قربانی کے احکام: بکروں کو شراب پلا کر پرورش کرنا اور قربانی کرنا


 *🌍سوال وجواب🌎*


🌏مسئلہ نمبر 1250🌏


(کتاب الصید والذبائح، جدید مسائل)


*بکروں کو شراب پلا کر پرورش کرنا اور قربانی کرنا*


*سوال:* بعض لوگ اپنے بکروں کو شراب پلاتے ہیں اور مشتری کو اس کا علم نہیں ہوتا تو ایسے بکروں کی قربانی جائز ہے؟ (مولانا سلمان گڈھوی، فاضل جامعہ اسلامیہ امداد العلوم وڈالی گجرات)


*بسم اللہ الرحمن الرحیم*


*الجواب و باللہ التوفیق*


جانوروں کو شراب پلانا مناسب نہیں ہے، چونکہ وہ ناپاک ہوتی ہے؛ اس لیے جان بوجھ کر ناپاکی کھلانا پلانا انسانی مروت و شرافت سے گری ہوئی بات ہے، تاہم شراب پلانے کے بعد شراب کا استحالہ ہوجاتاہے اور اس کا اثر باقی نہیں رہتا؛ا اس لیے اس جانور کی قربانی درست ہے، لیکن کوشش کی جائے کہ کچھ دنوں تک اپنے پاس جانور کو رکھا جائے تاکہ کچھ اثر اگر پیدا ہوگیا ہو تو زائل ہوجائے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


*📚والدليل على ما قلنا📚*


(١) عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَكْلِ الْجَلَّالَةِ وَأَلْبَانِهَا.

حكم الحديث: صحيح. (سنن أبي داود ٣٧٨٥ أَوَّلُ كِتَابِ الْأَطْعِمَةِ  | بَابٌ : النَّهْيُ عَنْ أَكْلِ الْجَلَّالَةِ وَأَلْبَانِهَا)


قال الخطابي: واختلف الناس في أكل لحوم الجلالة وألبانها، فكره ذلك أصحاب الرأي والشافعي وأحمد بن حنبل وقالوا: لا يؤكل حتى تحبس أياما وتعلف علفا غيرها، فإذا طاب لحمها فلا بأس بأكله. (عون المعبود شرح سنن أبي داود رقم الحديث ٣٧٨٥ أَوَّلُ كِتَابِ الْأَطْعِمَةِ  | بَابٌ : النَّهْيُ عَنْ أَكْلِ الْجَلَّالَةِ وَأَلْبَانِهَا)


" وَتَفْسِيرُ الْجَلَّالَةِ : الَّتِي تَعْتَادُ أَكْلَ الْجِيَفِ .. فَيَتَغَيَّر لَحْمُهَا ، وَيَكُونُ لَحْمُهَا مُنْتِنًا فَحَرُمَ الْأَكْلُ ؛ لِأَنَّهُ مِنْ الْخَبَائِثِ ... وَأَمَّا مَا يَخْلِطُ فَيَتَنَاوَلُ الْجِيَفَ وَغَيْرَ الْجِيَفِ عَلَى وَجْهٍ لا يَظْهَرُ أَثَرُ ذَلِكَ مِنْ لَحْمِهِ ، فَلَا بَأْسَ بِأَكْلِهِ " انتهى من " ( المبسوط للسرخسی 11/255)


حلّ أکل جدي غذي بلبن خنزیر؛ لأن لحمہ لا یتغیر وماغذي بہ یصیر متسہلکا لا یبقی لہ أثر (درمختار مع الشامی: ۹/ ۴۹۲، ط: زکریا)


(وَيَعْلِفُ) جَوَازًا (الْمُتَنَجِّسَ دَابَّتَهُ) لِخَبَرٍ صَحِيحٍ فِيهِ، أَمَّا نَجَسُ الْعَيْنِ فَيُكْرَهُ عَلَفُهَا بِهِ كَمَا صَرَّحَ بِهِ فِي الرَّوْضَةِ عَنْ فَتَاوَى صَاحِبِ الشَّامِلِ فِي الْمَأْكُولَةِ. (اسنى المطالب في شرح روضة الطالب ٥٦٨/١)


*كتبه العبد محمد زبير الندوى*

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا


تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی