قربانی کے احکام: کیا قربانی کرنے والے کی طرف سے جانور کو متعین کرنا ضروری ہے


 *🌹سوال وجواب🌹*


🥀مسئلہ نمبر 1272🥀


(کتاب الاضحیہ، باب النیۃ)


سوال: مدرسے کا کوئی ذمہ دار اپنی ذمہ داری پر لوگوں کی قربانی کرواتا ہے تو کئی جانور خرید کر اکٹھا کر لیتا ہے اور قربانی کے وقت ہر  جانور پر نیت کرتا ہے کہ یہ جانور فلاں فلاں سات لوگوں کی طرف سے ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا یہ نیت کرنا ضروری ہے یا یہ کہ جتنے لوگوں کے نام اسکے پاس درج ہیں ان میں سے جتنے جانور کی ضرورت ہے اتنے جانور ذبح کر دے بس سب کی طرف سے قربانی ہو جائیگی. نیز اگر ہر جانور پر نیت ضروری ہے تو سوال یہ ہے کہ اس مدرسے کے ذمہ دار کا وہ وکیل جسکو اس نے قربان گاہ پر مقرر کر رکھا ہے قربانی کروانے کے لئے اگر اس ذمہ دار کے بجائے اس وکیل نے نیت کر لی کہ یہ جانور فلاں فلاں کی طرف سے ہے تو کیا جن لوگوں کی اس نے نیت کی ہے انکی طرف سے قربانی ادا ہو گئی حالانکہ نیت کرنے کا کام وہ ذمہ دار کرتا ہے اور اس نے اسکو کہا بھی نہیں تھا کہ اس جانور میں فلاں فلاں کی نیت کر لینا۔ سوال کا جواب مع دلیل کے مرحمت فرمائیں۔ (محمد شہزاد قاسمی، ‌پرتابگڑھ یوپی)



بسم اللہ الرحمن الرحیم


الجواب و باللہ التوفیق


قربانی کے لیے ضروری ہے کہ جانور متعین ہو اور کس جانور پر کن لوگوں کی قربانی ہورہی ہے وہ بھی متعین ہوں، جانور کی تعیین کے بعد وکیل کی نیت کا اعتبار ہوگا، اس سلسلے میں نہایت احتیاط کی ضرورت ہے، حضرت الاستاذ فقیہ العصر مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی دامت برکاتہم العالیہ تحریر فرماتے ہیں:


"اس میں یہ مسئلہ بہت زیادہ اہم ہے کہ جس جانور کی قربانی جس شخص کی طرف سے ہو، ذبح کرتے ہوئے اس کی طرف سے قربانی کی نیت ہونی چا ہئیے اور جانور کو اس شخص کی طرف سے متعین رہنا چا ہئیے، اگر جانور کے ذبح کرنے کے وقت نیت اور تعیین نہیں کی کہ یہ فلاں جانور، فلاں شخص کی طرف سے ہے تو قربانی نہ ہوگی، یہ چاروں ائمہ کے یہاں ضروری ہے"(١)


البتہ بعض فقہاء کرام نے بڑی تنظیموں اور اداروں کی سہولت کی خاطر استحسانا بلا تعیین کے بھی قربانی درست قرار دیا ہے، فتاویٰ قاضیخان کے مطابق امام ابویوسف رحمہ اللہ کا بھی یہی رجحان ہے ماضی قریب کے کئی فقہاء اور دور حاضر کے بعض مفتیان کرام نے بھی بلا تعیین کے قربانی درست قرار دی ھے۔ (٢)


فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚


(١) کتاب الفتاوی 160/4 کتاب الاضحیہ

(٢) رجل ضحى عن نفسه و عن أربعة من عياله خمسة شياه و لم يعين كل واحد عن صاحبها عن أبي يوسف أنه يجوز عن الكل استحساناً. (فتاوى قاضيخان ٣٥١/٣ كتاب الاضحيه)


دیکھیے: امداد الفتاوی ٥٦٢/٣، کفایت المفتی ١٨٧/٨ فتاویٰ دار العلوم زکریا جنوبی افریقہ ٣١٨/٦.


*كتبه العبد محمد زبير الندوى*

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا


تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی