی کے ساتھ اس پر عمل کرنے میں بہتری ہے، ورنہ کچھ باتیں یہاں سے لے کر کچھ وہاں سے لے کر اور کچھ اپنی من مانی کرکے عمل کرنے سے سوائے شیطان کے دھوکے میں آنے کے کچھ حاصل نہیں ھوگا۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


 *📚والدليل على ما قلنا📚*


(١) لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ (الحج 28)


’’ ﻓَﺎﻟْﻤَﻌْﻠُﻮْﻣَﺎﺕُ ﯾَﻮْ ﻡُ ﺍﻟﻨَّﺤْﺮِ ﻭَﯾَﻮْ ﻣَﺎﻥِ ﺑَﻌْﺪَﮦُ ‘‘

‏(ﺗﻔﺴﯿﺮﺍﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﺣﺎﺗﻢ ﺍﻟﺮﺍﺯﯼ : ﺝ 6 ،ﺹ 261 ‏)


’’ ﻋَﻦْ ﺳَﻠْﻤَۃَ ﺑْﻦِ ﺍﻟْﺎَﮐْﻮَﻉِ ﻗَﺎﻝَ ﻗَﺎﻝَ ﺍﻟﻨَّﺒِﯽُّ ﺻَﻠَّﯽ ﺍﻟﻠﮧُ ﻋَﻠَﯿْﮧِ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ ﻣَﻦْ ﺿَﺤﯽّٰ ﻣِﻨْﮑُﻢْ ﻓَﻼَ ﯾُﺼْﺒِﺤَﻦَّ ﺑَﻌْﺪَ ﺛَﺎﻟِﺜَۃٍ ﻭَﺑَﻘِﯽَ ﻓِﯽْ ﺑَﯿْﺘِﮧِ ﻣِﻨْﮧُ ﺷَﺌْﯽٌ ‘‘

‏( ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ : ﺝ  2 ،ﺹ 835 ،ﺑﺎﺏ ﻣﺎ ﯾﻮٔﮐﻞ ﻣﻦ ﻟﺤﻮﻡ ﺍﻻﺿﺎﺣﯽ‏)


ﻋَﻦْ ﺍَﻧَﺲِ ﺑْﻦِ ﻣَﺎﻟِﮏٍ ﻗَﺎﻝَ ﺍَﻟﺬَّﺑْﺢُ ﺑَﻌْﺪَ ﺍﻟﻨَّﺤْﺮِ ﯾَﻮْﻣَﺎﻥِ۔

( ﺳﻨﻦ ﮐﺒﺮﯼٰ ﺑﯿﮩﻘﯽ ﺝ 9 ﺹ 297 ﺑﺎﺏ ﻣﻦ ﻗﺎﻝ ﺍﻻﺿﺤﯽ ﯾﻮﻡ ﺍﻟﻨﺤﺮ)


وَحَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ : الْأَضْحَى يَوْمَانِ بَعْدَ يَوْمِ الْأَضْحَى. 


وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِكٍ أَنَّهُ بَلَغَهُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ مِثْلُ ذَلِكَ.(الموطا لمالك حديث نمبر ١٣٩٩, ١٤٠٠)


و أيام الذبح ثلاثة يوم العيد (النحر) و يومان بعده....... و يستمر وقت الذبح لآخر أي مغيب اليوم الثالث من ايام النحر كما قال الحنفية و هو رأي الحنابلة أيضا (الفقه الاسلامي و ادلته للزحيلي ٦٠٦؛٦٠٨ ج ٣)


و الصحيح قولنا لما روي عن سيدنا عمر و سيدنا علي و بن عباس ز بن سيدنا عمر و أنس بن مالك أنهم قالوا: أيام النحر ثلاثة. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ٢٨٧/٦ كتاب الأضحية)


(٢) الأفضل أن يضحي في أول أيام النحر، و هو اليوم العاشر من ذي الحجة، ثم في اليوم الحادي عشر، ثم في اليوم الثاني عشر، و لا يجوز بعد ذلك. (الفتاوى السراجية ص ٣٨٧ باب وقت التضحية)


(٣) فإذا غربت الشمس من الثاني عشر لا تجوز التضحية بعد ذلك. (الفتاوى الهندية ٤١٦/١٧ كتاب الأضحية زكريا جديد)


(٤) رد المحتار على الدر المختار ٤٦٣/٩ كتاب الأضحية.


 *كتبه العبد محمد زبير الندوي* 


تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی