چوتھے دن کی قربانی اور اس کا گوشت استعمال کرنے کا حکم- مدلل بحث

 *🗾سوال و جواب🗾*


*🖋مسئلہ نمبر 535🖋*


 *چوتھے دن کی قربانی اور اس کا گوشت استعمال کرنے کا حکم* 


 *سوال:* تیرھویں ذی الحجہ یعنی عید کے چوتھے دن قربانی کرنے اور اس کے گوشت کو استعمال کرنے کا کیا حکم ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ بدعت ہے اس لیے اس گوشت کو لینا اور استعمال کرنا درست نہیں ہے شرعاً اس کا کیا حکم ہوگا؟ (سید محمود ممبئی)


 *بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم* 


الجواب بسم ملہم الصواب


قربانی کے ایام کے سلسلے میں امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ، امام مالک، امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کی متفقہ تحقیق یہ ہے کہ قربانی کے ایام صرف تین ہیں ایک عید کا دن اور اس کے بعد دو دن اور، ان حضرات کے پاس قرآن و حدیث کی نہایت قوی اور معتبر روایات ہیں جن سے انہوں نے استدلال کیا ہے، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب "المؤطا" میں اس سے متعلق ایسی روایت نقل کی ہے جس کی سند اصح الاسانید میں سے ہے اس لئے ان ائمہ کے نزدیک چوتھے دن قربانی کرنا درست نہیں ہے، اگر کوئی کرتا ہے تو قربانی معتبر نہیں ہوگی(١)۔


جبکہ امام شافعی رحمۃ اللہ اور جدید فرقہ غیر مقلدین چار دن قربانی کے قائل ہیں، ان کے پاس بھی کچھ روایات ہیں جن سے وہ اس کے جواز پر استدلال کرتے ہیں لیکن تحقیقی نقطۂ نظر سے وہ روایتیں نہ ہی ائمہ ثلاثہ کے دلائل کی طرح قوی ہیں اور نہ ہی امت میں اس کا تعامل رہا ہے(٢)، اس لئے اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ تین دن قربانی کرنے پر پوری امت مسلمہ کا اتفاق و اجماع ہے جبکہ چوتھے دن قربانی میں اختلاف ہے، تین اکابر مجتہدین کی تحقیق میں وہ ثابت نہیں ہے، صرف امام شافعی رحمۃ اللہ کے نزدیک جائز ہے لیکن ان کے نزدیک بھی افضل اور بہتر پہلے دن ہی قربانی ہے، اس لئے کوشش کرنا چاہیے کہ جو مسئلہ اتفاقی اور اجماعی ہے اسی پر عمل ہو تاکہ کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے، بلاوجہ چوتھے دن قربانی کرنا اور اس پر جان بوجھ کر ضد کرنا اچھا نہیں ہے۔


اب اگر کوئی شخص چوتھے دن قربانی کرتا ہے اور وہ فقہ شافعی کا متبع ہے تو اس کے مسلک کے مطابق قربانی درست ہے اور اگر غیرمقلدین سے تعلق رکھتا ہے تو ان کی تحقیق کے مطابق درست ہے، البتہ ائمہ ثلاثہ امام ابوحنیفہ امام مالک امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کی تحقیق کے مطابق اس کی قربانی معتبر نہیں ہوگی، بلکہ وہ عام ذبیحہ کے حکم میں ہوگا اور واجب التصدق ہوگا(٣)، اس کو بدعت کا گوشت کہنا اور لوگوں کو اس گوشت سے منع کرنا درست نہیں ہے، ہاں لوگوں کو خود چاہیے کہ چوتھے دن کی قربانی سے رکیں اور اجماعی حکم پر عمل کریں۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


 *📚📚والدليل على ما قلنا📚📚* 


(١) لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ )

الحج (28)


وَحَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ : الْأَضْحَى يَوْمَانِ بَعْدَ يَوْمِ الْأَضْحَى. 


وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِكٍ أَنَّهُ بَلَغَهُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ مِثْلُ ذَلِكَ.(الموطا لمالك حديث نمبر ١٣٩٩, ١٤٠٠)


و أيام الذبح ثلاثة يوم العيد (النحر) و يومان بعده....... و يستمر وقت الذبح لآخر أي مغيب اليوم الثالث من ايام النحر كما قال الحنفية و هو رأي الحنابلة أيضا (الفقه الاسلامي و ادلته للزحيلي ٦٠٦؛٦٠٨ ج ٣)


(٢) أيام التشريق كلها منحر (رواه البيهقي و صححه ابن حبان)


في كل أيام التشريق ذبح (رواه أحمد والدار قطني)


(٣) اتفق العلماء على أن الذبح الذي يقطع فيه الودجان والمري والحلقوم مبيح للأكل (الفقه الاسلامي و ادلته للزحيلي ٦٥٣/٣)



 *كتبه العبد محمد زبير الندوي* 

مركز البحث و الإفتاء الجامعة الإسلامية دار العلوم مہذب پور سنجر پور اعظم گڑھ یوپی


تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی