*قیادت کا بحران*

مسلم قیادت اور اس کا بحران کیوں

علامہ ابن خلدون فرماتے ہیں: ''خوب اچھی طرح سمجھ لیں کہ ایک حکمراں بھی اپنے آپ میں ناتواں اور کمزورہوتا ہے،وہ اپنے دشمنوں سے مقابلہ کے لیے اعوان وانصارکا محتاج ہے، اس پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائدہوتی ہے؛ چونکہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کی دیکھ ریکھ کا کام اس کے سپرد کیا ہے،اس کی اہم ترین ذمہ داری یہ ہے کہ اپنی رعایا کوآپس میں دست بگریباں ہونے سے محفوظ رکھے،اور ان کے مال وجائیداد ، مفادات اورکسب معاش کے ذرائع کا تحفظ کرے''۔

ابن خلدون نے اپنی اس گفتگو میں ایک حکمراں کی دو بنیادی ذمہ داریوں کا تعین کیا ہے،ایک تو لوگوں کے درمیان سماجی انصاف قائم کرنا ہے،اور دوسرے ان کے حقوق،ان کی ملکیتوں، اوران کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے ،اب ذرا سوچئے آخر لوگوں کا کیا ہوگا جب ایک حکمراں خود ہی لوگوں کی جائیداد میں ڈاکے دالنے لگے ، ان کے مفادات کو پامال کردے ، ان کی عزت وآبرو کے در پے آزار ہوجائے، اور ان کی آزادی وخود مختاری سلب کرلے ؟!

Read more

ہندوراشٹر کے لیے نئے پارلیمنٹ کا سنگِ بنیاد

قیامت کی نشانیوں میں ایک نشانی ترکوں سے جنگ دسواں حصہ

عرب بہار(٢٠١٠۔٢٠١٢ء)کے زمانہ میں عربوں کے انقلاب انگیز اور بابرکت اقدامات نے ثابت کردیاتھا کہ کچھ حکمراں اپنے عوام کے مفادات کے سوا ہر چیز کا خیال رکھتے ہیں، اورایسا لگتا ہے کہ ان کی حیثیت اس ''ہائی کمشنر'' کی ہے جس کو مغربی سامراج کے زمانہ میں عالم اسلام کے مختلف خطوں میں مقرر کیا جاتا تھا،آج بھی عرب حکام کا کردار مغربی طاقتوں کے ان نمائندوں سے کچھ مختلف نہیں جو نوآبادیاتی نظام کے دور میں جزوی یا کلی طور پر مقبوضہ عرب ملکوں میں بھیجے جاتے تھے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ قیادت ایک بہت ہی اہم اور نازک موضوع ہے ، اور قوموں کواپنی اجتماعی زندگی میں اکثر ادبارکے دن اپنے ان قائدین کی بدولت ہی دیکھنے پڑے ہیں ، جنہوں نے سنوارا کم، بگاڑا زیادہ، اپنے کاموں میں شفافیت کو کوئی اہمیت نہیں دی، بدعنوانیوں اوربد مستیوں میں سرتا پاڈوبے رہے ،ان کا حصہ تعمیری سرگرمیوں سے زیادہ تخریبی کاروائیوں میں رہا، اگر ہم ان مسائل پر غور کرتے ہیں جن سے امت اس وقت دوچار ہے،تو ان میں سرفہرست عام پسماندگی، بیکاری وافلاس ،بد اخلاقی اور بدنیتی کو رکھا جاسکتا ہے، اور تینوں قسم کے بحران قیادت اور افکارمیں بحران کا نتیجہ ہیں،کچھ اور نہیں۔

اگر قیادت کی تعریف کی بات کی جائے تو میرے نزدیک قیادت کا سیدھا مطلب ہے: لوگوں کو کسی مقصدخاص کی طرف راغب کرنے کی اہلیت، قائدانہ صلاحیت ایک جوہر ہے ، اس سے قطع نظر کہ ایک شخص لیڈرشپ کی کتنی کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے ، شخصیت کے ارتقا سے متعلق کتنے ورکشاپس میں شرکت کرتا ہے، اورکتنے لیکچر س سنتا ہے،ان کوششوں سے وہ قائد نہیں بن جائے گا، وہ اس وقت تک لیڈر نہیں بن پائے گا جب تک کہ اس کے پاس کم سے کم درجہ میں لیڈر شپ کی خصوصیات موجود نہ ہوں ، اورمختلف تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ:

(١)ایک فیصد لوگ فطری طورپر قائداور رہنما ہوتے ہیں ، جیسے حضرت علی بن ابی طالب ،حضرت عمرو بن العاص ،حضرت خالد بن الولید ، اورمشہور تابعی حضرت احنف بن قیس۔

(٢)ایک فیصد لوگ قیادت نہیں سیکھ سکتے ، چاہے وہ کتنی ہی کوشش کرلیں۔(٣)

اٹھانوے فیصدلوگ فطری طور پرقائد نہیں ہوتے؛ لیکن اگر وہ قائد بننے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ منصب قیادت حاصل کرسکتے ہیں ، اور اگرکوئی قائدانہ تربیت دینے والا مربی مل جائے تونوجوانوں کی بھاری اکثریت قیادت کے اوصاف کی حامل ہوسکتی ہے ،شر ط یہ ہے کہ انہیں کوئی ایسامخلص رہبر  مل جائے جو ان پر مسلسل محنت کرے،اور راہ قیادت میں ان کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتارہے۔

قیادت کے سلسلہ میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ قائد اور جس گروہ کی وہ رہنمائی کرتا ہے ان کے نزدیک کچھ مرتب اہداف ومقاصد ہوتے ہیں، جن کو حاصل کرنے کے لیے وہ جدوجہد کرتے ہیں ،قیادت کے میدان میں کامیابی کے لیے یہ بھی ضروری نہیں کہ ایک قائدپاکیزہ مقاصد اورصالح اہداف کے لیے کوشاں ہو ، اگر کوئی لیڈر بدنیت ہواور انتہائی مذموم مقاصد کے لیے بھی تگ ودو کرتا ہے تو اسے بھی اس کی نیت کے مطابق اس کے منفی نتائج حاصل ہوجاتے ہیں، فرعون کو ہی لے لیجئے،وہ اپنی قوم کا رہبر تھا،جس راستہ پر وہ لوگوں کو لے جانا چاہتا تھا لے گیا،نتیجہ بھی انجام کار اسی اعتبار سے ملے گا؛چنانچہ اس کے بد ترین مقاصد، اس کی مجرمانہ اور مشرکانہ کاروائیاں اسے اور اس کی قوم کو قیامت کے دن جہنم کی طرف لے جائیں گی، جیسا کہ اللہ تعالی نے اس کی اور اس کی قوم کے عبرتناک اخروی انجام کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے،یہاں بھی اس کی قیادت کا ذکر ہے: ''قیامت کے دن فرعون اپنی قوم کے آگے آگے ہوگا،پھر ان کو دوزخ میں پہنچادے گا،کیا ہی بری ہے جگہ جہاں یہ پہنچائیں جائیں گے''(ھود:٩٨)، اور بسا اوقات لوگ ایسے مجہول مقاصد کی طرف بھی لے جائے جاتے ہیں جن کے بارے ان کو کچھ معلوم بھی نہیں ہوتا، اس لیے وہ اپنے شک وتذبذب کے مارے بے مقصد لیڈروں کے پیچھے چل کر ایک نامعلوم مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں سے اپنی منزل اور دور ہوجاتی ہے،اور کبھی تو منزل مقصود کی طرف لوٹنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔

لوگوں کوکسی خاص مقصد کی طرف متوجہ کرنے کے لیے طریقۂ کار کی ضرورت ہوتی ہے ، اور قائدین اکثر ترغیب وترہیب کا طریقۂ کار استعمال کرتے ہیں ،جمہوری ممالک میں دھمکیوں، لاٹھیوں اور بے جا گرفتاریوں کا بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے ، جب کہ موروثی شاہی نظام میں جکڑے ہوئے ممالک میں تحائف اور مراعات کا راستہ زیادہ اختیار کیا جاتا ہے، کبھی خاموشی کے بھی دام لگتے ہیں،جرأت مند اور سخت گیر مخالفین کو بڑی قیمتوں میں خریدنے کی کوشش کی جاتی ہے، اور اب پابند سلاسل کرنا بھی عام بات ہے۔

کچھ رہنما لوگوں پر اثر انداز ہونے اور ان کو اپنے تابع فرمان رکھنے کے لیے جوش خطابت اور بیان بازی کے جوہر دکھاتے ہیں، ان میں سے کچھ اپنے زور خطابت اور وعدوں سے لوگوں کو قائل کرلیا کرتے ہیں، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں کو کسی بات کا قائل کرلینا قیادت کا ایک مؤثر طریقہ ہے،لیکن کیا اسے قیادت کہتے ہیں؟ ہرگز نہیں،قیادت کے نام پر فریب کا سودا ہے جو سربازار کیا جارہا ہے، قیادت صرف کریڈٹ لینے کا نام نہیں،شکست کی ذمہ داری قبول کرنا بھی قائد کا فریضہ ہے،خود نقصان اٹھا کر قوم کو فائدہ پہنچانا اور خود بھوک برداشت کرکے بھوکوں کو کھلانا،مشکلات پر پر امن طریقہ سے قابو پانا، اور ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنا بھی قائدکاکام ہے، کسی نے سچ کہا ہے:''جس نے سردی گرمی صرف کھڑکیوں سے دیکھی ہو اور بھوک صرف کتابوں میں پڑھا ہو، وہ عام آدمی کی قیادت نہیں کرسکتا''۔

قیادت اور اس کی تربیت کا موضوع مدت سے میری فکر ونظر کا محور رہا ہے، اور میں اکثر نوجوانوں کو اس موضوع پر مطالعہ وتحقیق کے اہتمام اور اس موضوع پر منعقد ہونے والے ورکشاپس میں حصہ لینے کی ہدایت کرتا رہا ہوں، میں نے تقریباً٢٥ سالوں کا طویل عرصہ علم قیادت کے مطالعہ اور اس کی ٹریننگ میں صرف کیا ہے ، اس اہم موضوع پر میری ایک فکر بن چکی ہے، ایک وژن تشکیل پا گیا ہے، میں نے لیڈر شپ ٹریننگ پر اچھا خاصا نظریاتی وتطبیقی مواد بھی جمع کیا ہے۔

تحقیق وجستجو کے ذریعہ میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ قیادت تمام شعبہ ہائے حیات سے مربوط ہے، سیاسی، معاشرتی، سائنسی، طبی، تعلیمی، عسکری اور معاشی ہر میدان میں اس کی ضرورت ہے، اور ہر سطح پر اس کی ضرورت ہے، چاہے حکومتیں ہوں یا تنظیمیں، سیاسی پارٹیاں ہوں یا تحریکیں، یہاں تک کہ کنبہ اور خاندانوں کی سرپرستی اور سربراہی میں بھی قائدانہ صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے، ان تمام شعبوں اور میدانوں میں  منفی نتائج کا اصل سبب یہی قیادت کا بحران ہے۔

قیادت بیداری کی شاہ کلید ہے، اپنے زریں ادوار میں بھی امت کی بیداری اور ہمہ گیر ترقی کا راز یہی تھا کہ رسول اللہ صلی الله عليه وسلم نے اپنی تربیت سے قائدین کی تیاری کا اہم کام انجام دیا، اور خود کو صحابہ کے درمیان اسی لیے رکھا تاکہ اعلی ترین امتیازی صلاحیتوں کے حامل افراد تیار ہوں، جنہوں نے آپ کے بعد ملکوں کو فتح کیا، اور قوموں کے لیے شمع راہ بن گئے۔

دوسری قوموں کی ہمسری سے ہمارے پیچھے رہ جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حکومتوں کے پروگراموں اور منصوبوں میں لیڈر شپ شامل نہیں، ہمارے یہاں ایسی حکومتیں کہاں ہیں جو اپنے منصوبوں میں ہر شعبہ کے لیے قائدانہ صلاحیتوں کے حامل نوجوانوں کی تیاری کو شامل کرتی ہیں، اور جبتک یہ عناصر حکومتوں کے اہداف اور ترجیحات میں شامل نہیں ہوں گے اس وقت تک قوم خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوپائے گی۔

سال (٢٠١١ء)کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ دنیا میں مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ ارب کے قریب پہنچ گئی ہے، سوال یہ ہے کہ اگر ہم دعوتی سرگرمیوں کو اور تیز تر کردیں اور٢٠٠ ملین نئے مسلمان حلقہ بگوش اسلام ہوجائیں، تو اس سے قطع نظر کہ یہ دنیوی واخروی سرخروئی کا یقینا سبب ہے، ہماری موجودہ اجتماعی صورت حال میں کوئی خاص فرق نہیں ہوگا، اگر ہماری تعداد١٧٠٠ ملین ہوجاتی ہے تو کیا ہماری قوم ترقی یافتہ ممالک کی صف میں آجائے گی ..؟ کیا صرف تعداد کی کثرت سے اس قوم میں خود مختاری اور قیادت واپس آجائے گی؟ ہماری تعداد میں کتنا ہی اضافہ ہوجائے ہماری نکبت وادبار میں کوئی تبدیلی محض کثرت سے پیدا نہیں ہوگی۔

اس کے بالمقابل اگر ہم امت میں ٢٠٠ مخلص قائدین پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں، جو اعتدال اور توازن کے اصول ومبادی کے ساتھ دین حق کے حقائق کا پورا ادراک رکھتے ہوں، وہ اپنے اپنے میدانوں کے ماہرین اور اصحاب اختصاص ہوں، مغرب اور اہل مغرب سے رو برو ہونے کا ان کے اندر تجربہ اور لیاقت ہو، میں دعوے سے کہتا ہوں کہ یہ٢٠٠قائدین اپنی اثر انگیزی میں ہزاروں واعظین وخطباء سے فائق ہوں گے،اور اس کے دور رس اثرات ہوں گے۔

اسی طرح اگر ہم قیادت اور رفاہی کاموں کے مابین ایک سرسری موازنہ کریں تو دیکھتے ہیں کہ زیادہ تر خوشحال لوگ مشکل گھڑیوں میں مصیبت زدہ لوگوں کی امداد سے پیچھے نہیں ہٹتے، اور لاکھوں کروڑوں ڈالرز آفت رسیدہ لوگوں کے نقصانات کی پابجائی اور باز آبادکاری کے لیے خرچ کئے جاتے ہیں، اور یہ ہمارا انسانی واخلاقی فریضہ ہے، اور سب سے بڑھ کر اسلام کی تعلیم ہے؛ لیکن ہماری تہذیبی نشاة ثانیہ اور قومی بیداری میں اس کا کیا حصہ ہے، اس کے بالمقابل اگر اس کا دس فیصد بھی لیڈر شپ ٹریننگ میں خرچ کیا جائے تو بہت سے مسائل حل ہوجائیں، دنیا میں مشکلات کبھی ختم نہیں ہوں گی؛ لیکن صالح قیادت سے ان مشکلات پر قابو پانے کا خوب سے خوب تر حل تلاش کرنا آسان ہوتا ہے،اور یہ قیادت  کندۂ ناتراش کو ''کسی قابل'' بناکر ہی نہیں بلکہ' کسی'جوہر قابل''کو آگے بڑھا کربھی حاصل کی جاسکتی ہے.

تحریر:ڈاکٹر طارق سویدان (کویت)

ترجمانی: محمد اعظم ندوی 

استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد 



تبصرے

تحریر کیسی لگی تبصرہ کر کے ضرور بتائیں
اور اپنے اچھے سجھاؤ ہمیں ارسال کریں

جدید تر اس سے پرانی